سیاسی ثقافت کا انہدام

عابد میر  جمعرات 28 اگست 2014
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

دیکھا نہیں تو کیا ہوا، کتابوں میں پڑھا اور بزرگوں سے سنا تو یہی تھا کہ سیاست کی اپنی ایک ثقافت اور ایک الگ ہی لغت ہوتی ہے۔ پر، اب جو دیکھ رہے ہیں وہ اس سیاسی ثقافت کے عین برعکس ہے، جو کتابوں میں پڑھی اور بزرگوں سے سنی۔ اس سیاسی کلچر میں مروت اور منافقت میں فرق ملحوظ رکھنا لازم رہا ہے۔ نظری و فکری اختلاف کبھی بھی شخصی ہتک کو نہیں پہنچتا۔ بزرگوں کا احترام بہرکیف ملحوظ رہتا ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ اختلاف کا آغاز ہی گالی سے ہوتا ہے، اور بات گریبانوں کے چاک ہونے تک جا پہنچتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سیاست کے سرگرم ہونے کے باوجود سماجی پستی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔

ملکی سیاست میں سیاسی ثقافت کی اس نئی لغت کی داغ بیل تحریک ِ کے جنونیوں نے ڈالی تو اس میں کچھ ایسا اچنبھا نہ تھا کہ یہ وہ نسل تھی جو بنا کسی سیاسی تربیت کے محض تفریح کے بطور اس کوچہ خار زار کی جانب نکل آئی تھی۔ پر بلوچستان میں یہ داغ اُس طلبہ تنظیم کے حصے میں آیا، جو بلوچ طلبا کی فکری تربیت کا منبع رہی ہے۔ بالخصوص سن دو ہزار چھ کے بعد بی ایس او کے نوجوانوں نے سیاسی اختلاف کے لیے جو زبان استعمال کرنا شروع کی، وہ اس تنظیم کے عظیم الشان فکری اثاثے کی عمارت میں نقب زنی کا آغاز تھی۔

اس دوران آنے والی نئی پود کے لیے اب یہی نیا سیاسی ڈکشن تھا، اس لیے ان سے تو گلہ ہی کیا، کہ انھوں نے وہی اپنایا، جو ورثے میں پایا۔ کوئی دن جاتا تھا کہ وہ جن کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں، سفید ریش بزرگ بلوچ رہنماؤں کی داڑھیاں نوچتے رہے۔ کوئی جلسہ، کوئی جلوس، کوئی اسٹیج ایسا نہ تھا، کہ جہاں عمریں عقوبت خانوں میں گزارنے والے ہمارے بزرگوں کو گالیاں نہ پڑتی ہوں۔

سو، پھر مکافاتِ عمل کی ایسی لہر چلی کہ بزرگوں کی جوتی میں اپنا پاؤں ڈالنے کی کوشش کرنے والے خس و خاشاکِ زمانہ کی نذر ہو گئے۔ اب انھی کے تتبع میں سوشل میڈیا میں وہ طوفانِ بدتمیزی اٹھا ہے کہ عفت مآب بلوچ خواتین بھی زبان کے اس شر سے محفوظ نہیں رہیں۔ اور اس کے باجود اگر کوئی پیر مرد آگے بڑھ کر ان کی سرزنش کی بھی ہمت نہیں رکھتا تو وجہ اس کی یہی ہے کہ اسے بھی اپنی ریش اور گریباں کے تار تار ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔

ابھی کچھ عرصہ اُدھر، ماضی میں لیفٹ سے وابستہ ایک خاتون لاہور سے کوئٹہ آئیں تو ایک محفل میں نہایت تاسف سے کہا، ’میں اَسی کی دہائی میں بھی بلوچ نوجوانوں سے ملی تھی، اور آج بلوچستان کے مختلف اضلاع سے آئے درجنوں نوجوانوں سے ملی، یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ماضی کی نسبت ان کی فکری سطح کس قدر زوال آمادہ ہے۔‘

اور جب ایک معاشرہ زوال آمادہ ہو تو یہ زوال آمادگی محض ایک نسل یا ایک شعبے میں نہیں، بلکہ ہر نسل اور ہر شعبے میں سرایت کر جاتی ہے۔ نوجوان نسل کے بعد سیاسی ثقافت کو مجروح ہوتے ہم اپنی سینئر نسل میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جس کا حالیہ مظاہرہ بلوچستان کی دو بڑی جماعتوں اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی اور ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی میں دیکھنے کو آیا۔ ان دونوں نے اخباری بیانات کے ذریعے ایک دوجے کی جانب الفاظ کے وہ گولے پھینکے کہ جس کی تپش میں بہت کچھ راکھ ہوتا نظر آیا۔ اچھا یہ ہوا کہ دونوں کے سیاسی خود کش حملے سے پہلے ہی سیز فائر ہو گیا۔

ان حملوں کا آغاز بی این پی کی جانب سے ہوا، جن کے ترجمان اور مختلف رہنماؤں کی جانب سے روزانہ کی بنیادوں پر حکومت کے خلاف بیان جاری ہونا معمول بن گیا تھا۔ حکمرانوں کی کارکردگی بلاشبہ قابلِ تنقید ہے، لیکن اول تو تنقید کو ذاتیات تک نہیں جانا چاہیے، دوم یہ کہ یا تو آپ مکمل اپوزیشن بن جائیں یا پھر حکومت کے اتحادی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اتحادیوں کی طرح کام بھی لیتے رہیں اور اپوزیشن کی طرح تنقید بھی کرتے رہیں۔

بی این پی، تحریکِ انصاف کی طرح عام انتخابات میں شکست کے ’شاک‘ سے اب تک نہیں نکل پائی۔ اور اس کا غصہ وہ نیشنل پارٹی پہ اتارتی رہی ہے، حالانکہ حکومت میں دو اور اہم اتحادی جماعتیں بھی شامل ہیں، بلکہ ان کی بعض اہم وزارتیں بھی ان کے پاس ہیں، لیکن بی این پی کے بیانات میں اس جانب توجہ کم ہی رہی۔

مسلسل بیان بازی کے نتیجے میں بالآخر نیشنل پارٹی کے ترجمان نے پارٹی کی عمومی پالیسی لائن سے ہٹ کر ایک سخت بیان جاری کیا، جس میں بالخصوص اختر مینگل کی ذات کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ گو کہ نیشنل پارٹی کا یہ کہنا تھا کہ انھیں اس طرح کی سخت زبان استعمال کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو ایک سیاسی رہنما کے خلاف اس قدر ذاتی نوعیت کا بیان جاری کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔ بیان کی زبان انتہائی سخت، ناروا اور ہتک آمیز تھی۔ لیکن نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس کے بعد سیز فائر ہو گیا اور ایک دوسرے کے خلاف جاری بیان بازی کا سلسلہ تھم گیا۔

سیاست میں فکری و نظری اختلافات کے اظہار میں نجی زندگی اور ذاتیات پر حملے، ہمارے سیاسی کلچر کے انہدام کا نوحہ ہیں۔ یہ افسوس ناک ہی نہیں، تباہ کن بھی ہے۔ اب اپنے تئیں مختلف مزاحمتی گروہوں اور طلبہ تنظیموں کے ترجمان یا ہمدرد بنے بہی خواہوں کی سوشل میڈیا پہ ہونے والی کھلی جنگ ، ایک نئی سیاسی لغت کی تشکیل کر رہی ہے۔ جو ہماری معاشرتی و سیاسی اقدار کی بنیادوں میں دراڑیں ڈال رہی ہے۔

ملکی سیاست کا نو آموز ڈکشن بھی کسی نہ کسی طور اس پہ اثرانداز ضرور ہوتا ہے، جو ویسے ہی روبہ زوال ہے۔ اس لحاظ سے بی این پی اور این پی کے مابین ہونے والا سیز فائر خوش آیند ہے۔ خدا کرے کہ سوشل میڈیاکی سیاست میں سرگرم نئی نسل میں بھی اس کی تجدید ہو اور گل خان نصیر کی دعا قبول ہو جس نے گڑاگڑا کر دست بستہ کہا تھا، ’اے خدا بلوچوں کو ایسے افراد سے نواز، جو پُر وقار، عالی دماغ اور باتدبیر ہوں، عالی وقار ہوں، صاحبِ کردار ہوں۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔