- میکسیکو میں چوہے کا سوپ بیچنے والی واحد دکان
- ایسٹرازینیکا کووِڈ ویکسین سنگین بیماری کا سبب بن سکتی ہے، کمپنی کا اعتراف
- لاکھوں صارفین کا ڈیٹا چُرا کر فروخت کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی عائد
- مالیاتی پوزیشن آئی ایم ایف کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
- چینی پاور پلانٹس کے بقایاجات 529 ارب کی ریکارڈ سطح پر
- یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
- یکم مئی کے تقاضے اور مزدوروں کی صورت حال
- گھٹیا مہم کسی کے بھی خلاف ہو ناقابل قبول ہے:فیصل واوڈا
- چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہوگی، ٹیموں کو شیڈول بھیج دیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- پنجاب کی بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، 49 افسران کے تبادلے
- یوم مزدور پر صدر مملکت اور وزیراعظم کے پیغامات
- بہاولپور؛ زیر حراست کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دہشت گرد اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک
- ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لیے انٹرویوز، تمام امیدوار ناکام
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
- گجر، اورنگی نالہ متاثرین کے کلیمز داخل کرنے کیلیے شیڈول جاری
- نادرا سینٹرز پر شہریوں کو 30 منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا، وزیر داخلہ
- ڈونلڈ ٹرمپ پر توہین عدالت پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ، جیل بھیجنے کی تنبیہ
- کوئٹہ میں مسلسل غیر حاضری پر 13 اساتذہ نوکری سے برطرف
- آن لائن جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزم گرفتار
- انکم ٹیکس جمع نہ کروانے والے پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کی موبائل سمز بلاک
(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - کیا پاکستان کا مسئلہ بھی امریکہ ہی حل کریگا؟
افغانستان میں ایک بڑی تبدیلی اور پیش رفت ہوئی ہے۔ اتوار کو افغان صدارتی امیدواروں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نے اقتدار میں شراکت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے مطابق عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کو افغانستان کا صدر تسلیم کر لیا ہے ۔ جبکہ عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ وزیر اعظم کے برابر ہو گا۔ یوں اس معاہدے کےذریعے اپریل اور جون میں ہونے والے افغان صدارتی انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی ختم ہو گئی ہے۔
صدراتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے بعد عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے حامیوں نے دھاندلی کے خلاف کابل میں مظاہرے شروع کر دیے تھے۔ مظاہروں میں شدت کے ساتھ دونوں صدارتی امیدواروں کے مسلح حامی کابل میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ افغانستان میں متوقع خون ریزی کو روکنے کے لیے افغان صدر کرزئی کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں نیا صدر اس وقت امریکہ کی سب سے اہم اور بڑی ضرورت ہے۔ کیونکہ شراکت اقتدار کے بعد قائم ہونے والی متحدہ حکومت سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ سیکورٹی معاہدے کی توثیق کرے گی اور اسی معاہدے کے تحت امریکہ کا افغانستان سے محفوظ انخلاء ممکن ہو گا۔
یعنی جب معاملہ افغانیوں سے حل نہیں ہوا تو امریکہ کو بیچ میں آخر معاملہ حل کروانا پڑا اور حل بھی ایسا کہ اختیارات کی بندر بانٹ کروائی کی جس پر کسی نے اُف تک نہ کی لیکن میں سوچتا ہوں کہ کیا ہی خوب ہوتا ہے کہ اندرونی معاملات کو اندر کے لوگ ہی حل کرلیتے ۔
ویسے تو میں یہاں افغانستان کے مسئلے پر لکھنے کا متمنی ہر گز نہیں ہوں ۔۔۔۔ بلکہ میں تو یہ سوچتا ہوں کہ جو مسئلہ افغانستان میں ہوا وہی کچھ پاکستان میں بھی چل رہا ہے۔ کئی ماہ سے جاری تحریک انصاف کی دھاندلی کے خلاف جاری مہم پاکستانی سیاست کی تاریخ میں سب سے بڑے دھرنے کی صورت اختیار کر چکی ہے جو اگست سے شروع ہو کر ستمبر کے تیسرے عشرے میں بھی جاری ہے۔ ان ہی کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری بھی اپنے جان نثاروں کے ساتھ اسلام آباد پر قابض ہیں۔
دھاندلی کی تحقیقات سے شروع ہونے والے مطالبات اب وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ ان دھرنوں کے دوران متعدد بار سیکورٹی اداروں کو اشتعال دلانے کے لیے اہم اداروں پر جوشیلے بلوائیوں کے ذریعے حملے کروائے گئے۔ داخلی و خارجی سطح پر پاکستان کو باقابل تلافی نقصان پہنچانے کے باوجود حکومت و متحارب سیاستدان اپنے پیدا کردہ سیاسی بحران کا کوئی حل نہیں نکال سکے۔
امریکہ کا جتنا اثرورسوخ افغانستان میں ہے اگر چہ اُتنا پاکستان میں نہیں ہے مگر پھر بھی اتنا اثرورسوخ ضرور ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے میری یہ اولین خواہش ہے کہ میرے وطن کے سیاسی مسئلے سیاستدان ہی حل کریں ۔
لیکن دھرنوں کی طوالت دیکھ کرمجھے خدشہ ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے والے یہاں خانہ جنگی کروانا چاہتے ہیں تاکہ اس کے رد عمل میں افغانستان سے نکلنے کی تیاری کرنے والی امریکی و اتحادی فوجیں واپس کے بجائے اقوام متحدہ کی ’’امن فوج‘‘ بن کر پاکستان میں داخل ہو جائیں۔مجھے اپنے سیکورٹی اداروں پر پورا یقین ہے کہ وہ ایسی کسی بھی سازش کو ناکام بنا دیں گے مگر اِس سازش کے اُبھرنے کا خوف اب بھی مجھے لاحق ہے۔
اِس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اگر دھاندلی نہ ہوتی تو نتیجہ یکسر مختلف ہوسکتا تھا ۔ لیکن پھر بھی مسئلہ ہے کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے اگر اِس میں محض مظاہرین کا قصور نہیں ہے بلکہ حکومت بھی برابر کی شریک ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ملک کا استحصال نہ کریں اور عوام کو چاہیے کہ وہ ہر قدم اٹھانے سے قبل دور اندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ کرے تاکہ انتشار کا موسم جلد ختم ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے قابل ہوجائے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔