عمران خان، عدالتی سزائیں اور پاکستانی سیاست کا نیا موڑ

آنے والا وقت یہ طے کرے گا کہ عمران خان کا یہ باب انجام ہے یا ایک نئے سیاسی بیانیے کا آغاز

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جو صرف اقتدار تک محدود نہیں رہتیں بلکہ ایک مکمل سیاسی عہد کی علامت بن جاتی ہیں۔ عمران خان بھی انہی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔

کرکٹ کے میدان سے سیاست کے ایوانوں تک ان کا سفر، عوامی مقبولیت، اسٹیبلشمنٹ سے قربت اور پھر کھلا تصادم، اور اب مسلسل عدالتی سزائیں، یہ سب مل کر پاکستان کی موجودہ سیاست کو ایک غیر معمولی موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں۔


سیاست میں عمران خان کا ابھار: عوامی مقبولیت اور نیا بیانیہ

عمران خان نے سیاست میں قدم ایک ایسے وقت میں رکھا جب پاکستان میں روایتی سیاسی جماعتوں، خاندانی سیاست اور کرپشن کے بیانیے سے عوام خاص طور پر نوجوان طبقہ بیزار ہو چکا تھا۔ تحریکِ انصاف نے خود کو ایک ’’متبادل سیاست‘‘ کے طور پر پیش کیا، جس کا مرکزی نعرہ احتساب، شفافیت اور خودداری تھا۔

2011 کے بعد عمران خان کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ 2018 کے انتخابات میں ان کی کامیابی محض انتخابی فتح نہیں بلکہ ایک سیاسی بیانیے کی جیت سمجھی گئی۔ تاہم، اسی دور میں یہ تاثر بھی مضبوط ہوا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات غیر معمولی طور پر ہم آہنگ ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات: قربت سے تصادم تک

عمران خان کے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات نسبتاً ہموار دکھائی دیتے تھے۔ خارجہ پالیسی، احتسابی عمل اور داخلی سلامتی کے معاملات میں ایک صفحے پر ہونے کا تاثر دیا جاتا رہا۔ خود عمران خان متعدد مواقع پر اسٹیبلشمنٹ کی ’غیر جانبداری‘ کی تعریف بھی کرتے رہے۔

تاہم، 2021 کے بعد یہ تعلقات تیزی سے بگڑنے لگے۔ خاص طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا معاملہ ایک ایسا موڑ ثابت ہوا جہاں اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو انہوں نے اسے ’سازش‘ قرار دے کر براہِ راست اسٹیبلشمنٹ پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے۔

یہی وہ لمحہ تھا جب عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک مختلف کردار میں نظر آئے۔ ایک ایسے مقبول لیڈر کے طور پر جو طاقتور اداروں کو چیلنج کر رہا تھا۔


عدالتی مقدمات اور سزا: توشہ خانہ ٹو کیس کا فیصلہ

عمران خان کے خلاف متعدد قانونی مقدمات پہلے ہی زیرِ سماعت تھے، مگر توشہ خانہ ٹو کیس میں 17، 17 سال قید کی سزا نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے سعودی عرب کے دورے کے دوران ملنے والے قیمتی تحائف، خصوصاً بلغارین جیولری سیٹ کو توشہ خانہ میں جمع نہ کروا کر اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔

عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ جیولری سیٹ کی اصل قیمت کروڑوں روپے تھی، مگر اسے دانستہ طور پر کم لگوا کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ فیصلے میں عمران خان کی عمر کا حوالہ دے کر سزا میں نرمی کا ذکر بھی کیا گیا، جس پر قانونی اور صحافتی حلقوں میں شدید بحث شروع ہو گئی۔

فیصلے پر ردعمل: حکومت، تحریک انصاف اور عوام

حکومت نے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا، جبکہ تحریک انصاف نے اسے سیاسی انتقام اور ’منظم دباؤ‘ کا نتیجہ کہا ہے۔ عمران خان کے وکلا کا مؤقف ہے کہ فیصلہ وکلا اور ملزمان کی مؤثر موجودگی کے بغیر سنایا گیا، جو شفاف عدالتی عمل پر سوالات اٹھاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل شدید اور منقسم ہے۔ ایک طرف عمران خان کے حامی اسے ایک مقبول لیڈر کو سیاست سے باہر کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، تو دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ احتساب سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے، چاہے وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو۔

سزا کے سیاسی اثرات: عمران خان بطور علامت

تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں جیلیں بعض اوقات سیاستدانوں کو کمزور کرنے کے بجائے انہیں علامت بنا دیتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک، سزا اور قید نے کئی رہنماؤں کو وقتی طور پر تو کمزور کیا، مگر سیاسی بیانیہ مزید مضبوط ہوا۔

عمران خان بھی اسی مرحلے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ 17 سال قید کی سزا انہیں عملی سیاست سے طویل عرصے کے لیے دور رکھ سکتی ہے، مگر ان کی مقبولیت اور ’مزاحمتی سیاست‘ کا بیانیہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

تحریک انصاف کا مستقبل: قیادت کا خلا یا نئی صف بندی؟

تحریک انصاف اس وقت شدید تنظیمی اور قیادتی دباؤ کا شکار ہے۔ متعدد رہنما سیاست چھوڑ چکے ہیں، کچھ جیل میں ہیں، اور کچھ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی طویل سزا پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کیا تحریک انصاف عمران خان کے بغیر مؤثر سیاست کر سکے گی؟

اگر پارٹی عمران خان کو صرف ایک شخصیت کے بجائے ایک نظریے کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو وہ زندہ رہ سکتی ہے۔ تاہم، اگر ساری سیاست ایک ہی نام کے گرد گھومتی رہی تو تنظیمی کمزوری مزید گہری ہو گی۔

پاکستانی سیاست پر وسیع اثرات

عمران خان کی سزا نے پاکستانی سیاست میں پہلے سے موجود پولرائزیشن کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک طرف ریاستی اداروں اور حکومت کا بیانیہ ہے، دوسری جانب عوامی مقبولیت اور سوشل میڈیا کی طاقت سے لیس ایک سیاسی جماعت۔

یہ صورتحال جمہوری عمل، عدالتی ساکھ اور سیاسی استحکام کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر سیاسی مسائل کا حل صرف عدالتوں اور جیلوں کے ذریعے تلاش کیا گیا تو اس کے نتائج طویل المدت عدم استحکام کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔

توشہ خانہ ٹو کیس کا فیصلہ محض ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی سمت کا تعین کرنے والا واقعہ ہے۔ عمران خان کو سزا ملی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس سزا سے ان کی سیاست ختم ہو گی یا ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گی؟

تحریک انصاف، حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ، سب اس وقت تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ آنے والا وقت یہ طے کرے گا کہ عمران خان کا یہ باب انجام ہے یا ایک نئے سیاسی بیانیے کا آغاز؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story