حکیم چٹکلے باز

ان کی کلاس میں سب ہی محتاط رہتے تھے لیکن پڑھاتے بہت اچھا تھے۔ پڑھاتے پڑھاتے وہ شعور کی رو میں بہہ جاتے تھے


رئیس فاطمہ August 22, 2025
[email protected]

ڈاکٹر اسلم فرخی ہمارے استاد تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں اس وقت بڑی بڑی قدآور شخصیات شعبہ اردو سے منسلک تھیں۔ جیسے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، جو صدر شعبہ بھی تھے۔ پروفیسر ابوالخیر کشفی جن سے سارے ہی طلبا و طالبات ڈرتے تھے، وہ بھرے مجمع میں اپنے شاگردوں کو ڈانٹ دیا کرتے تھے، اس لیے ان کی کلاس میں سب ہی محتاط رہتے تھے لیکن پڑھاتے بہت اچھا تھے۔ پڑھاتے پڑھاتے وہ شعور کی رو میں بہہ جاتے تھے، جس سے شاگردوں کے علم میں اضافہ ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے انھوں نے اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ ایسی پڑھائی تھی کہ آج تک یاد ہے۔

اس کے علاوہ منٹو کے افسانوں کا تجزیہ وہ اس طرح کرتے تھے کہ اس کے کرداروں سے ہمدردی ہو جاتی تھی۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی تھے جو سال اول کا سب سے مشکل مضمون فارسی ادبیات پڑھاتے تھے، جن کی صاحبزادی عظمیٰ فرمان شعبہ اردو کی چیئرپرسن بھی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر قیوم اور ڈاکٹر شاہ علی جو دیر تک یونیورسٹی میں موجود رہتے اور شاگردوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

پروفیسر جمیل اختر بھی تھے جو غالب پڑھایا کرتے تھے، لیکن ان کے پاس لوگوں کی آر جار بہت تھی مثلاً جون ایلیا اور عبیداللہ علیم اسی وقت آتے تھے جب ہمارا پیریڈ ہوتا تھا اور بھلا وہ مہمان نواز انسان اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر بھلا کلاس لینے کیسے آتے؟ ان کے علاوہ ڈاکٹر حنیف فوق اور مجنوں گورکھپوری بھی اسی شعبے سے منسلک تھے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ملک کے عظیم ادبا اور شاعروں سے تعلیم حاصل کی۔

اور ایک تھے دبلے پتلے آنکھوں پر سنہری فریم کا چشمہ لگائے اپنے سبجیکٹ میں ماہر، ڈاکٹر اسلم فرخی جو جب بولنے پر آتے تو پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجنے کے ساتھ ہی ان کا لیکچر ختم ہوتا۔ ہم لوگ اکثر اس بات سے پریشان ہوتے کہ اسلم صاحب کا لیکچر بالکل ٹیپ ریکارڈر کا لیکچر معلوم ہوتا، ہم لوگ ان سے کوئی سوال نہیں کرسکتے تھے۔ وہ بہت خوش مزاج تھے لیکن وقت ختم ہوتے ہی کسی روبوٹ کی طرح اٹھ کر چلے جاتے۔

جب بہت سے سوال ذہنوں میں جمع ہو گئے تو ایک دن جب وہ کلاس میں آئے تو میں جو سب سے اگلی صف میں بیٹھنے کی عادی تھی، اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی ’’سر! آپ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ انھوں نے میری طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا ’’جی فرمائیے! آپ تو ادیبہ ہیں یقینا بہت سے سوال ہوں گے۔‘‘ ’’نہیں سر! ایسا نہیں ہے، بلکہ ہم سب چاہتے ہیں کہ لیکچر کے بعد آپ سے سوال پوچھیں لیکن آپ اس کا موقعہ ہی نہیں دیتے۔‘‘ میری بات سن کر وہ اپنی نشست پر بیٹھے اور متانت سے بولے ’’بھئی! میں تو بہت عرصے سے اس سوال کا منتظر تھا کہ آپ لوگ سوال پوچھیں۔ آج سے میں دس منٹ قبل اپنا لیکچر ختم کر دیا کروں گا، اور آپ لوگ سوال پوچھ سکیں گے۔‘‘

ڈاکٹر اسلم فرخی بہت ہردلعزیز استاد تھے، وہ ایک کہنہ مشق ادیب بھی تھے، ان کے کئی نثری مجموعے شایع ہو چکے ہیں، جو عموماً شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہیں۔ زبان کا کیا کہنا، دلی کی با محاورہ زبان استعمال کی ہے کہ پڑھنے والے کو مزہ آجائے۔ ان کا ایک مجموعہ ’’آنگن میں ستارے‘‘ کے نام سے جنوری 2001 میں شایع ہوا تھا۔ اس میں سترہ شخصیات پر نہایت دلچسپ مضامین ہیں۔ مجھے ان مضامین میں ’’حکیم چٹکلے باز‘‘ بہت پسند آیا۔ جس زمانے میں اسلم صاحب گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے وابستہ تھے تب وہ ایک دن ٹہلتے ہوئے ڈاکٹر عبدالعلیم نامی شخص کے گھر مسلم لیگ کوارٹرز جا نکلے۔

وہاں دیکھا تو باہر دروازے پر ایک بڑی لمبی سی موٹر کھڑی ہوئی تھی، وردی پوش ڈرائیور گاڑی کے سامنے بیٹھا تھا، مجھے تعجب ہوا کہ ڈاکٹر صاحب جیسے درویش انسان کے پاس اس لمبی گاڑی میں کون آیا ہے۔ پھر خیال آیا بمبئی میں رہتے تھے، ممکن ہے کوئی سیٹھ شاگرد ہو۔

(ڈاکٹر عبدالعلیم کا تعلق تھیٹر سے تھا، ان کی کئی تصانیف اردو تھیٹر پر مبنی ہیں) اور استاد کے سلام کو حاضر ہوا ہو۔ مگر اندر گیا تو صرف ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے، چھوٹا قد، متوسط جسم، لمبوترا چہرہ، جھریوں سے ڈھکا ہوا، آنکھیں چھوٹی چھوٹی اندر کو دھنسی ہوئی، ماتھا چوڑا، گہرا سیاہ رنگ، بھاری اور گونجیلی آواز، سر پر جناح کیپ، ریشمی شیروانی، استری سے بے نیاز، علی گڑھ کٹ کا پاجامہ، پیروں میں معمولی جوتا، نامی صاحب نے تعارف کرایا ’’یہ حکیم مانی صاحب ہیں، بمبئی میں رہتے تھے، اسی وقت سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب اردو والے صنائع لفظی کو کبھی نہیں بھولتے۔ آپ نے بھی نامی اور مانی میں صنف تجنیس کا حسن برقرار رکھا ہے۔‘‘

حکیم صاحب کو اسلم صاحب نے حکیم چٹکلے باز لکھا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکیم صاحب ایک قناعت پسند انسان تھے، برنس روڈ پر ایس ایم کالج کے سامنے فلیٹ میں رہتے تھے، باقاعدہ مطب نہیں کرتے تھے، البتہ لوگوں کو بیماری کے نسخے بتا دیا کرتے تھے اور وہ نسخے ایسے ہوتے تھے کہ قبر میں جاتا آدمی اٹھ کھڑا ہو۔

مہاجر تھے، بمبئی سے ہجرت کرکے کراچی آ کر ایک کونے میں آ بسے تھے، بڑے وضع دار آدمی تھے، لالچ ان کے مزاج سے لگا نہ کھاتا تھا، مطب نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سندھ کے ایک رئیس کے ملازم تھے جس کے لیے معجونیں، کشتے اور مقویات تیار کرتے تھے۔ وہ اس رئیس کے طبیب خاص تھے جس نے انھیں ایک موٹر اور باوردی ڈرائیور دے رکھا تھا، وہ جہاں چاہتے تھے اس میں چلے جاتے تھے۔

ایک بار اسلم صاحب کا بڑا بیٹا بیمار ہوا، اس کی زبان پر ایک دھبا سا نمودار ہوتا اور پھر ساری زبان پر پھیل جاتا، بیٹے نے کھانا پینا بالکل چھوڑ دیا تھا، شہر کے نامی گرامی ڈاکٹروں سے علاج کرایا لیکن افاقہ نہ ہوا، بچہ ہاتھوں میں آگیا تو حکیم مانی کا خیال آیا۔ انھوں نے بچے کو دیکھا اور بکن کی پتیاں الماری سے نکال کر دیں اور کہا کہ یہ پتیاں پیس پیس کر کھائیے اللہ شفا دے گا۔ چنددن کے استعمال سے بچہ بھلا چنگا ہو گیا۔

حکیم صاحب نہ نسخہ لکھتے تھے ، نہ مطب کرتے تھے کہ کسی بھی وقت رئیس کا فون آ سکتا تھا کہ آ جائیے تو وہ مریضوں کو چھوڑ کر کہاں جاتے، جب کہ فون بھی رئیس نے لگوا کر دیا تھا۔ حکیم صاحب صرف چٹکلوں سے علاج کرتے تھے اور اسلم صاحب نے جو لقب انھیں دیا تھا وہ اس سے ناراض بھی نہیں تھے۔ مزاج کے بہت دھیمے تھے۔ ایک دفعہ ایک بچے کے پیٹ میں کیڑے ہوگئے، اینٹی پار کی کئی شیشیاں پلا دی گئیں لیکن افاقہ نہ ہوا، اینٹی پار سے نقصان بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ حکیم صاحب سے رابطہ کیا گیا، انھوں نے کہا کہ گھر میں پستے لا کر رکھ لیجیے اور بچے کو دن میں تین چار دفعہ کھلاتے رہیں، انشا اللہ افاقہ ہوگا۔ وہی ہوا ایک ہفتے کے استعمال سے کیڑے جاتے رہے۔

اسلم صاحب کو ایک دفعہ نزلے کی شکایت پیدا ہوگئی، صبح اٹھتے ہی چھینکیں آنا شروع ہو جاتیں اور پھر ساتھ ساتھ ناک سے بے تحاشا پانی بہنے لگتا۔ انھوں نے حکیم صاحب سے کہا کہ کوئی چٹکلا چھوڑیے اور میری بیماری دور کیجیے۔ انھوں نے کہا رات کو سوتے وقت ثابت اسپغول پانی سے پھانک لیجیے، خیال رہے پھوسی نہیں بلکہ ثابت اسپغول ہونی چاہیے۔ اسلم صاحب نے ثابت اسپغول رات کو پھانکنا شروع کردی اور دوسرے ہی دن سے انھیں فائدہ ہونے لگا اور مرض سے نجات مل گئی۔

اسلم صاحب کو جب بھی کبھی چھینکیں آنا شروع ہوتیں یا نزلہ بہتا تو وہ یہی علاج کرتے اور شفا پاتے تھے۔ اللہ اللہ کیسی کیسی قابل ہستیاں تھیں جو ہجرت کے کرب سے گزر کر نہ جانے کہاں خاک ہوئیں۔ کیسا کیسا قابل آدمی اپنے مسکن سے اجڑا، نئے دیس میں ٹھکانا ملا، مگر سب کو نہیں۔ انھی میں حکیم مانی جیسے لائق اور ہونہار طبیب بھی تھے، جنھیں اسلم صاحب نے زندہ کردیا۔

مقبول خبریں