ہماری شکست کی کہانی (آخری حصہ)

محمد عارف شاہ  پير 15 دسمبر 2014

بھارت وہاں کے عوام کی اس کیفیت اورحاکموں کی فرعونیت کو پروپیگنڈے میں استعمال کرتا رہا، آل انڈیا ریڈیو کے مقابلے میں ریڈیو پاکستان کا ڈھاکا اسٹیشن اپنی حکومت اور حکمرانوں کا ہی پروپیگنڈہ کرتا رہا، یہی حال اخباروں کا تھا، ڈھاکا ریڈیو اسٹیشن اس قدر کمزور تھا کہ اس کی آواز ڈھاکا کے مضافات میں بھی مشکل سے سنی جاتی تھی، لوگ کلکتہ ریڈیو سنتے تھے، اس پروپیگنڈے کی صورت بالکل وہی تھی جو ہمیشہ ہمارے ہاں رہی ہے اور آج کل زیادہ ہے۔یعنی قوم روز بروز تنگ دست اور بدحال ہوتی چلی جارہی ہے مگر ٹی وی اور اخباروں کے ذریعے خوشحالی کے گیت گائے جارہے ہیں۔

ہندو، تعلیمی اداروں میں بنگالی نوجوانوں کو بنگالی قومیت اور ہندو ازم کے سبق دیتا رہا، ہمارے مذہبی سربراہ اس کا مقابلہ نہ کرسکے، مشرقی پاکستان میں مذہب کی گرفت زیادہ مضبوط رہی ہے، ڈھاکا کو مسجدوں کا شہرکہا جاتا ہے، وہاں مذہبی ادارے بھی تھے مگر یہ مذہب مُلاّ کا تھا، یہ چندے جمع کرنے اور صرف نماز روزے کی تلقین کرنے والا مذہب تھا، مُلاّئیت وہاں کی مخلوق کو زندہ و بیدار نہیں دیکھنا چاہتی تھی، کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ بیداری اس کی مذہبی اجارہ داری کو ختم کردے گی۔

لہذا مذہب کے ان ٹھیکیداروں نے مسجدوں اور دیگر مذہبی اداروں سے نکل کر اور قومی سطح پر آکرنہ دیکھا کہ ہندو کا زہر کس تیزی سے قوم کی جڑوں میں اترتا جارہا ہے، تعلیمی اداروں کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دی، نصابی کتابیں کلکتہ سے چھپ کر آتی رہیں، اردو کے ایک قاعدے میں اس قسم کے فقرے شامل تھے ’’رام اچھا لڑکا ہے،رحیم بُرا لڑکا ہے‘‘اور اس طرح بظاہر بے ضرر اور محسوس نہ ہونے والے طریقوں سے مسلمان بچوں کی برین واشنگ ہوتی رہی۔ دشمن سو سال لڑکر بھی پاکستان نہیں توڑ سکتا تھا اگر بحیثیت قوم ہماری ایکتا اور یکجہتی کو اندر سے پارہ پارہ نہ کیا گیا ہوتا، ہمیں ان عوامل پر بھی غور کرنا ہوگا جس نے مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمانوں کو پاکستان سے علیحدگی جیسے انتہائی اقدام کرنے پر مجبور کیا۔

یہ حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی کا ہر پانچواں شخص ہندو تھا جنہوں نے مسلم پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا پھر وہ معاشی اور سماجی لحاظ سے بھی مسلمانوں سے بہتر حالت میں تھے، انھوں نے وہاں کے تعلیمی نظام پر مکمل گرفت حاصل کی اور مسلم قومیت کے برخلاف بنگالی قومیت کا پرچار کرکے نوجوان ذہنوں کو اتنا مسخ کردیا تھا کہ وہ نظریہ پاکستان کے اسباب و محرکات بھول گئے تھے، مقامی ہمدردوں کی وساطت سے بھارت نے بھی مجیبی ٹولے کی زبردست سرپرستی جاری رکھی جس کا اعتراف شیخ مجیب نے متعدد مواقعے پر کیا کہ ’’ہاں میں شروع سے علیحدگی کے لیے سرگرم تھا اور مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے مقصد میں حسب منشا کامیاب رہا۔‘‘

دوسری طرف ہمارے ارباب اقتدار و مقتدر اشرافیہ غافل رہے، انھیں پتہ بھی نہیں چلا کہ کب پیروں تلے سے زمین سرک گئی، وہ اپنے اللے تللوں میں اتنا مشغول رہے کہ مشرقی پاکستان کی عام آبادی میں بھی مایوسی و بے چینی اور پاکستان مخالفت جذبات کا زہر سرایت کرتا چلا گیا، دشمن کا ہر وارکاری ضرب لگاتا رہا اور ہمارا نیرو چین کی بانسری بجاتا رہا۔ مشرقی پاکستان میں آگ و خون کا کھیل شروع ہوا تو سب سے پہلا نشانہ وہاں کی اردو بولنے والی آبادی بنی۔

شیخ مجیب اور اس کی مکتی باہنی نے پاکستان دشمنی میں وہاں کی اردو بولنے والی آبادی کو مغربی پاکستان اور فوج کا دلال کہہ کر نشانہ بنانا شروع کردیا، ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے مسلم قومیت اورنظریہ پاکستان سے انحراف کو گناہ عظیم کہہ کر ٹھکرادیا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اور مد مقابل ساڑھے سات کروڑ بنگالی اکثریت میں ہے۔انھوں نے 23مارچ 1971 کو علی الاعلان پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر دفاع پاکستان کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا لیکن وہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے سے تو نہ بچا سکے مگر اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کردیا۔

لاکھوں کی تعداد میں اردو بولنے والے بہاری مسلمان بے دردی سے شہید کردیے گئے، بستیاں تاراج کردی گئیں، مائوں کی گود اور بہنوں کا سہاگ اجڑا، نہ جانے کتنی بیٹیوں اور بہوئوں کی عصمت و عفت پر شب خون پڑا،گویا انھیں ایک قیامت سے گزرنا پڑا۔ فوج اگر مداخلت نہ کرتی تو شاید مکتی باہنی کے ہاتھوں ایک بھی اردو بولنے والا زندہ نہ بچتا، بین الاقوامی ریڈ کراس اور دیگر امدادی تنظیموں نے جنگ کی ہولناکیوں اور مکتی باہنی کی چیرہ دستیوں سے بچاکر انھیں کیمپوں میں محصور کر دیا، جہاں پناہ گزین ہوکر ان کی جان و آبرو تو بچ گئی مگر ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔

آج روئے زمین پر بدنصیب ترین کوئی مخلوق اگر ہے تو بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں گزشتہ 43 سال سے محصور وہ پاکستانی ہیں جن کا قصور یہ ہے کہ وہ اسلام اور پاکستان کے سچے شیدائی ہیں، انھوں نے ایک دفعہ 1947 میں مسلم قومیت اور نظریہ پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرکے ہجرت کی تھی اور دوسری دفعہ 1971 میں تحفظ پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ نچھاورکرکے غریب الوطنی، بے بسی، بے کسی اور اپنوں کی بے وفائی کا طویل عذاب جھیل رہے ہیں۔ وفا کے بدلے وفا کی امید میں یہ دیوانے کیا کچھ نہیں سہہ رہے، بھوک،افلاس، بیماری اور سب سے بڑھ کر اپنی نسلوں کی تباہی۔ محصور پاکستانیوں کی حالت اتنی قابل رحم ہے کہ شاید الفاظ کا کوئی جامہ ان کی مظلومیت اور کسمپرسی کی صحیح کیفیت بیان نہ کرسکے۔ برس ہا برس سے عیسائی مشینریز کی تبلیغ کی کوششوں کے باوجود انھوں نے اپنے ایمان کا سودا کیا اور نہ ہی آلام و مصائب سے گھبرا کر پاکستان اور نظریہ پاکستان سے اپنی وفاداری تبدیل کی۔

مشرقی پاکستان تو چھن گیا، زخم بھی بھر چکا ہے، لیکن کبھی کبھار پیچھے پلٹ کر دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ ہمارے ہاں آج بھی وہ کھیل جاری ہے۔ بھارت کو خوب معلوم ہے کہ جنگی محاذ پر وہ پاکستان کا سامنا نہیں کرسکتا چنانچہ اس نے پاکستان کے خلاف دوسرے محاذ کھول دیے ہیں۔ بھارت نے 43برس قبل پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے دل پر جو گہرا گھائو لگایا تھا آج پھر بھارت اسی طرح کی سازشیں اور مکروہ چالیں پاکستان کے خلاف چل رہا ہے۔

فاٹا اور بلوچستان میں اس کی مختلف النوع مداخلت جاری ہے اور افغانستان میں بیٹھ کر وہ ہماری پشت پر خنجرگھونپنے کی تیاری کررہا ہے۔ اس نے پاکستان کے خلاف کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے افغانستان میں سرمایہ کاری کرکے افغان حکام اور عوام کو اپنا ممنون احسان بنارکھا ہے۔ ملک بھر بالخصوص سندھ و بلوچستان کے حالات ہمیں ایک اور سقوط کی طرف لے جارہے ہیں، ایک اور خانہ جنگی کی طرف، یہ تو شکر ہے کہ ہماری فوج بار بار اپنی اسلامیت کا اعلان کررہی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے جان ہتھیلی پر لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قیادت کو سانحہ دسمبر 1971 کو سمجھنے کی استعداد دے اور اس شعور کی روشنی میں صوبوں کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کی توفیق دے کہ یہی ہماری تحریک آزادی کا اہم سنگ میل اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اہم ترین سبق اور پیغام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔