تین سالہ بچہ عجیب و غریب اور اذیت ناک بیماری کا شکار

عبدالریحان  جمعرات 18 دسمبر 2014
ایک ایسا لاعلاج جلدی مرض جس نے تین سالہ ایڈیسن کو دھوپ سے محروم کر دیا۔  فوٹو: فائل

ایک ایسا لاعلاج جلدی مرض جس نے تین سالہ ایڈیسن کو دھوپ سے محروم کر دیا۔ فوٹو: فائل

تین سالہ ایڈیسن ملر ایک عجیب و غریب اور اذیت ناک بیماری کا شکار ہے۔ وہ کھیل کود یا گھومنے پھرنے کے لیے کسی میدان یا کھلی جگہ پر نہیں جاسکتا۔ اس کی وجہ ایک ایسی بیماری ہے، جس میں سورج کی روشنی سے جسم پر ناقابل برداشت حد تک جلن ہونے لگتی ہے اور چھالے پڑجاتے ہیں۔

یہ ایک نادر اور لاعلاج جینیاتی بیماری ہے، جس میں مبتلا فرد کی جلد بالائے بنفی شعاعوں ( الٹرا وائلٹ ریز) کو بالکل برداشت نہیں کرسکتی اور یہ شعاعیں دھوپ میں شامل ہوتی ہیں۔

ایڈیسن کی والدہ، نکولا اور والد، اینڈریو ملر اپنے لختِ جگر کو لاحق اس بیماری کی وجہ سے سخت پریشان اور افسردہ ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو اس احساس سے بچانا چاہتے ہیں کہ اسے کوئی مرض لاحق ہے اور وہ عام بچوں کی طرح گھر سے باہر کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصّہ نہیں لے سکتا۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دھوپ سے باہر نکلتے ہوئے ایڈیسن کا جسم سر سے لے کر پاؤں تک بالائے بنفشی شعاعوں سے بچانے والے میٹیریل سے ڈھکا ہوا ہو۔

ایسا نہیں ہے کہ ایڈیسن دھوپ میں نہیں نکلتا۔ وہ گھر سے باہر ضرور نکلتا ہے، مگر اس کے ہاتھوں پر مخصوص دستانے ہوتے ہیں۔ اس کے سَر پر ایک ہیٹ ہوتا ہے، جس سے منسلک شفاف پلاسٹک اس کے چہرے اور سینے کو ڈھانپے رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ خصوصی طور پر تیار کیے گئے کپڑے پہنتا ہے، جن میں سے بالائے بنفی شعاعیں نہیں گزر سکتیں۔ اس کے جسم پر ہر تین گھنٹے کے بعد سن بلاک لگانا بھی ضروری ہے۔

دوسرے بچوں کی طرح ایڈیسن کے دل میں بھی کھیلنے کودنے کی خواہش ہے، مگر اسے اپنی اس خواہش کو گھر کے اندر رہتے ہوئے پورا کرنا پڑتا ہے۔ انڈریو نے اپنے بیٹے کے لیے اِن ڈور گارڈن بنوا رکھا ہے، جس میں مختلف قسم کے جھولے اور کھیل کود کا دوسرا سامان موجود ہے۔

ایڈیسن کو لاحق یہ مرض طب کی اصطلاح میں Xeroderma Pigmentosum کہلاتا ہے۔ اس مرض سے متأثرہ فرد دھوپ میں نکلنے پر جلد کے سرطان کا شکار ہوسکتا ہے۔

برطانیہ میں لگ بھگ سو افراد اس مرض میں مبتلا ہیں، جب کہ دنیا بھر میں ایکس پی کے مریضوں کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے۔ کم سن ایڈیسن اس بیماری کا کم عمر شکار ہے۔

مسز ملر کا کہنا ہے کہ ایڈیسن تین ماہ کا تھا، جب انہیں اس کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کا پتا چلا۔ نکولا کے مطابق یہ مرض ایڈیسن کی زندگی کو ہر طرح سے متأثر کررہا ہے۔ ’’ہمیں یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ڈوربیل بجنے پر ایڈیسن دروازے پر نہ جائے۔ ہمیں گھر میں ایئرکنڈیشننگ کا مرکزی نظام نصب کروانا پڑا ہے، کیوں کہ دن کے وقت کوئی بھی کھڑکی نہیں کھولی جاسکتی، جس سے دھوپ اندر آنے کا خدشہ ہو۔‘‘ نکولا کا کہنا ہے کہ گھر کے اندر ایڈیسن ایک نارمل بچے کی طرح رہتا ہے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر کھیلتا ہے اور شرارتیں کرتا ہے۔

تین ماہ کی عمر میں ظاہر ہو گیا کہ ایڈیسن کی جلد کے لیے قدرتی اور مصنوعی، دونوں طرح کی روشنی نقصان دہ ہے۔ اس کی جلد بہت زیادہ حساس ہوگئی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد اور جسم کے مختلف حصوں کی جلد پر نشانات ظاہر ہونے لگے تھے۔ انہیں دیکھ کر لگتا تھاکہ کسی قسم کی شعاعوں یا تپش کی وجہ سے ان  حصّوں کی کھال جل گئی ہے۔ اینڈریو اور نکولا کا خیال تھا کہ ان کے بچّے کو کسی قسم کی الرجی ہوگئی ہے۔ وہ اسے علاج کے لیے لندن کے سینٹ تھامس اسپتال لے کر گئے۔ وہاں مختلف ٹیسٹ ہوئے تو پتا چلا کہ ان کا بیٹا ایکس پی جیسی لاعلاج بیماری کا شکار ہوچکا ہے۔

ایڈیسن کے والدین کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بیٹے کو فقط براہ راست سورج کی شعاعوں سے نہیں بچانا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں سے بالائے بنفشی شعاعوں کا اخراج ہوتا ہے، جن سے اسے دور رکھنا ہو گا۔ بالائے بنفشی شعاعیں دن میں کسی ذریعے سے گھر کے اندر بھی پہنچ سکتی ہیں۔ اس لیے بہت زیادہ احتیاط کرنا پڑتی ہے۔

سورج غروب ہونے کے بعد ایڈیسن گھر سے باہر نکل سکتا ہے، مگر نکولا اور ایڈیسن اس وقت بھی اسے خصوصی لباس پہنا کر ہی باہر لے جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔