گر رسول نہ ہوتے

شیخ جابر  جمعرات 18 ستمبر 2014
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

آج کے شہری حالات اور ماحول میں جوشؔ ملیح آبادی کا ایسا شعر تو کُجا، ایسا خیال بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ جاننے والے بتاتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کائنات کا اسی طرح مشاہدہ کیا تھا۔ آپ نے ستارے کو دیکھا جو اُس عہد کا رب تھا مگر وہ ڈوب گیا پھر آپ نے چاند کو دیکھا وہ بھی ڈوب گیا پھر آپ نے سورج کو دیکھا وہ بھی ڈوب گیا۔ طلوع و غروب کے یہ مناظر طبیعیات کے قوانین دریافت کرنے کے بجائے آپ علیہ السلام کے لیے خالق کائنات کی تلاش کو ممکن بنانیوالے ثابت ہوئے اور رہتی دنیا تک یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی آج بھی مالک الملک کو تلاش کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

یہ تو طلب اور تڑپ کا مسئلہ ہے کون کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ایک کسان خدا کو اپنے قرب و جوار اور اپنے طرز معاش و طرز زندگی میں جس طرح تلاش کر سکتا ہے اور اللہ کی آیات کا جس طرح عینی مشاہدہ کرتا ہے یہ مواقعے ایک شہری کو ہر گز حاصل نہیں ہو سکتے، جو کسی کارخانے یا دفتر کی چھت کے نیچے روشنی، ہوا، ارض و سماء، سورج ، چاند، ستاروں، درختوں، پودوں، سبز ے سے محروم ایک مزدور یا بڑے افسر کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ خدا اس کے تجربے اور زندگی کا حصہ نہیں بن سکتا۔

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

فطرت، مناظر و مظاہر فطرت نیز حقیقی اور واقعی زندگی کے ساتھ انسان کی ہم آہنگی، اُسے کائنات، آثار کائنات اور مظاہر کائنات کے بارے میں عجیب و غریب اسرار سے مطلع کرتی ہے۔ ستاروں کی چال، نسیمِ سحر، بادِ صبا، بادِ ِشمال، طلوع و غروب کے وقت کے مناظر، سمندروں، صحراؤں، ریگستانوں، مرغزاروں، دریاؤں، ندیوں، نالوں، پہاڑوں، غاروں، چٹانوں، آبشاروں میں قدرت کے مختلف آثار و آیات انسان کے ذہن، قلب، عقل، فکر، نفس اور جسم پر مختلف قسم کے اثرات ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک خاص قسم کا فطری حقیقی طرززندگی طرز کلام اور طرز ادا تخلیق ہوتا ہے۔

فطرت و قدرت سے اس حقیقی طبعی تعلق کے بغیر روحانی تعلق پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ جدید صنعتی معاشروں میں پیدا ہونے والی نسل اور جدید شہروں میں بلند و بالا سیمنٹ و سریے کے جنگلات میں نشو و نما پانیوالی مخلوق، آثارِ کائنات اور مظاہرِ فطرت و قدرت کے مطالعے و مشاہدے سے پیدائشی طور پر دانستہ محروم کر دی جاتی ہے۔ اُسے شہری زندگی اختیار کرنے پر مجبور کر کے فطری زندگی سے جبراً کاٹ دیا جاتا ہے تا کہ صنعتی معاشرے قائم ہوں جہاں شہروں میں تمام وسائل کو مجتمع کر کے بالائے زمین عمارتیں بنا کر کروڑوں انسانو ں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیا جائے۔ یہی ماڈرن ٹاؤن پلاننگ ہے۔

دیہی علاقوں کے بجائے تمام وسائل و اسباب شہروں میں اکٹھا کر دو تا کہ لوگ شہروں کی طرف جبراً نکل آئیں اور پھر اسے رضا کارانہ نقل مکانی کا نام دیکر تہذیب کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا کے چھیاسٹھ شہروں کی آبادی اربوں تک پہنچ گئی ہے کیونکہ ِان 66 شہروں میں رزق، روزگار اور معاش کے تمام ذرایع سمو دیے گئے ہیں اور دیہاتوں میں بھوک کو آزاد کر دیا گیا ہے۔

شہری کے لیے تتلی، پھول، جگنو، چراغ، قو س و قزح، شبنم، طلوع و غروب کے مناظر، ستاروں کی چال، فلک کی رفتار سب لا تعلق مسائل و معاملات ہوتے ہیں۔ اُسے روز گار، دھوئیں، پانی کی قلت، مال کمانے اور سفر میں وقت ضایع کرنے سے فرصت نہیں ملتی۔ روزانہ میلوں سفر طے کرتا ہے۔ دیہات میں کوئی سفر نہ تھا وہیں گھر ہیں، وہیں روز گار اور وہیں خاندان۔ مگر سہولتیں کم تھیں۔ اب سہولتیں بہت ہیں مگر انھیں استعمال کرنے کا نہ وقت ہے نہ پیسہ۔ علامہ اقبال کا شعر ہے،

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

جدید شہروں میں پلنے بڑھنے والا ذہن اس شعر کو کیا سمجھے گا؟ اس شعر کو سمجھنے کے لیے صرف قلب و نظر سپیدۂ سحر ہی نہیں صحرا کا سفر بھی درکار ہے اور صرف سفر ہی کافی نہیں جس نے دشت میں صبح سوتے ہوئے گزاری وہ بھی صبح کے منظر کو سمجھنے سے اور بیان کرنے سے قاصر رہے گا۔ صحرا میں طلوع آفتاب کا منظر سہانا اور بیحد خوبصورت ہوتا ہے جو دل کو سکون اور نظر کو طراوت بخشتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آفتاب کے چشمے سے نور کے دریا بہہ رہے ہیں۔ شہروں کے کالے دھوئیں، ریت اڑاتی ہوئی ہوا ؤں اور فلیٹوں کی کوٹھڑیوں میں سورج کی کرنیں تلاش کرنے کے لیے دن کے وقت گھر وں میں روشنی کے قمقمے جلانیوالا جدید شہری ذہن اس جمالیات کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ جدید لوگ تو اقبال کے اس شعر کو بھی تاک جھانک سے متعلق شعر سمجھتے ہیں جو امت کی خیر خواہی کا بیانیہ ہے۔

رگ تاک منتظر ہے تری بارش ِکرم کی

کہ عجم کے مئے کدوں میں نہ رہی مئے مغانہ

یہ تاک کی رگ انگور کی بیل ہے۔ بادِ سحر، نسیمِ صبح گاہی اور بادِ صباء کا صحیح لطف وہی اٹھا سکتا ہے جسے باد ِصر صر کا پتہ ہو۔ رات کے پچھلے پہر کا منظر اور طلوع آفتاب کے ساتھ رات کا سمٹ جانا اور دن کا نکل آنا کائنات کے حسین ترین منا ظر میں سے ایک ہے۔ جوشؔ صاحب نے اسی کیفیت کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کی سند اور شہادت کے طور پر پیش کیا ہے۔ شہروں میں رہنے والا فرد سیمنٹ اور ڈامبر کے سنگلاخ علاقوں میں محو سفر رہتا ہے۔ وہ فطرت اور قدرت اور خالق کائنات کے آثار و آیات سے محروم رہتا ہے۔

جدید شہری زندگی اختیار کر کے وہ جمالیات کے سب سے بڑے حصے سے خود کو محروم کر دیتا ہے لہٰذا فطری مناظر سے خالی شہروں کے ارد گرد دیہی علاقوں میں اربوں روپے کی فارم انڈسٹری لگا دی جاتی ہے۔ لوگ ایک دن کے ہزاروں روپے دیکر فارم ہاؤس میں چھٹی کا دن گزارتے ہیں اور پھر فلیٹ کے کھوکھے میں آ کر سو جاتے ہیں۔ کیا یہ طرزِ زندگی بہت عجیب طرز زندگی نہیں؟ سرمایہ داریت اور جدیدیت اسی طرز زندگی کے شانہ بشانہ چلتے ہیں اسی سے کیپیٹل، ایمپلائمنٹ، پروڈکشن اور کنزمشن کا پہیہ چلتا ہے۔

جدید معیشت اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور ہم خواہ مخواہ اس معیشت کے سوا زندگی کا کوئی دوسرا طریقہ درست ہی نہیں سمجھتے۔ تاریخ کی اکیس تہذیبیں ایسے بد وضع شہروں اور ایسی معیشت سے خالی نظر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح زندگی بسر کرتے تھے؟ کیا اس مصنوعی تنفس کے بغیر اُن کی زندگیاں ادھوری تھیں؟ اُن میں کوئی کمی تھی؟ یا وہ ہم سے زیادہ مطمئن، مسرور اور توانا تھے؟ کون سی زندگی اچھی کہلانے کی مستحق ہے؟ فطری یا مصنوعی؟ اور مزید یہ کہ فطرت کو کچل کر آج کا انسان درندہ بنے گا یا انسان رہے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔