غزہ پر قبضے کے اسرائیلی بیانات نے واشنگٹن کو ناراض کر دیا، عرب ممالک دور ہونے لگے
واشنگٹن نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں سے متعلق مسلسل بیانات پر اسرائیل پر سخت تنقید کی ہے اور انہیں اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس قسم کے بیانات مشرقِ وسطیٰ میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور عرب ممالک کو ممکنہ امن عمل سے دور کر رہے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی اعلیٰ سطحی ذرائع نے اسرائیلی حکومت، خصوصاً وزیر دفاع یسرائیل کاتز کے حالیہ بیانات پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بیانات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں اور علاقائی تعاون کو متاثر کر رہے ہیں۔
یسرائیل کاتز نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے شمالی حصے میں آبادکاری کے مراکز قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاہم امریکی اعتراض کے بعد انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا مقصد عارضی فوجی رہائشی مراکز تھے۔ اس کے باوجود بعد ازاں انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ سے کبھی مکمل طور پر پیچھے نہیں ہٹے گی۔
یہ بیانات وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے مؤقف سے ہم آہنگ سمجھے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی سیاسی ذرائع کے مطابق نیتن یاہو کا ارادہ ہے کہ وہ امریکی صدر سے ملاقات میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان ایک مستقل سرحد کی منظوری حاصل کریں، جس کے تحت غزہ کے بڑے حصے پر اسرائیلی کنٹرول قائم رکھا جائے گا۔
نیتن یاہو کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے غزہ میں فوجی موجودگی میں اضافے کو سکیورٹی کی ضرورت قرار دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج کے زیر کنٹرول غزہ کا رقبہ حالیہ عرصے میں مزید بڑھ چکا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزارت خارجہ نے مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیر پر 14 ممالک کی جانب سے ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعتراضات جانبدارانہ اور امتیازی نوعیت کے ہیں۔