لاہور کی ’’مسجد نقیباں‘‘، جسے آج لوگ شاہی مسجد کے نام سے جانتے ہیں

مدثر بشیر  اتوار 9 نومبر 2014
مسجد کی 3 محرابیں عالی شان اور تین گنبد ہیں۔ تینوں محرابیں قالبوتی منقش ہیں۔ فوٹو: فائل

مسجد کی 3 محرابیں عالی شان اور تین گنبد ہیں۔ تینوں محرابیں قالبوتی منقش ہیں۔ فوٹو: فائل

لاہور میں کئی مقامات اور عمارتیں ایسی ہیں جن کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ جس کے باعث ان سینکڑوں برس پرانی عمارتوں کو تلاش کرنا ہی ممکن نہیں رہتا۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی ظلم ہوا کہ ان عمارتوں کی ہیئت بھی تبدیل کر دی گئی۔

ان ہی عمارتوں میں ’’مسجد نقیباں‘‘ بھی ہے۔ یہ مسجد تقریباً تین سو برس قدیم ہے۔ پرانی کتب کی روشنی میں یہ قلعہ گجر سنگھ کے قریب دکھائی دیتی ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس علاقے کو گھوم پھر کر دیکھا لیکن ’’نقیباں‘‘ نام کی کوئی مسجد دکھائی نہ دی۔ آخر کار مجھے قدیم عمارتوں کے بارے میں تحقیق کے جذبے سے سرشار اویس غنی کے پاس جانا پڑا انھیں لاہور کی تاریخی عمارتوں کے بارے میں کافی جانکاری ہے۔ ان کی رہنمائی کے سبب میں لاہور ہوٹل کے ساتھ اگلی گلی میں پہنچا۔ جہاں پر یہ مسجد اب ’’شاہی مسجد‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس مسجد کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص257) پر یوں تحریر کیا ہے۔

’’یہ پرانی مسجد بادشاہی وقت کی تعمیر‘ قلعہ گوجرسنگھ کے گوشۂ شمال مغرب کی سمت کو موجود ہے۔ اس مسجد کی عالی شان عمارت ایسی بنائی گئی ہے کہ اب تک باوجود گزرتے صد ہا سال کے بدستور مضبوط و مستحکم کھڑی ہے۔

اس مسجد کی تین محرابیں عالی شان اور تین گنبد ہیں۔ تینوں محرابیں قالبوتی منقش بنی ہیں۔ سقف بھی قالبوتی خشتی ہے۔ درمیانی محراب کے اوپر جو کتبہ ہے اس میں ’’آیت الکرسی‘‘ لکھی ہے۔ مسجد کے باہر صحن میں فرش خشی بنا ہے اور پرانا حوض پختہ بنا ہوا ابھی تک موجود ہے۔ حوض کے گوشۂ جنوب مشرق میں چاہ پختہ بنا ہوا ہے۔ سکھوں کی عملداری میں اس مسجد میں باروت بھری رہتی تھی۔ جب بہ عہد عمل داری سرکار انگریزی‘ باروت تلف ہوکر یہ مسجد خالی ہوئی تو صوبہ شاہ نقیب نے دعویٰ کر کے یہ مسجد واگزار کرا لی۔

یہ مسجد عہد بہادر شاہ میں محمد واصل نامی ایک امیر نے جو سہارن پور کا رہنے والا تھا اور دہلی سے بادشاہی خدمت کے سبب سے لاہور میں آ کر قیام پذیر ہوا تھا‘ بہ صرف زر خود بنوائی تھی جو اب تک اس کی یادگار کے طور پر موجود ہے اس کے بعد اس کی اولاد صوبہ لاہور کے روبرو نقابت کی خدمت پر مامور رہی۔ اس سبب سے وہ نقیب کہلانے لگی اور یہ مسجد نقیبوں کی مسجد مشہورہوئی‘‘۔

سید لطیف نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص۔203) پر خان بہادر محمد پناہ کے عہد کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ محمد واصل کے دو بیٹوں عبدالعزیز اور محمد عارف کے بارے میں بھی لکھا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے درمیانی محراب پر درج ذیل تحریر بتلائی ہے۔

قال اللہ تعالیٰ کل من علیہا فان و یبقی وجہہ ربک ذوالجلال والاکرام

اسی صفحہ پر مزید آگے شمال جنوب کی محرابوں پر درج ذیل تحریر کے بارے میں لکھا ہے۔

المومن فی المسجد کالسمک فی الماء المنافق فی المسجد کالطیر فی القفس۔

عصر حاضر میں جب میکلوڈ روڈ پر لاہور ہوٹل سے بجانب ریلوے پولیس لائنز کی جانب جایا جائے تو لاہور ہوٹل کے اردگرد نئی اور پرانی موٹر سائیکلوں کی ایک بہت بڑی منڈی دکھلائی دیتی ہے۔ لاہور ہوٹل کے داخلی دروازے سے آگے کی جانب سڑک پر بڑھتے ہوئے بائیں جانب ایک سڑک فلیمنگ روڈ کے نام سے ملتی ہے جو آگے جا کر پرانے برف خانے سے ہوتی ہوئی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ تک چلی جاتی ہے۔ اس سڑک کے آغاز میں بھی موٹر سائیکلوں کی دکانیں دکھلائی دیتی ہیں۔ فلیمنگ روڈ پر کچھ گز کے فاصلے پر دائیں جانب ایک گلی جامع مسجد گلی کے نام سے ملتی ہے۔

یہ چھوٹی سی تنگ گلی مسجد کے جنوب مغربی دروازے تک جاتی ہے جہاں پر ’’شاہی مسجد‘‘ کے نام کی تختی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مسجد کی مشرقی سیدھ میں موجود داخلی دروازے پر ’’مسجد جامعہ شاہی مسجد‘‘ کی تختی آویزاں ہے۔ اس دروازے کے باہر ایک پرانے مکان کے نیچے سلائی مشین ٹھیک کرنے کی دکان ہے جو کہ ’’بلا مشیناں والا‘‘ کے نام سے مشہور ہے جبکہ اس بندے کا اصل نام مختار احمد ہے۔ اہل علاقہ اس مسجد کی مانند اس بندے کے اصل نام سے بھی نابلد ہیں۔ مسجد کی انتظامیہ ایک معروف سماجی شخصیت سید احمد کرمانی کے زیر نگرانی ہے۔ مسجد میں حاضر امام قاری بشیر احمد چشتی ہیں۔

مسجد کے مشرقی دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب مدرسے کا حصہ ہے اور دائیں جانب امام صاحب کی رہائش گاہ، جبکہ ان کے اوپر کوارٹر بنا کر کرائے پر دیئے گئے ہیں جو کہ مسجد کی آمدنی کا حصہ ہیں۔ اس سے آگے مسجد کا کھلا صحن ہے اور بائیں جانب وضو خانہ اور غسل خانہ ہے۔ جس جگہ پر امام صاحب کی رہائش ہے وہاں پر کبھی مسجد کا اپنا تالاب ہوتا تھا کیونکہ اس کے ساتھ ہی جنوب میں مسجد کا قدیمی کنواں تھا جس کو بند کر دیا گیا ہے اور اس پر پختہ چھت ڈال کر غسل خانے تعمیر کئے گئے ہیں۔ مدرسے والی جگہ کسی زمانے میں چھ فٹ گہری تھی اور یہاں پر شہتوت اور جامن کے درخت تھے۔ اس گہری جگہ پر نانک شاہی اینٹوں کا فرش بھی موجود تھا۔ لیکن ان کو اب مٹی سے بھر کر پختہ فرش بنا دیا گیا ہے۔

امام صاحب سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ایک بڑی حیران کن بات یہ بتائی کہ اب بھی سال میں ایک یا دو مرتبہ غیر ملکی سیاح اس مسجد کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ وہ مسجد جس کا نام اب محض پرانی کتب کا حصہ ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کا یہاں آنا ایک حیران کن امر ہے ۔ ان سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ کچھ برس قبل یہاں پر ایک انگریز خاتون آئی تھیں جو کہ عمر میں اسی برس سے زائد تھیں۔ انہوںنے امام مسجد کو اس مسجد کا پہلا نام خاک اوباہ اور دوسرا نام مسجد نقبیاں بتلایا۔ اس خاتون نے مزید یہ بھی بتایا کہ ان کا بچپن اس مسجد کے قریب ہی گزرا اور تقسیم کے بعد وہ باہر چلی گئیں۔

میرے پاس موجود پرانی کتب کے حوالہ جات میں کہیں بھی اس مسجد کے نام کا ذکر مسجد خاک اوباہ نہیں ملتا لیکن پھر بھی میں نے اس لفظ پر تحقیق ضرور کی تو مجھے لگا کہ عین ممکن ہے کہ اس انگریز خاتون نے مسجد کا نام خاکروبان کہا ہو کیونکہ مغل عہد میں یہ علاقے شہر سے باہر شمار ہوتے تھے اور پکی ٹھٹھی‘ کچی ٹھٹھی جیسے محلہ جات ہر بڑے شہر کے قریب مختلف ناموں سے ضرور ملتے تھے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ یہ علاقہ اس وقت کچھ ایسے ہی افراد پر مشتمل ہو جو کہ اس طرح کے ذریعہ معاش سے وابستہ ہوں۔

مسجد کی عمارت کی جانب دوبارہ آتے ہیں۔ مسجد کے صحن کے آگے ایک اونچی دیوار بجانب مشرق ہے جس پر فارسی اشعار تحریر ہیں۔ یہ دیوار دوبارہ تعمیر کی گئی ہے۔ ان دیواروں اور مسجد کے ہال کے درمیان میں ہمیں ان محرابوں کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا ذکر پرانی کتب میں ہے۔ مسجد کے ہال سے چھت کو دیکھا جائے تو تین عظیم الشان گنبدوں کی گولائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان گنبدوں کے نیچے لوہے کے چوکٹھے آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کے ساتھ کپڑے کے پنکھے لگائے جاتے تھے۔ ان گنبدوں کے اندر بھی سفیدی کر دی گئی۔

کچھ برس مسجد کی حالت کافی خستہ ہو چکی تھی اور اس کی مشرقی سیدھ کی چوڑی فصیل کی دیوار زمین میں دھنستی گئی ۔ بدقسمتی سے تین سو برس قدیم اس مسجد کا محکمہ اوقاف اور آثار قدیمہ سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ اہل محلہ اور مسجد کے امام قاری بشیر احمد کی کوششوں کے باعث پرانی عمارت کو از سر نو تعمیر کیا گیا۔ نئی تعمیر کے باعث مسجد کی محرابوں اور تین گنبدوں کے علاوہ مسجد کی تمام عمارت میں قدامت کے کوئی آثار باقی نہیں۔

مسجد کے مدرسے میں انتہائی پیار کے ساتھ تعلیم دی جاتی اور یہاں پر روایتی سختی کے کسی قسم کے طریقے استعمال نہیں کئے جاتے۔ مدرسے میں زیادہ تر بچے بھائی پھیرو‘ بورے والا‘ پتوکی‘ ویہاڑی اور عارف والا سے ہیں۔ کچھ برس قبل یہاں پر کشمیری اور افغانی بچے بھی زیر تعلیم تھے لیکن ان کو ملک میں بڑھتی دہشت گردی کے باعث فارغ کر دیاگیا۔ مسجد کی مغربی سیدھ میں ایک انکم ٹیکس آفیسر کا گھر ہے۔ مغربی سیدھ میں گلی بند ہے اور وہاں پر بہت برس پرانی ایک بیکری بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک چوڑا سا فرش بھی موجود ہے جو کہ ’’سلیم بٹ کے تھڑے‘‘ کے نام سے جانا جا تا ہے۔

یہاں پر کسی زمانے میں اہل علاقہ اپنے قالین دھوتے تھے۔ اس سے آگے ایک گھر میں باؤ رزاق بھی رہا کرتے تھے جو کہ ایوب خان کے دور میں کبڈی کے ایک مایہ ناز کھلاڑی تھے اور ریلوے کبڈی ٹیم کے رکن بھی تھے۔ مسجد کی جنوبی سیدھ میں مرزا نواز بیگ کا گھر ہے جس کی تعمیر میں انگریزی عہد نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ مسجد کی شمالی سیدھ میں ایک خالی پلاٹ ہے جس میں پرانی قبریں بھی بتلائی جاتی ہیں۔ اب یہاں پر گھوڑے بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ مسجد کی مشرقی سیدھ میں پکی گلی میں اپنے وقت کی ایک مشہور شخصیت وحید بٹ رہا کرتے تھے، وہ شان ہوٹل کی نسبت سے پورے لاہور میں جانے جاتے تھے۔

مرزا نواز بیگ کے گھر کے ساتھ ہی پرانے گھروں کو گرا کر پلازہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ان گھروں میں پہلے سے موجود تہہ خانوں کے باعث ان پلازوں میں تہہ خانے کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قاری بشیر احمد صاحب نے گفتگو کے دوران بتلایا کہ کئی پرانے مکانات کو جب گرایا گیا تو ان کی بنیادوں میں بارہ دریاں اور پرانی حویلیوں کے آثار بھی دیکھنے کو ملے۔ مسجد کے امام ستائیس برسوں سے ادھر ہیں۔

ان سے قبل عابد شاہ صاحب مسجد کے امام تھے۔ عین ممکن ہے کہ ان کے دور میں مسجد کا نام تبدیل کیا گیا ہو۔ مسجد کے مؤذن اور مدرسے کے استاد کا نام حافظ شکیل احمد ہے۔ مسجد کی مشرقی سیدھ میں حضرت شیخ موسیٰ آہنگر کا مزار مبارک آج بھی مرجع خلائق ہے۔ مسجد کی انتظامیہ سے یہ درخواست ضرور کی جائے گی کہ وہ مسجد کو اس کے پرانے نام ’’مسجد نقیباں‘‘ کے نام سے پکارے جانے کا اہتمام کریںکیونکہ عمارت میں قدامت کے رنگ وقت کے ساتھ ساتھ گم ہوتے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔