وزن کم کرنے والے انجیکشنز کا بڑھتا استعمال: ماہرین نے خبردار کردیا

رواں برس ’اوزیمپک‘ جیسی بھوک کم کرنے والی دواؤں کی طلب میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا

وزن کم کرنے والے انجیکشنز کے تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال نے ماہرینِ صحت کی تشویش بڑھا دی ہے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ انجیکشنز موٹاپے اور ذیابیطس کے فوری حل کے طور پر نہیں سمجھے جانے چاہئیں اور غیر منظم استعمال صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق رواں برس ’اوزیمپک‘ جیسی بھوک کم کرنے والی دواؤں کی طلب میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم یہ دوائیں عام شہری کی پہنچ سے دور ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگلے سال کئی دواؤں کے پیٹنٹ ختم ہوجائیں گے، جس کے بعد مقامی کمپنیاں سستے متبادل پیش کریں گی اور مارکیٹ میں ادویات کی بھرمار ہو جائے گی۔

ملک میں موٹاپے اور ذیابیطس کے مسائل شدت اختیار کررہے ہیں۔ اندازے کے مطابق ملک میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد ذیابیطس کا شکار ہیں جبکہ موٹاپے کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ان انجیکشنز کا بے جا استعمال پٹھوں کی کمزوری، لبلبے کی سوزش، پتے میں پتھری اور بعض صورتوں میں بینائی کے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان ادویات کی فراہمی اور تجویز سخت ضابطوں کے تحت لائی جائے۔

کئی ماہرین نے یہ بھی تشویش ظاہر کی کہ اب یہ انجیکشنز جمز اور بیوٹی کلینکس پر بغیر مکمل طبی جانچ کے فروخت ہو رہے ہیں، جو خطرناک رجحان ہے اور حکومت کو فوری مداخلت کی ضرورت ہے۔

ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ یہ انجیکشنز وقتی مدد فراہم کر سکتے ہیں، مگر اصل حل صحت مند غذا، ورزش اور طرزِ زندگی میں تبدیلی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ادویات عارضی سہارا ہوسکتی ہیں، لیکن مستقل صحت کے لیے روزمرہ زندگی کے طریقے بدلنا ناگزیر ہے۔

Load Next Story