ہر اندھیرے کی دُعا

سید تیمور علی  ہفتہ 27 دسمبر 2014

16دسمبر کی صبح وارسک روڈ پشاور پر قائم آرمی پبلک اسکول میں داخل ہونے والے دہشت گردوں نے ایسی قیامت برپا کی کہ آج ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ہر سمت اُداسی نظر آتی ہے لیکن کیا کرشمہ ہے کہ معصوم جانوں کی شہادتوں کا کہ ان کی قربانیوں کے طفیل آج پورا ملک بلا امتیاز رنگ و مذہب و نسل یکجان ہوگیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر نفس ایک ہی صدا دے رہا ہے کہ ہمارے خون کے آخری قطرے تک دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری۔ آج وہ دُعا بن گئی جو ہر اندھیرے کو روشنی میں بدل رہی ہے۔ تاریکی کو ختم کرنے کا باعث بن رہی ہے اور اس دُعا کی عظمت کو بلند کرنے والے آج اِس دنیا میں نہیں لیکن وہ معصوم بچے جنہوں نے اپنی جانیں دے کر امن کی شمع کو روشن کیا ہے، اُمید اور حوصلے کو قوم میں پیدا کیا ہے، ان کی یہ قربانی مدتوں فراموش نہ کی جاسکے گی۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ حملہ کرنے والے نہ صرف امن کے دشمن بلکہ علم کے بھی دشمن ہیں۔ وہ ایسے پیشہ ور کرائے کے فوجی ہیں جو نہ تو مسلمان کہلانے کے لائق ہیں اور نہ ہی انسان گردانے جاسکتے ہیں۔ البتہ درندگی کی ایسی مثال ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے وہ نمرود ، شداد، چنگیز اور ہلاکو کے پیروکار نظر آتے ہیں۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت قوم یکجان ہو کر ایک نکاتی ایجنڈے پر جمع ہوکر دہشت گردی کا مقابلہ کریں۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جو آرمی پبلک اسکول کے معصوم طلباء و طالبات اور اساتذہ نے اپنا خون دے کر فراہم کیا ہے۔ ہر ذی شعور انسان نمناک آنکھوں کے ساتھ اپنے مستقبل کو دیکھ رہا ہے اور اس سوچ میں غلطاں ہے کہ آخر ایک محفوظ اور پر امن مستقبل کو کیسے حاصل کیا جائے۔ مشکل فیصلوں کا وقت آن پہنچا ہے۔

حکومت کو ریاستی طاقت کا استعمال کرنا ہوگا۔ کسی قسم کی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر وہ قدم اٹھانا ہوگا جو امن کے قیام کی جانب بڑھتا ہو۔ اس قسم کے واقعات مستقبل میں بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف حتمی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ 18میں سے 6دہشت گرد تختہ دار پر لٹکا دیے گئے ہیں۔ باقی کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے تیاریاں مکمل کی جارہی ہیں۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ دہشت گردوں کو ریاست نے اپنے ردِ عمل کے ذریعے پیغام دے دیا ہے کہ اب امن کا راستہ مذاکرات نہیں بلکہ ریاست کی رِٹ کے ذریعے تلاش کیاجائے گا۔ قوم حکومت کی پشت پر ہے اور چاہتی ہے کہ مشکل فیصلے کرکے امن حاصل کیاجائے۔ گو کہ یہ ایک مشکل اور پر خطر راستہ ہے۔ یہ جنگ طول بھی پکڑ سکتی ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں اپنے صبر اور برداشت کو برقرار رکھنا ہوگا اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ دسیوں ہزار لوگ اس جنگ میں مارے جاچکے ہیں اور آگے بھی خطرات باقی ہیں۔

یہ سب کچھ ماضی کی حکومتوں کے منتشر فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ ریاستی اداروں گومگوں کی کیفیت میں رہے اور مضبوط پالیسیاں مرتب نہ کی جاسکیں۔ سردست عسکری و سیاسی قیادت نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ایک مضبوط ، متفقہ و مربوط پالیسیوں کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔ مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دے دی گئی ہے جس میں قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی پالیسیوں کے خدوخال وضع کر لیے گئے ہیں لیکن اصل امتحان ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے وقت سامنے آئے گا۔

ان تمام معاملات میں سیاسی جماعتوں کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ماضی میں اگر دیکھا جائے تو تین سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو دہشت گردوں کے نشانے پر رہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ شامل تھیں لیکن ایم کیو ایم کو اس میں امتیازی حیثیت اس لیے حاصل ہے کہ اس کی قیادت 2001ء سے انتہا پسندی، مذہبی جنونیت اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی جانب اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہی۔ حکومتی اداروں کو جھنجھوڑتی رہی لیکن جواباً اس کا تمسخر اڑایا گیا۔ آج قوم جس دوراہے پر کھڑی ہے اس کی نشاندہی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے نائن الیون کے واقعے کے بعد ہی کردی تھی۔ اگر یہ فیصلے اس وقت کر لیے جاتے تو ملک و قوم کو یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ اس ضمن میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ اب قیادت کا دور اندیش ہونا لازمی ہے۔ اگر قیادت آنے والے خطرات کا ادراک نہ رکھ سکے تو اسے قائد کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔