پرامن بلوچستان کی ضرورت

محمد سعید آرائیں  جمعـء 15 اگست 2014

رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان کو ملک دشمن عناصر نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ہی صوبے کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جس سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی بلوچستان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اور غلط افواہوں کے باعث ایسا تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ جیسے بلوچستان کے عوام اپنے ملک سے مایوس ہوکر انتہائی اقدام کا سوچ رہے ہیں اور اب پاکستانیوں کے لیے بلوچستان کا سفر غیر محفوظ اور ناممکن ہوگیا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

بلوچستان کے 32 اضلاع اور وسیع علاقوں میں بلوچوں کے ساتھ پٹھانوں کی بھی بہت بڑی تعداد آباد ہے جس کی وجہ سے اسے دو لسانی صوبہ بھی کہا جاتا ہے اور بلوچ اور پشتون آبادی کے ساتھ پنجابی آبادکاروں، سندھی، اردو، سرائیکی بولنے والوں کی بھی قابل ذکر تعداد آباد ہے جنھوں نے بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تعلیم وصحت کے میدان میں ملک بھر سے آئے ہوئے ماہرین نے بھی بلوچستان کے عوام کو تعلیم سے روشناس کرانے اور علاج و معالجے کی سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تعلیم و صحت کے میدان میں صوبے کے عوام کی خدمت کرنے والوں کو ملک دشمنوں کے ہاتھوں جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا مگر وہ خوفزدہ ہونے کے باوجود اب بھی صوبے کے مختلف علاقوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

بلوچستان میں عشروں سے آباد غریب محنت کشوں کی بڑی تعداد پنجاب سے بھی تعلق رکھتی ہے اورمختلف پیشوں سے منسلک ہے ان لوگوں کے ساتھ بعض افسوسناک واقعات ضرور ہوئے اور بہت سے پنجاب سے تعلق کے باعث قتل بھی ہوئے مگر ان کے قتل کو بلوچ اور پشتون افراد نے بلوچستان دشمنی قرار دیا اور دونوں کی اکثریت ان کی خدمات کو تسلیم کرتی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ایسے افسوسناک واقعات مزید نہ ہوں تاکہ بلوچستان پرامن رہے اور یہاں رہنے والے ماضی کی طرح مل جل کر بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرتے رہیں۔

حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان نے سکھر اور کوئٹہ کے درمیان اہم شاہراہ اور ریلوے ٹریک کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کر رکھے ہیں اور اب یہ قومی شاہراہ غیر محفوظ نہیں ہے جس طرح گزشتہ حکومت میں بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کرکے بعض مسافروں کو قتل کیا گیا تھا۔

موجودہ حکومت میں ریلوے ٹائم ٹیبل میں بھی تبدیلی کردی گئی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ کوئٹہ سے جیکب آباد تک کوئٹہ سے کراچی اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی ٹرینیں دن کی روشنی میں چلیں اسی لیے صبح 9 بجے کوئٹہ سے جعفر ایکسپریس چلتی ہے جس کے ایک ایک گھنٹے بعد دیگر ٹرینیں روانہ ہوتی ہیں جن میں مسافروں کی حفاظت کے لیے پولیس اور ایف سی تعینات کی گئی ہے۔

کوئٹہ سے روانگی اور سبی سے کوئٹہ جانے والی گاڑیوں میں سفر کرنے والے مسافروں کے سامان کی کتوں کے ذریعے تلاشی لی جا رہی ہے اور جیکب آباد سے کوئٹہ تک جہاں قومی شاہراہ اور ریلوے ٹریفک ساتھ ساتھ چلتے ہیں وہاں جگہ جگہ مسلح ایف سی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جو سڑک اور ریلوے ٹریک کی حفاظت کر رہے ہیں اور دونوں طرف دور دور تک ویران نظر آنے والے علاقے کی نگرانی کر رہے ہیں۔

بلوچستان عملی طور پر پشتون اور بلوچ بیلٹ میں بھی تقسیم ہے جہاں بعض اضلاع میں دونوں کی الگ الگ اکثریت ہے اور بعض علاقوں میں تعداد کم زیادہ ہے اور ان کے درمیان کوئی لسانی تفریق نہیں ہے اور نہ بلوچستان کے پشتون صوبے کی تقسیم چاہتے ہیں۔

راقم کو حال ہی میں بلوچستان کے تین اضلاع کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ کے مختلف علاقوں میں ایک طویل عرصے بعد جانے کا موقع ملا اور یہ تمام علاقے پشتون اکثریت کے علاقے ہیں جن کی حکومت میں نمائندگی پشتون خواہ ملی پارٹی کر رہی ہے جس کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہیں جب کہ بلوچ علاقے سے تعلق رکھنے والی نیشنل پارٹی کا ایک گروپ میر حاصل بزنجو کی قیادت میں حکمران ہے اور اسی گروپ کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں اور نیشنل پارٹی کا مینگل گروپ اپوزیشن کے ساتھ ہے اور اے این پی، جے یو آئی کے دونوں گروپ اور پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن میں موجود ہیں، بلوچستان کی حکومت میں مسلم لیگ(ن) اور (ق) بھی مخلوط حکومت میں شامل ہیں۔

وزیر اعظم نے صوبے کی دو بڑی پارلیمانی پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود مسلم لیگ کا وزیر اعلیٰ نہیں بنوایا تھا اور نیشنل پارٹی کو وزارت اعلیٰ اور پختون خواہ پارٹی کو گورنر شپ دی تھی مگر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے رویے سے مسلم لیگی مطمئن نہیں ہیں اور ڈاکٹر مالک اپنی اہم حلیف مسلم لیگ کو ساتھ لے کر نہیں چل پا رہے۔

کوئٹہ کے بعد پشین صوبے کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں پختون اکثریت میں ہیں اور ان اضلاع میں پختون خواہ پارٹی کے علاوہ کسی اور جماعت کے جھنڈے زیادہ نظر نہیں آئے ایف سی کے اہلکار قومی شاہراہ کے قریب جہاں تعینات ہیں وہاں قومی پرچم لہرا رہے ہیں۔

صوبے کا سب سے بڑا شہر کوئٹہ ہے جہاں پختونوں کی اکثریت ہے اور ان علاقوں کو آبادکار محفوظ تصور کرکے وہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے علاقوں کی مارکیٹ ویلیو بڑھ رہی ہے اور کرائے بھی زیادہ ہیں۔ سریاب روڈ اور وہ علاقے جو بلوچوں کے شمار ہوتے ہیں وہاں پراپرٹی ویلیو ڈاؤن ہوگئی ہے۔ ان علاقوں سے آبادکار منتقل ہوچکے ہیں اور پختون علاقوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔

کوئٹہ میں مجموعی صورتحال اطمینان بخش نظر آتی ہے جہاں مارکیٹوں، بازاروں اور بڑے شاپنگ سینٹروں میں عید کے بعد بھی رونق ہے جہاں کوئی کشیدگی نظر نہیں آتی اس طرح پشین، کچلاک، چمن بھی پرامن دکھائی دیتے ہیں اور ضرورت اس امرکی ہے کہ پورا بلوچستان پرامن ہو اور وہاں رہنے والوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو اور حکومتوں میں سب کے ساتھ انصاف ہو تو شکایات کم ہوسکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔