- عالمی برادری فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ جارحیت بند کروائے، سعودی عرب
- ٹی20 ورلڈکپ؛ وارم اَپ میچز کا شیڈول جاری
- 2000 سے زائد جگسا پزل اکٹھا کرنے کا ریکارڈ
- کیریبیئنز آج بھی سوئنگ کے سلطان ’وسیم اکرم‘ کے سحر میں مبتلا
- سبزی خوروں کی غذاؤں اور بہتر صحت کے درمیان تعلق کا انکشاف
- گوگل کا اینڈرائیڈ صارفین کیلئے سیکیورٹی فیچر متعارف کرانے کا اعلان
- روہت شرما پاکستانی مداح کے پیغامات پر مسرور
- کوچ بابر کو توقعات کے بوجھ سے آزاد کرائیں گے
- گرمی کی شدت میں اضافہ، وفاقی تعلیمی اداروں کے اوقات تبدیل
- ٹی20 ورلڈکپ، شعیب ملک نے ٹیم سے بلند توقعات وابستہ کرلیں
- کراچی کے علاوہ لاہور، ملتان کی ٹمبرمارکیٹ بھی احتجاجاً بند کرنیکا اعلان
- 10ماہ میں تجارتی خسارے میں 16.55 فیصد کمی ریکارڈ
- موقف پر کھڑاہوں، گردن کٹوادوں گا، پیچھے نہیں ہٹوں گا، فیصل واوڈا
- پاکستان میں زراعت، آئی ٹی میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں، اسحق ڈار
- پاکستان کا چین کے توانائی قرضوں کی تجدید پر غور، تجاویز تیار
- ڈیوٹی، ٹیکسز ادائیگی پر 248 موبائل ڈیوائسز ان بلاک
- دلِ مردہ دل نہیں ہے۔۔۔۔۔ !
- حجِ بیت اﷲ کی شرائط، فضیلت و برکات
- جج کی دہری شہریت پر ایم کیو ایم، ن لیگ اور آئی پی پی اراکین قومی اسمبلی کی تنقید
- مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا
ہم بچوں کو بھی اپنی خوشیوں میں یاد رکھیں
پیاری ڈائری،
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
مصروفیت کچھ زیادہ ہی ہوگئی تھی سو تم سے بات کرنے کا وقت ہی نہیں مل پایا۔ روز سوچتا تھا کہ آج ضرور ڈائری لکھوں گا اور پھر روز یہ بات بھول جاتا تھا۔
تم تو جانتی ہی ہو کہ میں نے ادبی عیاشی ترک کردی ہے اور اب خیر سے نوکر ہوگیا ہوں، سو اب نوکری کا غم پالوں یا دنیا کا؟ چونکہ غمِ دنیا پالنے سے محض ڈیڑھ منٹ کی داد ملتی ہے اور غمِ روزگار پالنے سے نہ صرف پیسہ ملتا ہے بلکہ اس پیسے کے طفیل پورے مہینے اپنے سے کمتر مالی حیثیت رکھنے والوں کی بے وجہ داد بھی حصے میں آتی ہے لہٰذا تمام عقلمند انسانوں کی طرح میں نے بھی فی الحال غمِ دنیا پر لعنت بھیجی ہوئی ہے اور غمِ روزگار کے بکھیڑے نمٹا رہا ہوں۔
تمہیں یاد ہے پچھلے ماہ مجھے ایک بچے نے جنت سے خط بھیجا تھا؟ میں نے وہ خط اپنے بلاگ پر کیا چھاپا یہ بچہ تو پھیل ہی گیا۔ صحیح کہتے ہیں کہ نیکی کا زمانہ نہیں ہے اور اگر کسی کو انگلی پکڑاؤ تو وہ بلاوجہ ہاتھ پکڑنے لگتا ہے۔ میں دفتر سے تھکا ہارا گھر آیا تو آج کی ڈاک میں جنت سے آیا ہوا ایک اور خط میرا منہ چڑا رہا تھا۔ کھول کر پڑھا تو وہی ننھے میاں ایک بار پھر مخاطب تھے اور یہ خوش فہمی پالے بیٹھے تھے کہ میں ایک بار پھر ان کا خط من وعن چھاپ دوں گا۔ بھلا بتاؤ، میرے پاس اپنا مواد کم ہے چھاپنے کو جو میں ایک کل کے بچے کا خط چھاپتا پھروں؟ حد ہے خوش فہمی کی بھی! اور خط بھی کیا؟ خود دیکھو اور بتاؤ کہ کیا یہ خط کسی بلاگ میں چھپنے لائق ہے؟
پیارے انکل،
السلام علیکم! آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے میرا پچھلا خط اپنے بلاگ میں چھاپا اور میری آواز لوگوں تک پہنچائی۔ میں نے وہ بلاگ اپنے دوستوں کو بھی پڑھ کر سنایا۔ قائد اعظم البتہ اپنے رونے والی بات کا سن کر خاموش ہوگئے اور جب بلاگ ختم ہوا تو شرم کے مارے ایک بار پھر منہ چھپا کر رونے لگ گئے۔ عجیب ہیں نا قائد بھی؟
مگر یہ تو ضمنی بات تھی، میں نے تو آپ سے ایک اور بات کرنی تھی جس کے لئے میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ سنا ہے پاکستان میں میرے پسندیدہ ہیرو کی شادی تھی؟ خوب جشن رہا۔ میں نے دو جنتیوں کو کہتے سنا کہ سوشل میڈیا سے لیکر پرنٹ میڈیا اور چوک چوبارے سے لیکر ٹیلی ویژن تک ہر جگہ موضوع گفتگو کپتان کی شادی ہی تھی۔ مختلف چینلز کے درمیان مقابلہ ہورہا تھا کہ کون سب سے اچھے گانے چلاتا ہے۔ کہیں اس بات پر بحث تھی کہ دلہن نے جو کنگھا استعمال کیا ہے وہ کس کمپنی کا تھا، اور کہیں اس بات پر شور تھا کہ سب سے پہلے ہمارے چینل نے بتایا کہ دولہا کے جوتوں میں استعمال ہونے والا چمڑا کس گائے کی کھال کا تھا اور اس گائے کو کس نے پالا اور پھر کس خوش نصیب قصاب کے ہاتھوں وہ کھال اتر کر چمڑا بننے کی فیکٹری تک پہنچی جہاں سے وہ چمڑا اس پاپوشِ مبارک کے کاریگر تک پہنچا۔
ہم بچوں کو ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ہمیں تو خوشی تھی کہ وطنِ عزیز میں اچھی خبروں کو ترسے ہوئے لوگوں کو جشن منانے کا ایک موقع مل گیا ہے۔ خوشی کا خیال آتے ہی مجھے امی یاد آگئیں۔ میرا دل کیا کہ میں امی کو بھی مسکراتا ہوا دیکھوں سو میں نے نیچے جھانک لیا۔ پیارے انکل، میں چاہتا ہوں کہ آپ امی کو بتائیں کہ میں نے انہیں کل پھر ٹیلی ویژن دیکھ کر عمران خان کے بچوں کا ذکر سنتے ہوئے روتے دیکھ لیا ہے۔
آپ امی کو سمجھائیں کہ خوشیوں کے موقع پر رونا اچھی بات نہیں ہوتی۔ مجھے پوری امید ہے کہ یہ صرف وقتی ابال تھا اور قوم کی اصل توجہ اب بھی ہمارے ناحق بہنے والے خون کا انصاف دلانے پر ہی ہے۔ امی سے کہیئے گا کہ وہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کو اتنا بےحس نہ سمجھیں، یہ لوگ ہمیں بھولے نہیں ہیں۔ امی سے کہہ دیں کہ پلیز نہ روئیں، اب تو میں وہاں نہیں ہوں ورنہ میں اپنے ہاتھ سے ان کے آنسو پونچھ دیتا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئے نئی ماں لانے والے ہمارے کپتان، قوم کے لیڈر اور ہمارے صوبے کے حکمران ہونے کے ناطے، ہم گزر جانے والے بچوں کو بھی اپنی خوشیوں میں ضرور یاد رکھیں گے۔
امی سے کہیں کہ حوصلہ رکھیں، کپتان ہمارے گھر ان سے ملنے اور ان کے آنسو پونچھنے ضرور آئیں گے۔ آپ کہہ دیں گے نا؟
والسلام،
ایک سو بتیس میں سے ایک
پیاری ڈائری! اب تم خود بتاؤ کہ اس خط میں چھاپنے جیسا کیا ہے؟ کیا اگر چند بچے شہید کردیئے گئے تو ہم زندگی جینا بند کردیں؟ مسکرانا بند کردیں؟ سانس لینا چھوڑ دیں؟ عجیب منطق ہے کہ خوشیاں منانا نہ چھوڑیں مگر ان بچوں کو بھی ضرور یاد رکھیں۔
اللہ اللہ کرکے پاکستان کی موجودہ صورت حال میں سب سے اہم، سنجیدہ اور فوری توجہ کا متقاضی مسئلہ اپنے مثبت، منطقی، اور قرار واقعی مناسب و مطلوب انجام کو بخیر و خوبی پہنچ گیا ہے۔ میں تو یہ سوچتا ہوں کہ کس منہ سے باری تعالٰی کا شکر بجا لاؤں اور یہ کہتا ہے کہ خوشی کے موقع پر خون اور اذیت میں لتھڑے اس حادثے کو یاد رکھو، عجیب احمق بچے ہیں۔ خود بتاؤ؟
والسلام
زبان دراز
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔