مسجد شاہ چراغ کی تعمیر کے لیے نواب زکریا کی والدہ بیگم جان نے اپنے گہنے وقف کئے

مدثر بشیر  اتوار 17 اگست 2014
بہاولپور اور چشتیاں کے علاقے کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ یہاں سے کئی بزرگان دین حق کی شمع تھامے یوں اٹھ کھڑے ہوئے کہ پورے ہندوستان کی سرزمین جگمگا اٹھی۔ فوٹو: فائل

بہاولپور اور چشتیاں کے علاقے کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ یہاں سے کئی بزرگان دین حق کی شمع تھامے یوں اٹھ کھڑے ہوئے کہ پورے ہندوستان کی سرزمین جگمگا اٹھی۔ فوٹو: فائل

لاہور میں مزارات کے ساتھ مسجد کی تعمیر کی روایت خاصی پرانی ہے۔ مزارات کے ساتھ موجود مساجد ان ہی صاحب مزار کے نام سے منسوب ہو جاتی تھیں، جیسا کہ مسجد داتا دربار ؒ ، مسجد شاہ محمد غوثؒ اور اسی طرح کی کئی اور مساجد بھی صاحب مزار ہی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

مسجد شاہ چراغ، عہد شاہ جہانی کے ایک بزرگ حضرت شاہ چراغ ؒ کے نام سے نسبت رکھتی ہے۔ ان کا پیدائشی نام سید عبدالرزاق تھا بعدازاں اپنے دادا کے دیئے پیار کے نام کے باعث دنیا بھر میں شاہ چراغ کے نام سے جانے گئے۔ ان کا شمار لاہور میں مدفون ان اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جن کے معتقدین میں اس وقت کے بادشاہ اور اہل حکم بھی رہے۔ ان کے آباؤ اجداد اوچ شریف ریاست بہاولپور سے تھے۔

جنوبی پنجاب میں ملتان کو مزارات کی سرزمین مانا جاتا ہے۔ اسی طرح بہاولپور اور چشتیاں کے علاقے کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ یہاں سے کئی بزرگان دین حق کی شمع تھامے یوں اٹھ کھڑے ہوئے کہ پورے ہندوستان کی سرزمین جگمگا اٹھی۔ شاہ چراغؒ کے پرکھوں کا سفر جو اوچ شریف سے شروع ہوا وہ لاہور تک کس طرح آیا اس حوالے سے ایک تحریر نقوش لاہور نمبر (ص305) پر یوں ملتی ہے۔

’’ان کا اصل نام سید عبدالرزاقؒ تھا۔ والد کا نام عبدالوہاب بن سید عبدالقادر ثالث بن محمد غوث بالا پیر سادات گیلان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بزرگ قصبہ اوچ (بہاولپور) سے ست گرہ ( منٹگمری) میں آئے۔ ست گرہ سے ان کے جد امجد محمد غوثؒ بالا پیر پہنچے۔ یہ زمانہ غالباً ہمایوں بادشاہ کا تھا۔

آپ نے شہر سے باہر جنوب مشرق کی طرف قیام کیا اور اپنے علاقے کا نام (بقول صاحب تحقیقات چشتی) رسول پورہ رکھا۔ لیکن جب ہمایوں نے لنگر خان بلوچ کو لاہور میں جاگیر دی اور لنگر خان  نے یہاں اپنے عالیشان مکانات تعمیر کرائے اور رفتہ رفتہ یہاں ایک محلہ آباد ہو گیا تو رسول پورہ کی جگہ  لنگر خان نے لے لی۔ اب نہ رسول پورہ ہے نہ محلہ لنگر خان، نہ عالیشان مکانات کے کوئی آثار، جب سید عبدالرزاق پیدا ہوئے تو ان کے جد امجد صاحب حیات تھے۔ انہوںنے فرمایا ’’در خانہ چراغے پیدا شدہ است کہ خانہ خاندان ماز منور گردد‘‘۔ اس لئے شاہ چراغ کے خطاب سے مشہور ہو گئے اور یہ نام کچھ ایسا مشہور ہوا کہ عوام اصل نام کو بھی بھول گئے‘‘۔

جگہوں اور مقامات کے نام کو تبدیل کرنے کی روایت دنیا بھر میں موجود رہی۔ جس طرح مقامات مقدسہ کی سرزمین صدیوں سے الحجاز کہلاتی رہی اور جب سعود قبیلے کی حکمرانی دور جدید میں سامنے آئی تو یہ نام سعودی عرب میں تبدیل ہو گیا۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی یہ رواج بطور خاص رہا۔ ہندوستان میں کلکتہ شہر کا نام تبدیل کر کے کول کتہ رکھ دیا گیا۔ دلی کو دہلی کا نام دے دیا گیا۔

بمبئی کا نام بومبے ہوا اور پھر ممبیٔ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں لائلپور کا نام فیصل آباد رکھ دیا گیا‘ چوہڑ کاہنہ کا نام فاروق آباد ہو گیا‘ مغل عہد کا ست گرہ ‘ انگریز سرکار کے عہد میں منٹگمری میں تبدیل ہوا اور تقسیم کے کافی عرصہ کے بعد ساہیوال رکھ دیا گیا۔ نام کی تبدیلی کی جو بھی وجوہات ہوں، ان کو ان کے پرانے ناموں کے ساتھ بھی زندہ رکھنا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تاریخ سے بہر کیف آگاہی ضرور رکھیں۔

حضرت شاہ چراغ ؒ کی وفات 1068ھ بمطابق 1657ء کو ہوئی۔ مزار کی تعمیر کے حوالے سے مؤرخین کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ مزار کی تعمیر بحکم شاہ جہاں ہوئی اور کچھ مؤرخین کا یہ کہنا ہے کہ مزار مبارک کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر کے احکامات سے ہوئی اگر وفات کے ان کے ایام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو شاہجہاں اتنی طاقت ہی میں نہیں تھا جس سے ایسے احکامات جاری کئے جاتے۔ اسی لئے اورنگزیب کے حوالے سے جڑی روایت زیادہ مستند دکھائی دیتی ہے۔

مزار اور اس سے ملحقہ مسجد کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص26) پر یوں تحریر کیا۔

’’یہ مقبرہ مربع صورت کا پختہ چونے کی عمارت کا بنایا گیا ہے۔  دروازہ جنوب کی سمت ہے۔ مقبرے کے اندر آٹھ قبریں ہیں۔ ایک تو شاہ چراغ کی اور سات ان کی اولاد کی۔ چھ خشتی قالبوتی داد اور اوپر عالی شان گنبد ہے۔ مسجد بھی چونہ گچ ہے جس کی پانچ محرابیں اور پانچ گنبد ہیں۔ انگریزوں کی عمل داری ہوئی تو اس کو کوٹھی بنا لیا گیا اور میجر میگریگر صاحب و ویڈربرن صاحب وسمم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنران اس میں رہتے رہے۔ پھر اکاؤنٹنٹ کا دفتر اس میں مقرر ہو گیا۔ اب کوٹھی یعنی مسجد کا احاطہ علیحدہ ہے اور مقبرے کا علیحدہ اور مقبرے پر قبضہ سادات گیلانی کا ہے۔ ہر سال یہاں میلہ ربیع الثانی کی سترھویں تاریخ کو ہوتا ہے اور خلقت بہت جمع ہوتی ہے۔‘‘

نواب زکریا خان کی والدوہ بیگم جان کو حضرت شاہ چراغؒ کے مزار سے انتہائی عقیدت تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اس مزار کے ساتھ ملحقہ جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کروائی اور ساتھ ساتھ یہ بھی وصیت کی کہ اگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی تو ان کے بعد ان کے زیورات بیچ کر مسجد کی تعمیر مکمل کی جائے۔

لاہور میں مساجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار شہنشاہ اکبر کی بیگم مہارانی جودھا بائی سے شروع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی تعمیر کردہ مسجد ’’بیگم شاہی مسجد‘‘ آج بھی قلعہ لاہور کی مشرقی سیدھ میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے بعد یہ سلسلہ دائی لاڈو‘ دائی انگہ‘ رانی موراں کی تعمیر کردہ مساجد میں دکھائی دیتا ہے۔

عہد حاضر تک یہ سلسلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جس میں خواتین نے مسجد کی تعمیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہاں پر بطور خاص میں اردو کے معروف شاعر ضمیر جعفری مرحوم کی بھانجی میمونہ اکبر کا ذکر کرنا چاہوں گا جو کہ جاوید اکبر کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے پچھلے چند ماہ میں دن رات محنت کر کے سوتر منڈی باٹا پور لاہور میں مسجد غوثیہ محمدیہ کی تعمیر پایۂ تکمیل تک پہنچائی ۔ میمونہ جاوید نے نہ صرف مسجد کی تعمیر کے معارف کا انتظام کیا بلکہ مزدوروں اور مستریوں کے ساتھ کام پر جڑی رہیں۔

اب کچھ تذکرہ بیگم جان کا کرتے ہیں جن کے نام پر لاہور میں بیگم پورہ کی آبادی ہے۔ وہ تو نواب عبدالصمد خان کی اہلیہ اور نواب زکریا خان کی والدہ تھیں۔ نواب زکریا خان والی لاہور کا عہد  1726-1745ء تک کا ہے۔ اس لئے قرین قیاس ہے کہ مسجد کی تعمیر اس عہد کی ہے۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش سالنامہ   1989 (ص83)  پروفیسر اسلم کی لکھت میں یوں ہے۔

’’بیگم جان بڑی عالمہ، فاضلہ اور خداشناس خاتون تھی۔ اس کا نسب بھی خواجہ ناصر الدین عبیداللہ امرادؒ سے جا ملتا ہے۔ اس نے اپنی وفات سے پہلے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے زیورات فروخت کر کے ان کی آمدنی سے ایک مسجد بنوا دی جائے۔ چنانچہ حضرت شاہ چرا غ ؒ کے مزار سے ملحقہ مسجد ان ہی زیورات کی آمدنی سے پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

نواب زکریا خان کے عہد کے بعد اس مسجد نے بے شمار حوادث دیکھے۔ ان حوادث کے باعث مسجد کی اصل عمارت محض پرانی کتابوں کی تحریروں کا حصہ بن کر رہ گئی۔ لاہور کی کئی دیگر مساجد کی مانند سکھی عہد میں یہ مسجد بھی بارود سے بھری رہی۔ انگریز سرکار کے عہد میں انتظامی مسائل کے باعث کئی تاریخی مساجد کو افسران کی رہائش گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا اور اسی مقام پر سیشن جج کی عدالت بھی لگنے لگی۔ اکاؤنٹنٹ جنرل کا دفتر بھی قائم رہا۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر(ص307) سے درج ذیل ہے۔

’’آج سے چند سال پیشتر یہ جگہ بالکل اجاڑ اور غیر آباد سی تھی۔ احاطے میں جھاڑیاں اور درخت اگے ہوئے تھے۔ چار دیواری خستہ حال تھی۔ لیکن 1935ء میں مسجد شہید گنج کی ایجی ٹیشن کے بعد جب مسجد شاہ چراغ مسلمانوں کو مل گئی اور سرکار نے اپنا قبضہ اس پر سے اٹھا لیا تو اس جگہ ریزو بینک کی عالیشان عمارت تعمیر ہو گئی اور اس چار دیواری کو جس میں والدہ نواب خان بہادر کی قبر بیان کی جاتی ہے، از سر نو تعمیر کر کے اس کے گرد جنگلہ لگا دیا گیا۔‘‘

آج سے ستر، اسی سال پہلے کی تصنیف تحقیقات چشتی میں لکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس چار دیواری کے گرد ایک چھوٹا سا باغ تھا اس لئے کہ اس جگہ اب بھی پختہ خیابان کے آثار نظر آتے ہیں۔ درختوں کے جھنڈ میں ون کے درخت زیادہ نہ تھے۔ راقم نے بھی یہاں دیکھے تھے۔ بہر حال اب مقبرہ شاہ چراغ، مسجد شاہ چراغ اور اس مختصر سی چار دیواری کی حالت نسبتا بہتر ہے۔ جمعہ اور جماعت کی نمازوں میں اچھی خاصی رونق ہوتی ہے۔‘‘

عصر حاضر میں جب مال رورڈ پر جی پی او چوک میں پہنچا جائے تو بائیں جانب ایک سڑک نیچے کو پرانے اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ کو جاتی ہے جس سے آگے ایک چرچ ’’سکینڈ بیوز پریسن کیبرین چرچ ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ پرانے اسٹیٹ بینک کی یہ عمارت اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے استعمال میں ہے۔ اس بلڈنگ سے بائیں جانب ایک انتہائی خوبصورت عمارت دکھائی دیتی ہے جس میں مغل اور انگریز طرز تعمیر ملا جلا دکھائی دیتا ہے۔

یہ جگہ کچھ برس قبل تک سڑک سے گزرنے والے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہائی کورٹ کے داخلی دروازے سے مغربی سیدھ تک سرکار کی مدح سرائی میں بڑے بڑے سائن بورڈ نصب تھے جو کہ بعدازاں ہٹا دیئے گے اور وہاں پر لوہے کے جنگلے نصب کر دیئے گئے جس کی وجہ سے اب یہ عمارت عوام کی نظروں میں ہے۔ لب سڑک لوہے کے ایک جنگلے پر ’’ایوان اوقاف‘‘ ماتھے پر تحریر دکھائی دیتا ہے۔ اندر داخل ہوں تو بائیں جانب اکاؤٹننٹ جنرل کے پرانے دفاتر اب وکلاء اور چیمبرز کے استعمال میں ہیں۔

ان سے پیچھے مشرقی سیدھ میں محکمہ اوقاف کے دفاتر‘ لائبریری اور ان میں ایک دفتر محکمہ آثار قدیمہ کا بھی موجود ہے۔ لاہور جیسے عظیم تاریخی ورثے کے مالک اس شہر میں ان دونوں محکموں کی خاص اہمیت ہے کیونکہ زیادہ تر تاریخی عمارتیں، آثار قدیمہ اور مذہبی تاریخی عمارتیں محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی ہیں۔ ان دفاتر میں وہ تمام سہولتیں اوردور جدید کے ذرائع موجود ہونے چاہئیں جو اس طرح کی تاریخی عمارات کی حفاظت کے لئے دنیا کے کئی دیگر ممالک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ محکمے پرانے فائلوں کے نظام میں گڑ ے دکھائی دیتے ہیں۔

ان میں کام کرنے والے افراد کی ان جدید علوم تک رسائی تو کجا ان میں سے اکثریت شہر لاہور کی تاریخ سے نابلد ہے۔ ان میں ان ملازمین کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کی ذمے دار وہ سرکاریں ہیں جن کو لاہور کی تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ تو دوسرے دیسوں کا رنگ بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دفاتر سے آگے گاڑیوں کی پارکنگ‘ اے جی آفس اور لاہور ہائیکورٹ کی عمارت کی شمال جنوب سیدھ کا پچھلا حصہ ہے۔ اوقاف کے دفاتر کے سامنے ہی چند سیڑھیاں اوپر کو جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر بائیں جانب حضرت شاہ چراغؒ کا مزار شریف ہے اور بائیں جانب مسجد کی عمارت ہے۔

دائیں جانب مزار کے گنبد کی چار دیواری اور عمارت میں عالمگیری عہد کی تعمیر کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ مزار کی عمارت کے چاروں کونوں پر انتہائی چھوٹے مینار ہیں جن کے نیچے محرابی طرز تعمیر دیواروں میں نمایاں ہے اور یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ کبھی ان پر کاشی کاری کا کام ضرور موجود ہو گا۔ مگر اب  وہاں پر سوائے سفیدی کے اور کچھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے اوپر مزار کا خوبصورت گنبد ہے جس پر سبز رنگ کا روغن کر کے قدامت کے تمام نشان ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اندرونی احاطے میں ایک سے زائد قبور ہیں اور ایک قبر کے سرہانے یہ تختی نصب ہے۔

مرقد انوار

سید عبدالرزاق

 المعروف حضرت بابا شاہ چراغؒ لاہوری

گنبد کے اندرونی حصوں میں کاشی کے پرانے کام کو از سر نو کیا گیا ہے جو کہ عہد رفتہ سے ہرگز میل نہیں کھاتے۔ مزار کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی باہر معلوماتی تختیاں نصب ہیں۔ مزار کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں دیگر افراد کی قبور بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان قبور کے ساتھ مغربی سیدھ میں ایک قدیم درخت آج بھی موجود ہے۔ مسجد کے صحن میں لوہے کے جنگلے نصب کرکے نمازیوں کی سہولت کے لئے پنکھے لگائے گئے ہیں۔

مسجد کی پانچ پرانی محرابیں آج بھی پھول پتیوں کے کام سے منقش ملتی ہیں۔ لیکن کاشی کا تمام پرانا کام سفیدی کی تہوں میں گم ہو چکا ہے۔ محرابوں سے سجی عمارت طولانی سیدھ میں زیادہ اور چوڑائی میں انتہائی کم ہے۔ محرابوں کے ساتھ اور اندرونی درمیانی عمارت مقطع ہے۔ ان کی چھت کے نیچے سے اوپر نمایاں طور پر گنبد مترور تعمیر کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ چھت کے اوپر گنبد اردگرد کی عمارات کی چھتوں ہی سے دکھائی دے سکتے ہیں۔

مسجد کے حاضر امام کا نام قاری فقیر حبیب الرحمن ہے۔ اگر مسجد کی تمام موجودہ عمارت سے سفیدی کو کھرچا جائے اور پرانی عمارات کے ماہرین کے ذریعے قدیم رنگ بحال کرنے کی کوشش کی جائے تو مسجد اپنے ابتدائی ایام کی مانند دکھائی دینے لگے۔ مسجد کی پانچ محرابوں میں سے وسطی محراب کلاں ہے اور دیگر خورد، وسطی محراب کے ماتھے پر مشرقی سیدھ میں کلمہ شریف اور دور جدید کی خطاطی میں اللہ اور محمد ﷺ دائیں اور بائیں سیدھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔