نکولس کو مار ڈالو

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 30 دسمبر 2014

آئیں پہلے عظیم فرانسیسی ادیب اناطول فرانسس کی نوبل انعام یافتہ کہانی ’’سیا ہ روٹیاں‘‘ پڑھتے ہیں۔ ’’تم نے اپنی حماقت کے لیے متاع دنیا کے انبار جمع کر رکھے ہیں اور ضرورت مندوں کو روٹی کا ایک ٹکڑا دینے میں بھی تمہیں عار ہے مگر وہ دن قریب ہے جب تمہیں درد ناک شعلوں میں جلایا جائے گا اور تم ایک قطرہ آب کے لیے التجا کرو گے‘‘ ’’یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب نکولس نیرلی نامی ایک شخص فلورنس کے عالی شان شہر میں بینکار تھا۔ صبح ہوتے ہی وہ اپنی میز کے سامنے جا بیٹھتا۔ سہ پہر کا گھڑیال بجتا تو نکولس وہیں مورچہ لگائے کھاتے میں درج اعداد و شمار سے الجھتا رہتا۔

شہنشاہ سے لے کر پوپ تک سب ہی اس کے مقروض تھے۔ اسے رقم ڈوبنے کا خدشہ نہ ہوتا تو وہ شیطان کو بھی قرض دے دیتا۔ اسے شہر میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کا گھر ایک بڑے محل کی صورت میں وسیع و عریض قطعہ اراضی پر پھیلا ہوا تھا جہاں دن کے وقت بھی سورج کی روشنی صرف تنگ کھڑکیوں کے ذریعے ہی پہنچ پاتی تھی۔ یہ بھی اس کی عقل مندی کی دلیل تھی کیونکہ امیر آدمی کا گھر ایک قلعہ ہونا چاہیے تا کہ مکاری سے ہتھیائی ہوئی دولت کی حفاظت طاقت سے کی جا سکے۔ اسی طرح کھڑکیوں میں آہنی سلاخیں لگائی گئی تھیں اور دروازوں پر زنجیر سر شام ہی چڑھا دی جاتی تھی۔

گھرکی بیرونی دیواروں پر ذہین ہنرمندوں سے نقاشی کرائی گئی تھی۔ اس میں قبائلی سرداروں، بنی اسرائیل کے بادشاہوں اور پیغمبروں کی تصویرکشی کی گئی تھی۔ کمروں میں آویزاں پردوں پر سکندر اعظم اور اسی قبیل کے دیومالائی کرداروں کی عکاسی تھی۔ شہر پناہ سے باہر ایک عالی شان سرائے تعمیر کی تھی جس کی دیواروں پر اس کی اپنی زندگی کے کار ہائے نمایاں درج تھے اور اس کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس مجسمے میں نکولس دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے مقدس مریم کے قدموں میں گھٹنوں کے بل جھکا تھا نکولس کو سرکار دربار میں بڑا رسوخ حاصل تھا۔ اس نے کبھی کسی قانون کے خلاف زبان نہیں کھولی تھی۔ غریب غربا سے اسے طبعاً تنفر تھا۔ ملک و قوم کے باغیوں سے اسے کوئی واسطہ نہیں تھا چنانچہ اپنی بے پناہ دولت کے بل پر اس نے جو عزت کمائی تھی وہ روز بروز بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

سردیوں کی ایک شام وہ گھر لوٹ رہا تھا۔ اسے معمول سے کچھ دیر ہو چکی تھی۔ گھر کی دہلیز پر پھٹے لباس والے گداگروں کے ایک ہجوم نے اسے گھیر لیا اور ہاتھ پھیلائے بھیک مانگنے لگے۔ اس نے سخت سست کہہ کر اپنی جان چھڑانا چاہی مگر وہ مارے بھوک کے بھیڑیوں کی طرح نڈر ہو رہے تھے۔ انھوں نے اس کے گر د دائر ہ بنا لیا اور اپنی پھٹی ہوئی قابل رحم آوازوں میں روٹی کا مطالبہ کرنے لگے۔ وہ جھک کر انھیں مارنے کے لیے پتھر اٹھانا چاہتا تھا۔ اچانک اس کی نظر اپنے ملازم پر پڑی جو روٹیوں کی ٹوکری سر پر اٹھا ئے گھر سے نکل رہا تھا۔ یہ روٹیاں اصطبل کے سائیسوں، خانساموں اور مالیوں کے لیے جا رہی تھیں۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ملازم کو بلایا اور دونوں ہاتھ ٹوکری میں ڈال کر کچھ روٹیاں نکالیں اور بھوکوں کی طرف اچھال دیں۔ گھر میں داخل ہو کر وہ بستر پر گیا اور تکیے پر سر رکھتے اسے نیند آ گئی۔

رات کے وقت اس پر مرگی کا حملہ ہو گیا۔ اس کی موت اس سرعت سے حملہ آور ہوئی کہ وہ اپنے خیال میں ابھی بستر پر ہی تھا کہ اس نے خود کو کال کوٹھری جیسی جگہ پر پایا، جہاں فرشتہ مائیکل اپنے وجود سے نکلتی روشنی میں نہایا بڑے انہماک سے ترازو ہاتھ میں تھامے پلڑوں میں کچھ رکھ رہا تھا۔ نکولس نے دیکھا کہ نیچے جھکے پلڑے میں کچھ جواہرات تھے جو بیوہ عورتوں نے اس کے پاس رہن رکھوائے تھے سو نے کے و ہ ٹکڑے تھے جو وہ گاہکوں کے زیورات سے نوچ لیا کرتا تھا۔ سونے کے سکے تھے جو اس نے  دھوکہ دہی سے کمائے تھے۔ نکو لس کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کی یہ خود اس کی زندگی کا مآل تھا۔ جس کی منصفی اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی۔

جناب عالیٰ اس نے کہا اگر آپ کی طبعیت پر بار نہ ہو تو یہ عرض کروں گا اگر آپ پلڑے میں میرے افعال بد رکھ رہے ہیں تو دوسرے پلڑے میں میری وہ نیکیاں نہ بھولیں جن کا ایک عالم میں شہرہ تھا۔ سانتا میریا کے گرجا گھر کو مت بھولیے جس کی تعمیر کے ایک تہائی اخراجات میں نے برداشت کیے تھے اور پھر شہر پناہ سے باہر وہ سرائے جسے میں نے اپنی جیب سے تعمیر کروایا۔ ’’فکر مت کرو، نکولس نیرلی۔‘‘ فرشتے نے جواب دیا۔ ’’مجھے بھولنے کی عادت نہیں ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے سانتا میریا کا گرجا اور منقش دیواروں والی سرائے اٹھا کر دوسرے پلڑے میں ڈال دی مگر پلڑے میں کوئی جھکاؤ پیدا نہ ہوا۔ فلورنس کا بینکار کچھ پریشان ہو گیا۔ ’’محترم سینٹ مائیکل! دوبارہ توجہ فرمائیے! آپ نے پلڑے میں مقدس پانی کا وہ فوراہ تو رکھا ہی نہیں جو میں نے سان گیوانی کے گرجا گھر میں بنوایا تھا اور سینٹ اینڈریا کا وہ منبر بھی مجھے نظر نہیں آ رہا جس پر یسو ع مسیح کے بپتسمہ کی قد آدم عکاسی تھی۔

اس منبر کے لیے مجھے فنکار کو خاصی رقم دینا پڑی تھی‘‘۔ فرشتے نے منبر اور فوارہ اٹھا کر پلڑے کے اوپر رکھ دیے مگر میزان میں کوئی جنبش پیدا نہ ہوئی۔ نکولس نیرلی کو لگا کہ اس کا ماتھا ٹھنڈے پیسنے سے بھیگتا جا رہا تھا۔  ’’محترم! کیا آپ کو یقین ہے کہ میزان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔‘‘ فرشتے نے معنیٰ خیز مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ پیرس کے آرتھیوں یا وینس کے تاجروں کا میزان نہیں ہے لہذا اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ’’خوب!‘‘ نکولس نے گہر ی سانس لے کر کہا۔ اس کا رنگ چونے کی طرح سفید پڑتا جا رہا تھا۔ ’’گویا گرجا، فوارہ، منبر، اور بے شمار بستروں والی سرائے کا وزن کسی پرندے کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔‘‘ تم خود دیکھ لو!‘‘ فرشتے نے جواب دیا۔ ’’تمہاری گمراہیوں کے مقابلے میں تمہاری نیکیاں پر کاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔‘‘ پھر تو مجھے جہنم میں جانا ہو گا۔ ’’نکو لس تقریباً رو دیا۔ دہشت کے مارے اس کے دانت بجنا شروع ہو گئے۔ ’’صبر! نکو لس نیرلی، صبر!‘‘ منصف فرشتے نے بڑے رسان سے کہا۔‘‘ ابھی ہمارا کام ختم نہیں ہوا۔ ابھی کچھ افعال کا وزن ہونا باقی ہے۔

یہ کہتے ہوئے اس نے وہ سیاہ روٹیاں اٹھائیں جو نکو لس نے درویشوں کو دی تھیں اور نیکیوں والے پلڑے میں ڈال دیں۔ یکایک میزان میں حرکت پیدا ہوئی۔ ایک پلڑا اوپر کو اٹھا دوسرا نیچے جھکا اور دونوں پلڑے متوازن ہو گئے۔ ترازو کی ڈنڈی افقی سطح کے عین متوازی تھی، عموداً کھڑی ہوئی ظاہر کر رہی تھی کہ دونوں پلڑے میں ایک جیسا وزن تھا۔ بینکار کو اپنی آنکھوں پریقین نہیں آ رہا تھا مگر مہربان فرشتہ بڑی سنجیدگی سے گو یا ہوا۔ ’’سنو نکولس نیرلی! تمہارے اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ تم ابھی جنت اور جہنم میں کسی کے بھی حقدار نہیں ہو۔ فلورنس واپس چلے جاؤ اور شہر والوں میں وہی روٹیاں بانٹو جو تم نے پچھلی رات میں اس وقت گداگروں کو دی تھیں جب کوئی تمہیں کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ تمہاری نجات ہو جائے گی۔

خدا کی رحمتیں لامحدود ہیں۔ مگر وہ روٹیاں تقسیم کرنا نہ بھولنا جنہوں نے آج میزان کو تلپٹ کر دیا تھا۔ بس اب چلتے بنو! آج ہمارے حکمران ہماری سیاسی قیادت اور اشرافیہ سب کے سب نکولس بن چکے ہیں اناطول فرانسس نے اپنی کہانی میں نکولس کا کردار تخلیق کرتے وقت کبھی یہ سو چا بھی نہ ہو گا کہ صدیوں بعد اس کا یہ کردار نکولس کسی ملک میں ہر عہد ے، مرتبے پر بیٹھا ہوا ہو گا اناطول فرانسس مر گیا لیکن اس کا تخلیق کردہ کردار آج بھی زندہ ہے اور پاکستان کے عوام پر مضبو طی سے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ نکو لس کبھی نہیں مر سکتا اور نہ ہی ہمارے حکمران سیاسی قیادت اور اشرافیہ اسے کبھی مرنے دے گی۔ ہم پاکستانی شیطان کی پناہ سے تو بچ سکتے ہیں لیکن نکولس کے وار سے نہیں بچ سکے درندے اور وحشی جانور تو خواہ مخواہ بدنام ہیں نکولس جیسے انسان سے بڑا درند ہ اور وحشی کوئی نہیں اس سے زیادہ بے رحم کوئی نہیں۔ شوپنہار کہتا ہے ’’انسان کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مزا لینا ہے۔‘‘

خدارا انسانوں کو ذلیل اور رسوا مت کرو۔ اور اپنے اندر بیٹھے نکو لس کو آج بھی مار ڈالو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔