میری آواز سنو

وجاہت علی عباسی  پير 10 نومبر 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں سیکڑوں طرح کے لوگ بستے ہیں، رنگ، نسل، زبان، مذہب، روایات اور سوچ کے انداز ہر کچھ میل پر بدل جاتے ہیں، ایک دوسرے سے مختلف ہوکر بھی کئی چیزیں سب میں بالکل ایک جیسی ہیں ’’احساس و جذبات‘‘ چاہے کوئی بھی کسی نسل کا ہو، کوئی یقین رکھتا ہو، بادشاہ ہو یا فقیر، سب میں احساس و جذبات ایک جیسے ہیں۔

دنیا کے ہر انسان کا خوشی میں مسکرانا اور غم میں آنسو بہانہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ آخر ہم سب انسان ہی تو ہیں جو کئی لحاظ سے مختلف ہوکر بھی ایک ہی جیسے ہیں۔

کمیونی کیشن یا رابطہ دنیا کی سب سے اہم چیز ہے، انسان نے ترقی پہیہ بنانے سے شروع نہیں کی، ہاں ترقی کی گاڑی چلی ضرور پہیے سے لیکن اس پہیے کے لیے ضروری تھا ایک دوسرے سے رابطہ یعنی اپنی بات ایک دوسرے تک پہنچانا۔

اشاروں کی زبان پھر تصویریں بناکر سمجھانا اور اس کے بعد اپنی زبان کے استعمال سے حلق سے آواز نکال کر سامنے والے تک پہنچا پانے کا گن جیسے ہی انسان کو آیا وہ ترقی کے اس پہیے پر چڑھ گیا جو آج ’’مارس‘‘ تک پہنچ گیا ہے۔

آج ہر وہ شخص کامیاب ہے جسے اپنی Communication پر عبور ہے، اسی لیے دنیا کبھی بھی کہیں بھی کسی نوکری کا اشتہار آتا ہے تو اس میں سب سے پہلے بنیادی ضرورت اچھی کمیونی کیشن کی ہوتی ہے، یہ اچھے بزنس مین، ٹیچرز اور لیڈرز بناتی ہے، چاہے ہم خود کو کتنا ہی ماڈرن کیوں نہ کرتے جائیں کمیونی کیشن کی ضرورت ہم کو آج بھی ویسے ہی ہے جتنی اس وقت تھی جب ہزاروں سال پہلے انسان غاروں میں رہتا تھا۔

دنیا میں آج سب سے زیادہ بولنے اور سمجھنے والی زبان کون سی ہے؟ اگر آپ کا جواب انگلش ہے تو یہ غلط ہے، دنیا میں آج سے سب زیادہ بولی جانے والی زبان مینڈیرین یعنی چائنیز ہے، 1.2 بلین لوگ دنیا میں آج یہ زبان بولتے ہیں، یہ معلوم کرنا تو آسان ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں کتنی مختلف زبانیں بولی جا رہی ہیں؟ 6,609 مختلف زبانیں آج دنیا میں بولی جاتی ہیں، اس میں سے دو ہزار ایسی ہیں جو گاؤں یا جنگلوں میں بولی جاتی ہیں، ان میں سے بعض ایسی ہیں جو صرف ہزار دو ہزار لوگ ہی سمجھتے اور بولتے ہیں۔

مذہبی رہنما ہوں یا سیاستداں، کامیاب وہی ہوتا ہے جسے اپنی بات صحیح طرح سے پہنچانی آتی ہے، آج کے عمران خان اور بیس سال پہلے کے عمران خان میں کیا فرق ہے؟ ان کی سوچ شاید پہلے بھی وہی تھی جو آج ہے لیکن انھوں نے اپنی رابطے اور بات پہنچانے کی صلاحیتوں پر کام کیا، پہلے وہ دو لوگوں کے سامنے انٹرویوز میں نہیں بول پاتے تھے آج وہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے سامنے تقریر کرتے تھکتے نہیں ہیں۔

کنگ جارج VI جو برٹش راج میں انڈیا کے آخری بادشاہ تھے اور جن کی بیٹی اس وقت کوئین ہیں، تقریر کرتے ہوئے ہکلاتے تھے، اسی لیے ان کی Speach پر کئی سال تک کام کیا گیا تاکہ وہ لوگوں کے سامنے صحیح طرح اپنی بات پہنچا سکیں، پیش کرسکیں، ورنہ ان کی بات ماننے پر کوئی تیار نہیں ہوگا اور اس صورت میں بادشاہ کو ماننے والے تیزی سے تعداد میں کم ہوتے جائیں گے۔

دنیا میں ہر انسان چاہے وہ کسی بھی بیک گراؤنڈ سے ہو اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا شوق رکھتا ہے، چاہے وہ کوئی سیریل کلر ہو، دنیا گواہ ہے کہ ہر زمانے میں انسان نے مختلف میڈیم اپنائے اپنی بات پہنچانے کے لیے، 23 سالہ بھگت سنگھ نے 17 نومبر 1928 میں برٹش پارلیمنٹ پر صرف اس لیے حملہ کیا تھا تاکہ لوگ ان کی بات سننے میں دلچسپی لیں اور یہی ان کا مقصد جیل سے مختلف چیزیں لکھ کر چھپوانے کا تھا تاکہ ان کی بات دوسروں تک پہنچ سکے جس کے لیے وہ پھانسی تک چڑھ گئے۔

آج ہمیں مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو اس چیز کی بہت ضرورت ہے کہ ہم اپنی بات دنیا تک پہنچائیں، ہمارے متعلق بہت سی غلط فہمیاں ہیں، اتنی ساری معلومات ہونے کے باوجود آج بھی 60 فیصد دنیا ہمیں غلط سمجھتی ہے، آج بھی جب ہم انگلینڈ امریکا جیسی جگہوں پر گوروں سے پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ سفید سے پیلے ہوجاتے ہیں، ایسے ڈرتے ہیں جیسے ابھی ہم ان کو پکڑ کر پاکستان لے جائیں گے اور ہر شخص پاکستان میں انھیں اغوا کرنے کے لیے انتظار کر رہا ہوگا۔

پاکستانی کیا ہیں، ان کی سوچ کیا ہے، ہمیں دنیا کو یہ سمجھانا اور بتانا اپنی کیریکٹر بلڈنگ کے لیے ضروری ہے اور یہ موقع فیس بک اور ٹوئیٹر کے ذریعے کسی بھی پاکستانی کو آسانی سے دستیاب ہے۔

کوئی دو تین سال سے انڈیا میں یہ نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے کہ ’’دی لاجیکل انڈین‘‘، ’’وائرل ویڈیو‘‘ جیسے Pages فیس بک پر سامنے آئے ہیں جس میں عام لڑکے لڑکیاں مختلف سوشل ایشوز پر آواز اٹھاتے ہیں اور ویڈیوز بنا بنا کر فیس بک پر ڈالتے ہیں، ویڈیو تیزی سے دنیا بھر میں بسنے والے انڈینز شیئر کرتے ہیں اور پھر وہ بات آسانی سے پھیل جاتی ہے، بیشتر وقت یہ ویڈیوز کامیڈی بیسڈ ہوتی ہیں لیکن ان میں بہت اسٹرانگ سوشل اور پولیٹیکل پیغام ہوتا ہے۔

کچھ دن پہلے سے ایک پاکستان لڑکے نے بھی یہی ٹرینڈ شروع کیا ہے ’’زید علی ٹی‘‘ نامی فیس بک پیج پر یہ لڑکا اکیلے ویڈیوز بناکر فیس بک پر ڈالتا ہے اور یہ سلسلہ بہت مقبول ہو رہا ہے، اس وقت اس کے پیج پر دو ملین سے زیادہ Likes ہیں، ان ویڈیوز میں وہ خاص طور پر دیسی والدین یا دیسیوں کے رویوں کو سامنے لاتا ہے لیکن ہر ویڈیو کو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں اور شیئر کرکے آگے بڑھاتے ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی آواز آگے بڑھانی ہے، دنیا سے رابطہ کرکے اور اس وقت فیس بک اور ٹوئیٹر جیسے ٹولز کو استعمال کرکے آپ کسی بھی انقلاب کو دعوت دے سکتے ہیں، اس کے لیے آپ کو کسی دھرنے کی ضرورت نہیں، صرف جذبے اور فیس بک اکاؤنٹ کی ضرورت ہے جو دونوں ہی مفت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔