ہندوستان آگ سے کھیلنے سے باز نہیں آ رہا۔ عین اس وقت جب انڈیا اپنے تئیں خطے کے غالب اور طاقتور ترین ملک کے زعم میں مبتلا ہو رہا تھا اور خطے کے تمام ممالک کو بے وقعت سمجھ رہا تھا،کایا پلٹ گئی اور اس کا غرور خاک میں مل گیا۔اس نے پاکستان کو کمزور سمجھتے ہوئے اندر گھُس کر مارنے کی کوشش کی تو بالاکوٹ کے علاقے میں انڈیا کے دو جہاز کھیت ہوگئے جب کہ ایک پائلٹ گرفتار ہو گیا۔ہندوستان کو عادت پڑ گئی تھی کہ فالس فلیگ آپریشن کر کے،اپنے لوگوں کو مار کر پاکستان پر الزام دھرے۔اس طرح وہ ہر مرتبہ پاکستان پر حملے کا جواز ڈھونڈتا رہا۔اپریل 2025میں بھی پہلگام والا ڈرامہ رچایا گیا،تاکہ پاکستان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے آزاد کشمیر پر قبضہ کر لے لیکن انڈیا کے ساتھ بہت بری ہوئی۔
اب ساری دنیا مان چکی ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے سات جہاز مار گرائے۔اس کے ساتھ انڈیا کے پاس دنیا کے بہترین ایئر ڈیفنس سسٹم ایس-400 کی کم از کم دو بیٹریاں بھی تباہ ہوئیں۔اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں ہندوستانی اقدامات کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔پاکستان نے مئی2025 میں جو جنگی کامیابیاں حاصل کی ہیں اس سے انڈیا کی ہر محاذ پر ناکامیوں کا تسلسل شروع ہو گیا ہے۔پاکستان کی کامیابی نے بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔
حالیہ وقتوں میں انڈیا کی دوسری بڑی ناکامی بنگلہ دیش میں ہوئی ہے۔1971کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام سے انڈیا پاگل ہو کر آپے سے باہر ہو گیا تھا۔اس نے بنگلہ دیش کو ایک طفیلی ریاست بنا لیا تھا۔انڈیا بھول گیا تھا کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں نے پورے بنگلہ دیش میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کر لیا تھا ۔بنگلہ فوج اور پولیس عوام مخالف ہو چکی تھی۔ہندوستان اور عوامی لیگی حکومت شاید بھول گئی تھی کہ بنگلہ دیش کے لوگوں کی اکثریت مسلمان ہے جو حریت کے متوالے ہیں۔
یہ لوگ ہندو دھرم کے پجاریوں کو لمبے عرصے اپنے اوپر مسلط نہیں رہنے دیںگے۔وہ انڈیا کے خلاف بڑھتی نفرت اور پیدا ہونے والی بے چینی کا ادراک نہ کر سکے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستانی سفارت کار اور ایجنسیوں کے لوگ آدھی صدی گزر جانے کے باوجود بنگلہ دیشی مزاج کو نہیں سمجھ سکے۔ہندوستان جس طرح مئی 2025کی ہزیمت کو نہیں ہضم کر سکا اسی طرح اگست 2024 میں شیخ حسینہ کی اقتدار سے محرومی کے صدمے کو بھی ہضم نہیں کرسکا۔بھوٹان کے سوا خطے کا کوئی بھی ملک ہندوستانی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں ہے۔
ان حالات میں بنگلہ دیش میں فروری 2026 کو عام انتخابات کے اعلان نے انڈیا کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔انڈیا کو یقین ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں جو بھی حکومت بنے گی وہ شیخ حسینہ کی حکومت جیسی ہندوستان دوست نہیں ہو گی اور اگر جماعتِ اسلامی آ گئی تو انڈیا کو بنگلہ دیش سے مکمل ہاتھ دھونے پڑیں گے۔چونکہ اگلے انتخابات میں نوجوان قیادت بھاری تعداد میںکامیاب ہو سکتی ہے اس لیے انڈین انتظامیہ اور ایجنسیوں نے بنگلہ دیش کو Destablizeکرنے اور نوجوان رہنماؤں کو ٹھکانے لگانے کی ٹھان لی ہے۔
بنگلہ دیش میں نوجوان قیادت کے درمیان شریف عثمان ہادی ایک انتہائی موئثر آواز تھی۔وہ ایک آزاد امیدوار کے طور پر ڈھاکا سے انتخاب لڑ رہے تھے۔عثمان ہادی جرات و ہمت کا ایک پیکر تھے۔ خطرات سے کھیلنے والے اس بے باک نوجوان رہنماء نے گریٹر بنگلہ دیش کا ایک نقشہ جاری کیا تھا جس میں انڈیا کے بھی حصے شامل تھے۔وہ انڈیا کے خلاف ویسے بھی بہت بولتے تھے۔ اس کو اندرون بنگلہ دیش کے علاوہ انڈیا سے بھی دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو رہی تھیں۔بلند حوصلگی کا یہ مینارہ مسجد سے نماز ادا کرکے نکلا اور آٹو رکشے میں بیٹھا تو موٹر سائیکل پر دو نقاب پوش آئے اور ہادی کے سر کا نشانہ لے کر فائر کیا۔
ہادی کو پہلے مقامی اور پھرسنگاپور کے ایک اچھے اسپتال منتقل کیا گیا۔ہادی سنگاپور میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ ہادی نوجوانوں میں بہت مقبول تھا۔اس کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی۔عوام خاص کر نوجوان روتے پیٹتے،غصے سے بھرے باہر نکل آئے۔کسی کو بھی عثمان ہادی کے قاتلوں کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔ سب جانتے تھے کہ حریت کے اس استعارے کو انڈیا اور عوامی لیگ نے مروایا ہے اور اس کے قاتل انڈیا بھاگ گئے ہیں۔
عوام نے مظاہروں کے درمیان انڈیا سے عثمان ہادی کے قاتلوں اور شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔شیخ مجیب کے گھر کو جلایا گیا۔ دو اخبارات پر حملہ ہوا، یہ دونوں اخبارات بھارت نواز جانے جاتے ہیں۔خدا کا شکر ہے تمام صحافی محفوظ رہے۔ شریف عثمان ہادی کی میت ڈھاکا لائی گئی تو فیصلہ ہوا کہ عثمان ہادی کا جنازہ پارلیمنٹ کے سامنے ادا کیا جائے گا اور اسے مشہور بنگالی شاعر جناب نذرالاسلام کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔ہادی کے جنازے میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر نوبل انعام یافتہ جناب محمد یونس بھی دوسری اہم شخصیات کے ساتھ شریک ہوئے۔