(پاکستان ایک نظر میں) - ون نیشن ڈے

عاقب علی  ہفتہ 13 ستمبر 2014
دھرنے کو ایک مہینہ پورا ہونے پر تحریک انصاف نے ’ون نیشن ڈے‘ منانے کا اعلان کیا ہے مگر سوچتا ہوں کہ محض الفاظ کی ادائیگی سے کیا قوم متحد ہوسکتی ہے؟ یا پھر اُس کے لیے عملی اقدام کی بھی ضرورت ہوتی ہے؟ فوٹو: فائل

دھرنے کو ایک مہینہ پورا ہونے پر تحریک انصاف نے ’ون نیشن ڈے‘ منانے کا اعلان کیا ہے مگر سوچتا ہوں کہ محض الفاظ کی ادائیگی سے کیا قوم متحد ہوسکتی ہے؟ یا پھر اُس کے لیے عملی اقدام کی بھی ضرورت ہوتی ہے؟ فوٹو: فائل

عمران خان لیڈر نہیں سیاستدان بن گئے ہیں۔اگر عمران خان کی محبت میں مبتلا لوگ اگر ناراض نہ ہوں تو میں ایک بار پھر دوہرانا چاہتا ہوں کہ ’’ عمران لیڈر نہیں رہے سیاستدان بن گئے ہیں‘‘۔پی ٹی آئی کا آزادی مارچ آج ایک ماہ پورا کررہا ہے اور اِس موقع پر تحریک انصاف نے ’ون نیشن ڈے‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ کیا محض نام رکھنے سے کبھی کوئی قوم متحد ہوئی ہے؟  گزشتہ ایک ماہ سے عمران خان ہر چند گھنٹے بعد جلسے اور ٹی وی کے ذریعے پوری قوم سے مخاطب ہوتے رہے۔اس دوران عمران خان چاہتے تو قوم کی شعوری تربیت کرتے مگر انہوں نے اپنا موضوع گفتگو سیاستدانوں کو گندا کرنے پر ہی مختص رکھا اور اپنے سننے والوں اور چاہنے والوں کو یہ بتایا کہ اِس ملک میں کوئی ایک سیاستدان بھی ٹھیک نہیں ہے اور سب چور اور ڈکیٹ ہیں۔ تو جب لیڈر اِس قسم کی گفتگو کریگا تو بھلا اُن کے پرستار کیسے کسی لیڈر کی عزت کریں گے۔

عمران خان کو ان کے اردگرد موجود دانش وروں نے یہ بتایا ہوگا مگر وہ مانتے کہاں  ہیں کہ لیڈر جنون میں مبتلا نہیں ہوتا ،وہ باغبان ہوتا ہے ،جسے معلوم ہوتا ہے کہ جو پودہ ( روایات اور اخلاقیات) میں آج لگا رہا ہوں وہ کل کو درخت( میرا کارکن کا کردار بن کر ) دنیا کے سامنے ہوگا۔اور شاید 17 برس کی سیاست کے دوران یہ سمجھ گیا ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی فکری،ذہنی اور نفسیاتی تربیت نہیں کرپایا۔اس لیے وقتی ابال کی بنیاد پرابتر سیاسی و سماجی زندگی کو بہتر کے بجائے مزید خراب کرنے کیلئے کنٹینر سیاست کے ذریعے میدان میں اتر آیا ہے۔

ویسے کیا سیاسی گدی نشین سے بزور احتجاجی تحریک گدی چھینے کا یہ پہلا واقعہ ہے؟ نہیں اس کی روایات بڑی طویل ہیں۔اس طرز پر چلنے والی تحریکیں کتنی کامیاب رہیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ گدی نشین کی تبدیلی کی حد تک کامیاب لیکن معاشرتی اور شعور ی بالیدگی دینے کی حد تک ناکام رہیں۔ایسی ہی ایک تحریک ہندوستان میں بہار موومنٹ جسے بعد ازاں مکمل انقلاب کا عنوان دیدیا گیا تھا جو23مارچ 1974 ء سے 25جون 1975ء کو لگنے والی ایمرجنسی تک جاری رہی ۔اس تحریک کی قیادت جے پرکاش نرائن کی۔ جسے وہاں کی عوام عمران خان کی طرح عوامی ہیرو کہتی تھی ۔اندرا گاندھی کی حکومت گرانے کے باوجود وہ مکمل انقلاب ہندوستانی معاشرے کا مقدر نہ بن سکا جس کی آرزو میں 8طلبا جان سے گئے اور معاشی لحاظ سے ملک کا کتنا نقصان ہوا ،تاریخ اس کا احاطہ نہ کرسکی۔

عمران خان کے حوالے سے ان کارکنان کے اس تاثر کو میں بھی درست سمجھتا ہوں کہ قوم کو کرپشن سے پاک کرینگے، 180ملین سے زائد قرضوں میں دبی قوم کو خود کفیل بنائینگے،دہشتگردی سمیت کئی بڑے مسائل سے نجات دلائینگے ۔لیکن اس کیلئے عمران خان انقلاب کا اصل راز سمجھنا ہوگا ،انقلاب کا آغاز ایوانوں میں تبدیلی سے ہوتا بلکہ غیر سیاسی اداروں میں تبدیلی سے ہوتا ہے۔جو بھی کہتا ہے درست کہتا ہے کہ آپ خیبر پختونخوا میں پرفارم کریں ،اور ملک بھر کی عوام کا دل جیت لیں۔ لیکن یہ مختصر راستہ ہے ۔اس سے پانچ برس کا اقتدار ملتا ہے لیکن پائیدار انقلاب کیلئے تدریج کے اصول کے مطابق کام کرنا ہوگا،قوم کو باشعور بنا ہوگا تاکہ جاگیر دار ، سرمایہ دار کے ذور پر کامیاب ہونے والے سیاستدان ان کا ووٹ خرید نہ سکیں ،ان کا ووٹ انمول ہوجائے۔
اس کیلئے عمران خان کو کنٹینر پر بیٹھنے سے کچھ نہیں ملے گا ،انہیں احتجاجی میدان سے نکل کر حقیقی سیاسی میدان میں خراب لوگوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔اس کیلئے کارکن کو تیار کریں ، آپ کی جماعت نے بے شک 76 لاکھ ووٹ لئے مگر ان کی سیاسی و سماجی معاملات پر گرفت وہ نہیں جو پی پی رہنما اور مسلم لیگ ن کے ورکرز کی ہے۔تو اس جانب توجہ دئیے بغیر عمران خان کبھی بھی مکمل میدان نہیں مار سکتے۔ یہ بات انہیں سمجھنا ہوگی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔