سفاک اسرائیل نے امن مساعی کا بھی گلا گھونٹ دیا

عبدالقیوم فہمید  اتوار 31 اگست 2014
طاقت کے نشے میں دھت اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں بے سروسامان عوام کے ہاتھوں زخم چاٹنے پر مجبور ہے۔ فوٹو: فائل

طاقت کے نشے میں دھت اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں بے سروسامان عوام کے ہاتھوں زخم چاٹنے پر مجبور ہے۔ فوٹو: فائل

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پرغاصب اسرائیل کی منظم ریاستی دہشت گردی اور صہیونی ریاست کے ہاتھوں معصوم اور نہتے انسانوں پر جس بے رحمی سے آتش وآہن اور بارود کی بارش شروع کر رکھی ہے۔اس بربریت کی دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا کیونکہ غزہ پراسرائیلی حملوں اور کشت وخون کو دیکھ کر زمانہ قبل از تاریخ کے حضرت انسان کے جنگل کے قانون کے تحت اپنی ہم جنس پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانیں بھی جھوٹ لگ رہی ہیں۔

تا دم تحریرغزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کو ڈیڑھ ماہ ہوچکا ہے۔ اس عرصے میں مصر اور بعض دوسرے ملکوں کی مساعی سے قیام امن کے لیے بھی کوششیں ہوئی ہیں۔ تاہم وہ تمام امن کوششیں اسرائیل کی ہٹ دھرمی کا شکار ہوچکی ہیں۔ طاقت کے نشے میں دھت اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں بے سروسامان عوام کے ہاتھوں زخم چاٹنے پر مجبور ہے مگرحکومت کی انا پرستی اور رعونت نے امن مساعی کا بھی گلہ گھونٹ دیا ہے۔

تین اگست کے بعد سے اب تک غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے مصرکی ثالثی کے تحت تین بار مذاکرات ہوئے اور ہر دفعہ بات چیت اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور انا کا شکار ہوئی۔ اسرائیل کی انتہا پسند حکومت کی ’’بدن بولی‘‘(باڈی لینگویج) سے لگ رہا ہے کہ وہ دانستہ طور پر امن کوششوں کا گلہ گھونٹ کر امن مساعی کی گردن مروڑ رہی ہے۔ اسرائیل کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ فلسطینی آزادی کے لیے جاری مسلح جدو جہد ترک کردیں۔

بزعم خویش اعتدال پسند بعض مسلمان تجزیہ نگاربھی اسرائیل کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی مسلح جدو جہد ترک کرکے ہی آزادی کی منزل سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مسئلہ فلسطین کا آخری حل میز ہی پر ہو گا مگر غیرمسلح ہونے کا مطالبہ صرف فلسطینیوں ہی سے کیوں کیا جاتا ہے۔ اس غاصب ریاست سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا جس نے فلسطینیوں اور دوسرے مسلمان ملکوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے غیراعلانیہ یورنیم بم تیار کر رکھے ہیں جس نے فلسطینیوں کے منظم قتل عام کیلئے دو لاکھ سے زیادہ فوج بنا رکھی ہے۔

بین البراعظمی سطح پر مار کرنے والے میزائل، انتہائی طاقت ور ٹینک اور ہمہ نوع اسلحہ اور گولہ بارود کے انبار لکھا رکھے ہیں۔ اس لیے اول تو یہ مطالبہ فلسطینیوں سے نہیں بلکہ صہیونی ریاست سے کیا جانا چاہیے جس نے 40 دنوں میں 2100 فلسطینی شہید اور 11 ہزار کو جسمانی طورپر اپاہج کردیا ہے۔ فلسطینیوں نے 1994ء میں اسرائیل کو ایک حد تک تسلیم کرتے ہوئے امن کا پہلا موقع فراہم کردیا تھا۔

اوسلو معاہدے میں اسرائیل نے بھی فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کرتے ہوئے اقرار کیا تھا کہ وہ مسئلے کے دو ریاستی حل کے لیے سنجیدہ کوششیںکرے گا۔ اب جب 20 سال اس معاہدے کو گزرگئے اور فلسطینیوں کو ان کی منزل سے مسلسل دور کیا جانے لگا تو ان کے پاس اس کے سوا اور کیا چارہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے اور غصب شدہ حقوق کے حصول کے لیے بندوق نہ اٹھائیں۔

کچھ دیرکے لیے فلسطین کی مسلح تحریک کو ایک طرف رکھ کردیکھیںتو ہمیں دنیا میں کہیں بھی آزادی کی تحریکیں محض سیاسی جدو جہد سے آزادی سے ہم کنار ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ مغرب نے ایک سازش کے تحت سب سے بڑے عرب ملک سوڈان کو توڑا تو توجنوبی سوڈان کی عیسائی اکثریت کو خود امریکا اور یورپ کئی سال تک مسلح جدو جہد کے لیے اسلحہ اور جنگی سازو سامان مہیاکرتے رہے۔ یہ قدغن صرف فلسطینیوں پر کیوں لگائی جا رہی ہے کہ وہ اسرائیلی رعونت کے سامنے غیر مسلح ہو جائیں۔

جہاں تک امن مساعی کا تعلق ہے تو اس کی سب سے بڑی ذمہ داری اسرائیل پرعائد ہوتی ہے۔ اسرائیلی حکومت میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو ، وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبرمین اور ان کی کابینہ کی اکثریت ان انتہا پسند صہیونیوں پر مشتمل ہے جو فلسطینی ریاست کے سخت دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاھو کے دور حکومت میں مقبوضہ عرب علاقوں میں جس تیزی کے ساتھ یہودی بستیوں کی تعمیر کی گئی ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔

قاہرہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل کا مذاکراتی وفد دو مرتبہ جنگ بندی پر اتفاق کے بعد واپس ہوا تو اس کے ساتھ ہی نیتن یاھو نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کردے۔ اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے یہ آشکار ہوگیا کہ اسرائیل محض دنیا کو دکھانے کے لیے جنگ بندی کی بات چیت کرتا رہا ہے۔ عملاً وہ کسی قسم کی امن کی کوشش کا حامی نہیں ہے۔

چونکہ اسرائیل پر عالمی سطح پر جنگ بندی کے دباؤ بہت ہے۔ عین ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک فائر بندی کی کوئی سبیل نکل آئے تاہم اس وقت فلسطینی اور اسرائیلی وفود قاہرہ سے واپس جا چکے ہیں۔ ممکنہ طور پر ہونے والی کوئی بھی جنگ بندی دیر ثابت بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ عالمی اوباشوں کا پالتو اسرائیل کبھی نہیں چاہے گا کہ فلسطینی پل بھرکے لیے بھی سکھ کا سانس لیں۔ جو قوم اپنے مخالف کو ہروقت نیست ونابود کرنے کی منصوبہ سازی میں محو رہے اس سے آخر کار کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔

اسرائیل کے بالواسطہ امن مذاکرات فقط حماس کے ساتھ نہیں ہو رہے ہیں بلکہ بات چیت میں صدر محمود عباس کی جماعت الفتح اور اسلامی جہاد سمیت ایک درجن سیاسی، عسکری اور مذہبی جماعتیں شامل ہیں۔ ویسے بھی اس وقت حماس اور الفتح دونوں قومیں حکومت میں یکجا ہیں۔ بعض لوگ اپنی لاعلمی کی بناء پر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے بات چیت حماس اور اسرائیل کے درمیان ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت کامیاب نہیں ہو رہی۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ بات چیت کی ناکامی کی بنیادی وجہ فلسطینیوں کے مطالبات نہیں بلکہ ان کی مسلح تحریک مزاحمت ہے۔

فلسطینی مذاکراتی وفد نے جنگ بندی کے لیے واضح اور قابل عمل شرائط پیش کی ہیں۔ اول یہ کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کردے جو اس نے آٹھ سال سے جاری رکھا ہوا ہے۔دوم غزہ کی تمام بین الاقوامی اور اندرونی راہداریوں کو کھول دیا جائے۔ سوم غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی ہوائی اڈے اور ایک بندرگاہ کے قیام کی اجازت فراہم کی جائے۔ قابل عمل ہونے کے باوجود اسرائیل نے ان تینوں مطالبات کو مسترد کردیا جس کے بعد بات چیت ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئی ہے۔

کچھ عرصے سے مصری ذرائع ابلاغ اور تھنک ٹینک اسرائیل کی ہمنوائی اور فلسطینیوں کی بدخوئی کرتے آ رہے ہیں لیکن غزہ کی پٹی میں امن کی حالیہ کوششوں میں ناکامی پر مصری میڈیا بھی صہیونی حکومت پر برس پڑا ہے۔ مصری اخبارات نے جس تند وتیز الفاظ میں اسرائیل پرتنقید شروع کر رکھی ہے اس سے یہ یقین ہو چلا ہے کہ خامی فلسطینیوں میں نہیں اسرائیل میں ہے۔ مصری اخبار’’الیوم السابع‘‘ نے اپنے اداریے کی سرخی ’’بندوق کی نوک پرقیام امن کی اسرائیلی کوشش‘‘ کے الفاظ کے ساتھ جمائی۔ مصر الیوم نے لکھا کہ’’تل ابیب نے امن کی گردن مروڑ دی‘‘ اور ایک اور اخبار الاھرام نے اداریے میں لکھا کہ ’’اسرائیل کا طاقت کا گھمنڈ مفاہمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘‘۔

یوں صہیونی ریاست اور اس کی انتہا پسند حکومت فلسطین میں قیام امن کی راہ میں خود ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر عارضی طور پر اسرائیل نے جنگ بندی قبول بھی کر لی تو فلسطینیوں کو جان کی امان کی مستقل ضمانت کون فراہم کرے گا۔ مصرکی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے جو فارمولہ اسرائیل نے قبول کیا اور فلسطینیوں نے مسترد کردیاتھا۔ اس میں بھی بنیادی نکتہ یہی تھا کہ فلسطینی اسرائیل کے خلاف مسلح تحریک ختم کرنے کا اعلان کریں نیز حماس اسرائیل کو ایک جائز ملک تسلیم کرے۔

حماس کے لیے یہ دونوں مطالبات ناقابل قبول تھے۔ اب یورپی یونین کی جانب سے بھی اس سے ملتا جلتا ایک نیا فارمولا سامنے آیا ہے۔ اس میں بھی حماس اور تمام فلسطینی عسکری گروپوں پر زور دیا گیا کہ وہ طویل المیعاد سیز فائر کی کامیابی کے لیے اسرائیل پر حملے روک دیں۔ فلسطینی مزاحمت کار ماضی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدوں کی مکمل پاسداری کرتے رہے ہیں لیکن خلاف ورزی کا آغاز ہمیشہ اسرائیل کی جانب سے ہوتا رہا ہے۔

ایک تہائی غزہ کھنڈر میں تبدیل:

دنیا کی سب سے بڑی اور کھلی جیل قرار دیے جانے والے فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی خونی یلغار کے نتیجے میں تباہی اور بربادی کے ہولناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اسرائیل غزہ کی پٹی پر نہایت طاقتور بم اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کر رہا ہے جس کے نتیجے میں شہر کا 30 فی صد علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ شہر میں کم سے کم 600  مکانات، 80 اسکول اور اسپتال، 100 سرکاری عمارتیں حتیٰ کہ درجنوں پولٹری فارم کارخانے کھنڈربنا دیئے گئے ہیں جبکہ ہزاروں عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔

تعمیر نو کا کام شروع ہونے میں ابھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ جب تک اسرائیل کے فضائی، زمینی اور بحری اطراف سے حملے جاری رہتے ہیں تب تک بیرون ملک سے آنے والے امدادی وفود کی کوششیں بھی بار آور ثابت نہیں ہو سکتیں۔ دوسری جانب مصر جو غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی کوششیں کر رہا ہے دوہرے معیار پرعمل پیرا ہے۔ قاہرہ نے غزہ کی پٹی کی واحد بین الاقوامی راہداری ’’رفح کراسنگ‘‘ بھی بند کر رکھی ہے۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینی حکام روزانہ یہ دہائی دیتے ہیں کہ مصرکی جانب بیرون ملک سے متاثرین کے لیے لایا جانے والا امدادی سامان تباہ ہو رہا ہے اسے غزہ داخلے کی اجازت فراہم کی جائے مگر مصری حکام کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔ یوں غزہ کے جنگ زدہ شہریوں کے مسائل اور مشکلات میں مصر بھی برابر کا قصور وار ہے۔

تباہی سے ہیروشیما کی یاد گازہ ہوگئی:

فلسطینی مزاحمت کاروں کے دیسی ساختہ کھلونا قسم کے راکٹوں کو بہانہ بنا کر انسانیت پر قیامت مسلط کرنے والی صہیونی حکومت نے غزہ کی پٹی میں جو تباہی اور بربادی پھیلائی ہے اسے دیکھ کر سنہ 1945ء میں جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکی ایٹم بم حملوں کی تباہی یاد آتی ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ڈیڑھ ماہ سے بھی کم عرصے میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر 20 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے، جو مجموعی طورپر چھ طاقت ور ایٹم بموں کے بارود اور ان کی تباہی کے برابر ہے۔

بارود کی بارش میں یورنیم گیسوں کے گولے بھی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کے ساتھ حیوانی اور نباتاتی زندگی بھی مفلوج ہونا شروع ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’ایف 15‘‘ ایف 16 اور بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کی مدد سے غزہ کی پٹی پر MK82,MK83 اور MK84 نامی 08  ہزار بم برسائے گئے۔ اس بم کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک بم جس مقام پر گرتا ہے وہاں ایک مربع کلو میٹر کے علاقے میں کسی چیز کے زندہ بچ جانے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ جہاں آٹھ ہزار ایسے بم برسائے گئے ہوں وہاں تباہی کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے۔ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ پر حملوں میں قابض صہیونی فوج اب تک توپ کے 65 ہزار گولے برسا چکی ہے۔ جنگ میں 09 ہزار اسرائیلی فوجیوں کو 48 لاکھ کلاشنکوف کی گولیاں،34 ہزار بم،39 ہزار ٹینک کے گولے، 11 ملین لیٹر ڈیزل اور فضائیہ کو 50 ملین پٹرول فراہم کیا گیا۔ فوجیوں کو 1474 قسم کے جنگی ہتھیار،3214 غیرمہلک جنگی آلات، مثلاً اندھیرے میں دیکھنے والے چشمے، دوربینیں اور دیگر سامان حرب وضرب شامل ہے۔

گردو غبار سے بچانے کے لیے 23 ہزار خصوصی عینکیں،35 ہزار بستر اور 04 ہزار میٹر خار دار تار فراہم کی گئی۔ اس کے علاوہ فوجیوں نے غزہ پرحملے کے دوران نقل وحمل کے لیے 1073 بسیں،1173 ٹیکسی کاریں بھی استعمال کیں۔ صہیونی فوج نے جنگ میں فراہم کردہ اسلحہ کا اب تک 60 فی صد استعمال کیا گیا باقی کا استعمال ابھی جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔