کائنات کے ابتدائی دور میں ہونیوالے پُراسرار واقعے کا سراغ لگا لیا گیا
ماہرینِ فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے کائنات کے ابتدائی دور کی تحقیق میں ایک تاریخی سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ (JWST) کی مدد سے انہوں نے ایک ایسے سپرنووا کا سراغ لگا لیا ہے جو اب تک دریافت ہونے والے سپرنووا میں سب سے زیادہ فاصلے پر موجود ہے۔ سپرنووا کسی دیوہیکل ستارے کی دھماکہ خیز موت کو کہا جاتا ہے۔
یہ دھماکا اس وقت ہوا جب کائنات کی عمر صرف تقریباً 73 کروڑ سال تھی۔ یہ دور ’ری آئنائزیشن کا دور‘ کہلاتا ہے، جب ابتدائی کہکشائیں ابھی وجود میں آنا شروع ہوئی تھیں۔
اس واقعے کی پہلی نشاندہی 14 مارچ 2025 کو ہوئی، مگر براہِ راست دھماکا دیکھ کر نہیں بلکہ انتہائی طاقتور شعاعوں کے ایک زبردست اخراج کے ذریعے، جسے گیما رے برسٹ (GRB) کہا جاتا ہے۔ اس سگنل کو خلا میں موجود SVOM مانیٹر نے ریکارڈ کیا۔
تقریباً 110 دن بعد سائنس دانوں نے اسی مقام پر جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کا رخ کیا۔ انہوں نے کامیابی سے دھماکے کی روشنی کو اس کی نہایت مدھم میزبان کہکشاں کی روشنی سے الگ کر لیا، اور یوں اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ واقعی ایک سپرنووا وقوع پذیر ہوا تھا۔
تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر انتونیو مارٹن کیریلو نے اس دریافت کو ایک ’فیصلہ کن ثبوت‘ قرار دیا، جو دیوہیکل ستاروں کی موت اور گیما رے برسٹس کے درمیان براہِ راست تعلق ثابت کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک جن سپرنووا کا ہم نے مطالعہ کیا ہے، وہ تقریباً سب ہمارے نسبتاً قریب ہی تھے۔ جب ہم نے اس سپرنووا کی عمر کی تصدیق کی تو ہمیں یہ جاننے کا ایک نایاب موقع ملا کہ اُس دور میں کس قسم کے ستارے موجود تھے اور کس طرح فنا ہوئے۔
سب سے حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ اتنے قدیم زمانے میں ہونے والا یہ دھماکا، اپنی خصوصیات میں آج کی جدید کائنات میں دیکھے جانے والے سپرنووا سے تقریباً بالکل یکساں ہے۔