(پاکستان ایک نظر میں) - اجی چھوڑیئے یہ مذاکرات وزاکرات

حسنین انور  جمعـء 5 دسمبر 2014
کہیں عمران خان کے یہ پلان وٹامن ’سی ‘کی کمی کا شکار حکومت کے لئے وٹامن ’ڈی‘ کا ڈوز تو ثابت نہیں ہونے والا؟ ۔ فوٹو اے ایف پی

کہیں عمران خان کے یہ پلان وٹامن ’سی ‘کی کمی کا شکار حکومت کے لئے وٹامن ’ڈی‘ کا ڈوز تو ثابت نہیں ہونے والا؟ ۔ فوٹو اے ایف پی

کپتان عمران خان نے اپنا پلان سی ظاہر بھی کردیا ہے اور اب اس پر عملدرآمد بھی کرنے جارہے ہیں اور ساتھ میں اس بات کا اچھی طرح ادراک بھی رکھتے ہیں کہ ’سی‘ کے آگے فل اسٹاپ لگتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تبھی تو پلان ڈی اور اس کے بعد ای کا بھی عندیہ دے دیا ہے ۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن مجھے اب تھوڑی سی پریشانی ہونے لگی ہے کہ کہیں عمران خان کے یہ پلان وٹامن ’سی ‘کی کمی کا شکار حکومت کے لئے وٹامن ’ڈی‘ کا ڈوز تو ثابت نہیں ہونے والا؟ کہیں وینٹی لیٹر پر جانے والی حکومت کو نئی آکسیجن تو نہیں مل رہی؟ اور سب سے خطرناک سوال یہ کہ کہیں شیر کے شکاری کو جنگل میں بھٹکا تو نہیں دیا گیا؟

کرکٹ بڑا عجیب کھیل ہے اور اس میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے تبھی تو اس کو ’بائی چانس‘ کہا جاتا ہے۔ ہم شاید کرکٹ کی الف ب بھی نہ جانتے ہوں جبکہ کپتان نے اس کھیل کی پوری ڈکشنری حفظ کررکھی ہے۔ اس لئے ہمارا کچھ کہنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا لیکن اس کے باوجود میں خود کو اپنے دل و دماغ میں حاوی ہوتے ہوئے خدشات کو زبان دینے سے روک نہیں پا رہا ہوں۔

ہمارے ایک دوست ہیں کافی عرصہ آسٹریلیا میں رہے اور وہاں کے کلچر کو اچھی طرح جانتے ہیں، انہوں نے ایم سی جی پر عمران خان کو کھیلتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ آسٹریلوی ٹیم میدان میں ہر پلیئر کے خلاف باقاعدہ پلان کے ساتھ اترتی ہے اور اس پر سختی سے کاربند رہتی ہے۔ ایک میچ میں عمران خان اسٹرائیک پر تھے اور میچ میزبان سائیڈ یعنی آسٹریلیا کے حق میں تھا اس وقت جس بولر (انہوں نے نام بتایا مگر میں بھول گیا) کے پاس گیند تھی اس کو جانے کیا سوجھی کہ عمران خان کو چھیڑ دیایعنی اپنی روایتی فقرے بازی کی۔ جس سے انہیں اچھی خاصی قیمت چکانا پڑی کیونکہ عمران نے باہر نکل نکل کر کھیلنا شروع کردیا اور جیتا ہوا میچ آسٹریلیا سے چھین لیا۔ بعد میں مذکورہ بولر کو صرف اس بنیاد پر جرمانہ کیا گیا کہ انہوں نے گیم پلان کی خلاف ورزی کی اور وہ گیم پلان یہ تھا کہ عمران خان کے خلاف کبھی بھی فقرے بازی نہیں کرنی ورنہ وہ بے قابو ہوجائیں گے اور اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی‘‘۔

اگر یہ بات درست ہے اور کپتان کی فطرت کو دیکھتے ہوئے اس بات کی پوری توقع بھی ہے، تب پھر موجودہ صورتحال کو ذہن میں رکھیں تو صاف محسوس ہورہا ہے کہ اس وقت عمران اسٹرائیک پرڈٹا ہوئے ہیں لیکن حکومتی بولرز بائونسرز کے بجائے اپنے زہر میں بجھے ہوئے تیروں سے کریز چھوڑ چھوڑ کر ہارڈ ہٹنگ پر مجبور کررہے ہیں۔

یہ کپتان کے کیریئر کا ہی نہیں بلکہ ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مستقبل کا ایک نازک ترین میچ ہے ۔ اس وقت ایک نئے پاکستان کے لئے نئی نسل اپنے کپتان کی جانب دیکھ رہی ہے ،ان کو اس بات کی پروا نہیں کہ کپتان کی جیب میں جو سکے ہیں وہ کھرے ہیں یا کھوٹے ہیں بلکہ ان کو اس بات کا یقین کامل ہے کہ کپتان کے دماغ میں کوئی کھوٹ نہیں ہے اس لئے تمام تر امیدیں ان سے باندھ بیٹھے ہیں۔ ڈی چوک پر اسٹرائیک سنبھالے کپتان کے کندھوں پر ایم سی جی کے 1992 فائنل کی طرح پوری قوم کی توقعات کا بوجھ ہے اور ان کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے اور یقینا ہوگا کہ ایک لوز شاٹ باؤنڈری پر کیچ کا باعث بن سکتا ہے۔

ایک لیڈر کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ کڑے سے کڑے وقت میں بھی ثابت قدم رہے ۔ وہ آندھیوں اور طوفانوں کے سامنے ڈٹ جائے مگر اس سے کہیں زیادہ ایک سچے لیڈر کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم اپنے پیروکاروں یا پھر خود پریقین رکھنے والوں کو بیچ بھنور میں ڈبو نہ دے۔ ایک سرکش سپہ سالار آگے بڑھنا جانتا ہے لیکن ایک ماہر اور ہوشیار کمانڈر ایک قدم پیچھے ہٹ کر پلٹ کر بھرپور وار کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے۔ علامہ اقبال عمران خان کے آئیڈیل ہیں اور وہ اکثر و بیشتر ان کا حوالہ دیتے ہیں پھر یہ اقبال کا ہی تو فرمان ہے کہ؛

پلٹا جھپٹا جھپٹ کر پلٹنا۔

آپ اس گندے اور فرسودہ نظام پر جھپٹ چکے، اس کی بنیادیں ہلاچکے لیکن اب آپ کو ایک حقیقی لیڈر کا کردار ادا کرنا ہے یعنی کہ خود کو اس گندے ، بدبودار اور بدنما نظام کی ناپاپ چھینٹوں سے بچانا ہے ،اور اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ فوری طور پر پلٹیں اور پھر اپنی قوت طاقت اور صلاحیت کو مجتمع کرکے پھر پلٹ کر وار کریں ۔

سابق صدر نے سچ کہا کہ اسلام آباد سومنات نہیں ہے مگر اس جنت نظیر دالحکومت میں جو ظلم کا نظام ہے وہ بھی کسی سومنات سے کم نہیں ہے اور اس پر اگر 17 حملے بھی کرنا پڑیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اس کے لئے شرط وہی ہے کہ جھپٹا پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا۔

حریف کیمپ سے تواتر کے ساتھ زہر میں بجھے ہوئے تیر پھینکے جارہے ہیں۔ وہاں سے مذاکرات کے نام پر مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ میڈیا پر ان کی باتوں سے ایک بچہ بھی بخوبی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ وہ مذاکرات نہیں چاہتے اور اگر دنیا کودکھانے کے لئے راضی بھی ہوتے ہیں تو یہ بات لکھ لیں کہ وہ کبھی آپ کے مطالبات تسلیم نہیں کریں گے۔ ان کا زہر میں بجھا ہوا ایک ایک تیر اس بات کا چیخ چیخ کر اشارہ کررہا ہے کہ وہ کپتان کو غصہ دلا کر ایسے جگہ پر لانا چاہتے ہیں جہاں پر آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہو۔

کپتان کو چاہئے کہ وہ اب ان بے سود مذاکرات کے جھنجٹ میں نہ پڑیں بلکہ ایک رات آرام سے دل میں وہ پاک کلام دہرائیں جس سے وہ اپنے ہر جلسے کا آغاز کرتے ہیں یعنی’ اے اللہ ہم تیری عبادت کرتے اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں‘‘۔ پھر اب تک کے اپنے سفر کا تجزیہ کریں اور وہ فیصلہ کریں جوکہ صرف ان کے اور ان کی پارٹی کے لئے بلکہ ان کی جانب دیکھنے والی نئی نسل کی آنکھوں میں جھلملاتے خوابوں کے لئے ہو۔ ویسے بھی منزل پانے کے لئے تھوڑا پیچھے ہٹ جانا منزل سے بھٹک جانے سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور باقی لوگوں کی باتوں میں کیا رکھا ہے ۔ عزت اور ذلت تو بہرحال خدا کے ہی ہاتھ میں ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

Husnain Anwer

حسنین انور

بلاگر بیس سال سے میدان صحافت میں ہیں اور ایکسپریس گروپ سے منسلک ہیں۔ انہیں ٹویٹر ہینڈل@sapnonkasodagar پر فالو اور [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔