کامریڈ جمال الدین بخاری (حصہ اول)

لیاقت راجپر  منگل 16 دسمبر 2014

یہ بات 1976کی ہے جب میں اپنے دفتر (سندھ انفارمیشن لاڑکانہ) میں بیٹھا تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا بڑی سردی پڑ رہی تھی کہ اچانک میرے کمرے کو کسی نے چھڑی سے کھٹکھٹایا اور انگریزی میں بڑے رعب سے کہا Anybody here میں نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تو ایک عمر رسیدہ شخص جس کے چہرے پر سفید عینک لگی ہوئی تھی اور اس کے سرپر ماؤ کیپ اور بدن پر لانگ کوٹ پہنے ہوئے تھا۔ میں اس کے پر رعب آواز سے مرعوب ہو کر اسے کہا سر آپ آ جائیں اور پھر میں نے انھیں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی کرسی پر بٹھایا۔ اب وہ مجھ سے سندھی میں مخاطب ہوئے اور میرے بارے میں معلومات لیتے رہے۔ ان کے بات کرنے کا انداز والہانہ، پر عزم اور انقلابی تھا، بہر حال اس دن سے لے کر ان کی زندگی کے آخری دن تک میں اس کے پاس جاتا رہا اور وہ میرے پاس آتے رہے اور ہماری گفتگو ہمیشہ سیاسی اور سماجی مسائل پر رہی اور میں نے اس کے مطالعہ اور تجربہ سے بہت کچھ سیکھا جو مجھے آج کام آ رہا ہے۔

زندگی کی گاڑی اتنی تیزی کے ساتھ چلتی رہی کہ میں اپنے دوست کامریڈ جمال الدین بخاری کا قرض نہ اتار سکا کیوں کہ مجھ پہ بھی یہ قرض تھا اور ہے کہ میں اسے اپنی تحریر میں یاد کروں۔ چلو دیر ہی سہی مگر آج میں اس مہان ہستی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ کامریڈ کتنے عظیم، انقلابی، بہادر اور متحرک تھے جنھوں نے پیری مریدی والے خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے بھی چھوٹے بڑے، امیر و غریب کا کبھی فرق نہیں رکھا حالانکہ ان کے والد زمیندار تھے جس کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔

کامریڈ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1917 سے کیا جب اس کی عمر 17 سال کی تھی کیوں کہ وہ 1900میں 14 مارچ کو احمد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ جب ان میں شعور پیدا ہوا تو ان کے سامنے اپنے والد سید زین العابدین کا علم اور جد و جہد تھی کیوں کہ وہ اپنے بنائے ہوئے ایک اسکول میں پرنسپل تھے۔ وہ عالم و فاضل تھے جنھیں عربی، فارسی، ہندی، انگریزی، سندھی، سنسکرت، گجراتی اور لاطینی زبانوں پر عبور تھا۔ انھوں نے اپنے بیٹے جمال الدین کی ابتدائی تعلیم مدرسہ سے دلوائی، پھر ایک مشنری اسکول سے پڑھایا۔ اس کے بعد کامریڈ نے 1914میں جونیئر کیمبرج اور 1916 میں سینئر کیمبرج پاس کرنے کے بعد 1918 میں بے اے پاس کیا۔

جب 1917 میں Red Revolution آیا اور کمیونزم پھیلنے لگا تو اس کا اثر بخاری جمال الدین پر بھی پڑا لیکن اس کے ساتھ وہ والد کے ساتھ خلافت تحریک میں بھی کام کرتے رہے ان کے والد اس حوالے سے لاڑکانہ بھی آئے تھے جہاں پر کوئی کانفرنس تھی کامریڈ مگر دوسری مرتبہ انھوں نے اپنے بیٹے جمال الدین کو بھیجا تھا۔ کامریڈ بخاری پر مولانا محمد علی جوہر اور حسرت موہانی کا بھی گہرا اثر تھا اس لیے وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے بخاری کے والد کا انتقال 1922ء میں ہوا تھا اور بخاری صاحب جیل میں تھے اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے کیوں کہ انھیں سندھ میں کمیونزم کو فعال بنانے کے لیے ذمے داریاں دی گئیں تھیں۔ انھوں نے لائٹ ہاؤس سینما کے برابر ایک گھر کرائے پر لے لیا۔

کامریڈ میں کام کرنے کا بے حد شوق تھا اور وہ کبھی بھی تھکتے نہیں تھے اور انھوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں کا سودا نہیں کیا ان کی والدہ کا انتقال اس وقت ہوا جب ان کی عمر 5 سال تھی ان کی پرورش اور تربیت میں ان کی پھوپھی اور خالہ نے بڑا رول ادا کیا۔ بچپن میں انھیں قرآن و سنت کی تعلیم دی گئی جس کی وجہ سے انھیں اسلام سے بھی محبت تھی۔ والدہ کی موت کے بعد والد نے کامریڈ کو ایک گورنس (Governess) کے ساتھ جرمنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جہاں پر وہاں کی ایک نیک خاتون ان کی تعلیم کے اخراجات میں مدد کرتی رہی وہاں سے واپسی پر کامریڈ بی اے اور پھر ایم اے 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے پاس کر کے پوسٹ گریجویٹ بن گئے۔ اس دوران وہ کچھ عرصے کے لیے تعلیم کے سلسلے میں انگلینڈ بھی گئے تھے۔

کامریڈ نے ایک سیلر کی حیثیت سے دنیا کے کئی ممالک دیکھے جس میں وہ ایک Trader گروپ کے ساتھ کراچی سے نکلے اور کبھی پیدل اور کبھی گدھے پر بھی سفر کرتے ہوئے ثمر قند، بخارا، تاشقند اور پھر ماسکو پہنچے جہاں پر انھوں نے کمیونسٹ لیڈروں کے ساتھ ملاقات کی۔ اس سفر میں انھیں دس ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ اس ملاقات کے نتیجے میں کامریڈ کو سندھ کے لیے ذمے داریاں دی گئیں۔ انھوں نے سندھ میں مزدوروں، ہاریوں اور دوسرے محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی جس کے لیے جلسے، جلوس اور جوشیلی تقریریں کرتے رہے۔ ان کی انقلابی تقریریں سننے والے سحر میں جکڑے جاتے تھے۔ اپنی تقاریر میں وہ کمیونزم کا فلسفہ اس طریقے سے بیان کرتے تھے کہ لوگ پہلو بھی نہیں بدلتے تھے، کہیں کوئی بات مس نہ ہو جائے، کامریڈ کو جیل کی سختیاں بھی جھکا نہیں سکیں حالانکہ حکام وقت انھیں ذہنی اور جسمانی اذیتیں دیتے رہے کہ شاید وہ اپنے مقصد سے ہٹ جائیں ۔

انھیں 1922 میں ایک سال کے لیے قید میں رکھا گیا کیوں کہ خلافت تحریک میں بڑے متحرک تھے اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی کی ہدایت پر وہ 1924 میں Seamen labor union کا قیام عمل میں لائے جہاں Messrs thansa cargo liner com میں وہ خود بھی سیلون بوائے کے طور پر کام کرتے تھے اس کے بعد وہ 1925 میں North Western Railway Union کے جنرل سیکریٹری بھی رہے جب کہ 1928 میں آل انڈیا مزدور کسان پارٹی کی کانفرنس میں جو کلکتہ میں جون کے مہینے میں منعقد ہوئی تھی اس میں بھی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے نمایندگی کی۔ اسی سال کے اندر کراچی میں منعقدہ مسلم ہندو معاہدے میں بھی خلافت تحریک کے نمایندہ کے طور پر دستخط کیے تھے یہ میٹنگ ادبی شخصیت ٹیکھم داس ودھومل کے گھر میں منعقد کی گئی تھی جس کا مقصد تھا کہ سندھ کو بمبئی پریذیڈنس سے الگ کیا جائے اس اجلاس میں ہندو اور مسلمانوں کے 30 کے قریب نمایندوں نے شرکت کی تھی ۔

اس دور میں جب بھی کوئی تنظیم مزدوروں اور کسانوں کی بھلائی کے لیے بنتی تھی تو اس میں بخاری کا ہونا لازم ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے جب 1940 میں آل انڈیا سبھا کسان پارٹی کا وجود عمل میں آیا تو کامریڈ کو اس کا صدر چنا گیا ۔ (he was elected president) اسی سال میں انھیں سندھ ہاری کمیٹی کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا جس کے لیے اجلاس سندھ کے شہر پتھارو تھر پارکر میں بلایا گیا تھا جس میں عبدالقادر میوا بطور صدر الیکٹ ہوئے یہ بخاری صاحب کی محنت اور کاوشیں تھیں کہ کمیونسٹ پارٹی سندھ میں بڑی مقبول ہو گئی جس کی وجہ سے پرائیویٹ اداروں کے علاوہ اب سرکاری دفاتر میں ٹریڈ یونین بننا شروع ہوئیں ۔

جب 1943میں احمد آباد میں ایک مزدور کنونشن منعقد ہوا جس میں بخاری کی ملاقات ایک بہادر اور متحرک کمیونسٹ لیڈی مزدور یونین کی لیڈر شانتا سے ہوئی دونوں کے خیال اتنے ملتے تھے کہ انھوں نے شادی کرنے کا اعلان کیا مگر بخاری کا جیل جانے کی وجہ سے یہ شادی 1945 میں ہوئی۔ شانتا بخاری جنھوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا اور پارٹی کے کام کے ساتھ ساتھ گھر داری اور بچوں کی پرورش کے لیے بھی وقت دیتی رہیں بخاری صاحب تو اکثر جیلوں میں رہتے تھے اور باقی ساری ذمے داری شانتا صاحبہ ہی نبھاتی تھیں۔

1946 میں کمیونسٹ پارٹی کے اعلان پر اپریل کے مہینے میں رائل انڈین نیوی کے خلاف بغاوت کی حمایت میں آرام باغ کراچی کے گراؤنڈ میں ایک بڑا جلسہ کامریڈ بخاری کی سرپرستی میں منعقد کیا گیا جس میں تقریباً 75 ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ جلسے کی کامیابی سے حکومت نے کمیونسٹ پارٹی پر Ban ڈال دی، پارٹی کے دفتر سیل کر دیے گئے اور کامریڈ بخاری سمیت سارے پارٹی لیڈران کو جیل بھیج دیا، جب وہ رہا ہو گئے تو انھیں پھر 1947 کے دسمبر کے مہینے میں میٹروپول ہوٹل کے ویٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا، مسلسل جیل جانے سے وہ جیل برڈ (Jail Bird) بن گئے تھے ۔ وہ 1922میں ایک سال کے لیے ،1930 میں ڈھائی سال کے لیے، 1933میں دو سال کے لیے 1940 میں ایک سال کے لیے 1942 میں ایک سال کے لیے، 1947 میں بھی ڈیڑھ سال کراچی میں سازش کیس میں سزا سنائی گئی اور اس کے ساتھ 500 روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا جو ادا نہ کرنے پر اسے 6 ماہ اور سزا کاٹنی پڑی۔

انھیں 1949 میں قاضی فضل اﷲ جو کامریڈ کے علی گڑھ یونیورسٹی میں ہم جماعت تھے اس کی ذاتی ضمانت پر رہا کیا گیا اور ان ہی کے مشورے پر وہ کراچی بدر ہونے کے بعد لاڑکانہ چلے آئے اور پہلے تو وہ قاضی صاحب کے گھر پر ٹھہرے پھر قائم شاہ بخاری کے برابر ایک گھر میں منتقل ہو گئے جو ابھی تک ان کی اولاد کے پاس ہے۔ قاضی فضل اﷲ بخاری کے ساتھ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ میں کام کرتے رہے تھے جن سے ان میں کافی گہری دوستی تھی۔ لاڑکانہ میں بخاری نے آتے ہی سیاسی، سماجی، ادبی اور صحافتی سرگرمیاں شروع کر دیں اور قلیل وقت میں وہ اس شہر میں اہم مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے جب 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پاکستان میں پابندی عائد ہو گئی تو کامریڈ نے اپنا رخ سندھ کی سیاست کی طرف بڑھا دیا اور کمیونسٹ پارٹی سے کنارہ کش ہوگئے۔       (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔