عوام جمہوری اور معاشی غلام (آخری حصہ)

خالد گورایا  جمعرات 15 جنوری 2015
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

پاکستان پر حکومت کرنے والے فوجی جنرل ہوں یا سیاسی پارٹیاں ان تمام نے مل کر اپنے اپنے ذاتی اشرافیہ (ٹرائیکا) کے مفاد پر پاکستان کی سلامتی اور عوام کی خوشحالی کو بھینٹ چڑھا دیا۔ پاکستان تمام تر وسائل موجود ہونے کے باوجود سامراج کا معاشی غلام ملک بنا دیا گیا۔ اگر پاکستان کے مالیاتی اعداد و شمار کو پرکھا جائے تو اشرافیہ (ٹرائیکا) کی تمام تر خارجی اور داخلی پالیسیوں کے منفی نتائج کا سامنا افواج پاکستان اور عوام کو کرنا پڑ رہا ہے اور آج ملک دشمن عناصر پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر پوری قوتیں لگا رہے ہیں۔

پاکستان ناکام ریاست نہ پہلے تھا اور نہ آیندہ ہو گا۔ پاکستان میں بننے والی تمام حکومتیں دراصل ناکام حکومتیں ہیں۔ جنھوں نے اشرافیہ کے مالی مفادات پر عوام کی خوشحالی اور ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ یہ ایک عام سا معاشی اصول کہ جس ملک کے مالیاتی سسٹم میں پیداواری اخراجات کا حجم یا مقدار، غیر پیداواری اخراجات سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس ملک میں مہنگائی کم، بیروزگاری کم، عوام خوشحال، پرسکون ہوتے ہیں۔ اس ملک کو کوئی طاقت توڑ نہیں سکتی ہے۔ کیونکہ نظریاتی ہم آہنگی اور عوامی معاشی رشتوں میں عدم توازن نہیں ہوتا ہے۔

جوں جوں معاشی عدم توازن بڑھتا جاتا توں توں عوام میں بیچینی، ایک دوسرے سے اعتماد ختم ہوتا جاتا ہے بلکہ اشرافیہ (ٹرائیکا) عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کا عمل عوام کے درمیان کی چنگاریاں بھڑکا کر اس ملک دشمن ایجنڈے پر عمل کرتی ہے سابقہ مشرقی پاکستان کا المیہ اسی ٹرائیکی سازش کا نتیجہ تھا۔ سامراجی امریکا نے افغان جنگ میں سابقہ سوویت یونین کے خلاف طالبان کی پرورش کی ہماری لیڈر شپ نے زمینی حقائق کو روند کر سامراج کا کھلم کھلا ساتھ دیا۔ 1980ء تک پاکستان میں چند سو دینی مدرسے تھے۔ 1990ء تک ان کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی۔ 1989ء میں امریکا، پاکستان اور سابقہ سوویت یونین نے معاہدہ کیا اور سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا۔

1991ء میں سابقہ سوویت یونین کی عوامی نائبین کی کانگریس نے سوویت یونین کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد امریکا نے 9/11 کا ڈراما اسٹیج کیا اور جنرل پرویز مشرف کے دور سے پاکستانی ہوائی اڈوں سے افغانستان میں قائم طالبان ملا عمر کی حکومت پر حملے شروع کر دیے۔ طالبان کی حکومت ختم کرنے کے بعد امریکا نے مذہبی شدت پسندی کی سرپرستی شروع کردی اور پوری اسلامی دنیا کو زد پر لینا شروع کر دیا۔ بھارت نے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان پر وار کرنے شروع کر دیے اس طرح پاکستان بننے سے آج تک تمام حکومتوں کی خارجہ پالیسیاں دراصل ملک دشمن پالیسیاں ثابت ہوتی آئی ہیں۔

داخلی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں ملک دشمن عناصر اور امریکی جاری دوست پالیسیوں کے نتیجے میں 16 دسمبر 2014ء کا پشاور میں دردناک واقعہ اسکول کے بچوں کا قتل عام ہو یا 2001ء سے جاری امریکی سرپرستی اور بھارتی و اسرائیلی حمایت سے پاکستان کے چپے چپے پر دہشت گردی ہو۔ اس کی ذمے دار 1951ء سے آج تک بننے والی تمام حکومتیں ہیں۔ جس جمہوریت کا عالمی چیمپئن امریکا اور اس کے پٹھو حکمران ڈھول پیٹ رہے ہیں یہ جمہوریت ٹرائیکی (اشرافیہ) ہے۔ یہ عوام کو خوشحالی کے جھوٹے خواب تو دکھا سکتی ہے لیکن عوام ایسی جمہوریت میں خوشحال نہیں ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اس جمہوریت کے ذریعے عوام سے ووٹ (ٹھپہ) لے کر اشرافیہ مالیاتی اختیارات، انتظامی اختیارات، عدالتی اختیارات، حاصل کر کے پھر عوام کی خوشحالی کی مسلسل نفی کرنا شروع کر دیتی ہے۔

پولیس اور افواج بھی ٹرائیکی آئین کے پابند ہیں۔ آئین کا ہتھیار ٹرائیکا (اشرافیہ) عوام کو معاشی طور پر مفلوج کرنا اور خود (اشرافیہ) کے لیے تمام تر سہولتوں اور زیادہ سے زیادہ قوت خرید میں اضافہ کرنا۔ ملکی وسائل لوٹنا، بیرونی ملکوں میں اکاؤنٹس میں اضافہ کرنا، بیرونی ملکوں میں اثاثے بنانا، سرمایہ کاری کرنا، پاکستان کی 98 فیصد اشرافیہ کے مالیاتی اثاثے بیرونی ملکوں میں ہیں۔ یہ صوبوں کے ممبر ہوں، قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ممبر ہوں، یہ عوام اور ملک کے معاشی مجرم ہیں۔ اگر حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو مجموعی ملکی معیشت کا تجزیہ کرنے سے سچ سامنے آ جائے گا۔ پاکستان بننے سے قبل اور بعد تک سال میں عوام پر ایک دفعہ بجٹ کے اعلان کے دوران ٹیکس لگتا تھا۔ مالی سال 1949-50ء میں مجموعی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 98 لاکھ 70 ہزار تھی۔ اسی سال حکومت عوام سے ٹیکس ریونیو 75 کروڑ 46 لاکھ 32 ہزار روپے وصول کیا تھا۔ ہر شہری سے 19 روپے سال کا ٹیکس لیا گیا تھا۔

مالی سال 2012-13ء میں مجموعی عوام سے 29 کھرب 82 کروڑ 43 لاکھ 60 ہزار روپے ٹیکس لیا گیا، اس دوران آبادی 18 کروڑ 7 لاکھ 10 ہزار تھی۔ عوام سے 125 روپے ٹیکس لیا گیا۔ 1949-50ء میں عوام (شہری) سے 19 روپے ٹیکس لیا گیا تھا۔ یعنی 768 فیصد زیادہ ٹیکس لیا گیا۔ اس کے مقابلے میں کیا سہولتیں دی گئیں وہ سب کے سامنے ہیں۔

1949-50ء میں عوام پر قرض ادائیگی کا بوجھ 3 کروڑ 76 لاکھ 3 ہزار روپے تھا۔ یہ ملکی خزانے کا قرض تھا۔ آبادی کے لحاظ سے ہر شہری نے 1.06 روپیہ ٹیکس میں ادا کیا تھا۔ (گزشتہ 1949-50ء کے اعداد و شمار کتاب Hand Book of Statistics on Pakistan Economy 2005 سے لیے گئے ہیں) مالی سال 2012-13ء میں عوام سے غیر ملکی اور ملکی قرض ادائیگی کے لیے مجموعی 12 کھرب 23 ارب 67 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔ ملکی آبادی 18 کروڑ 7 لاکھ 10 ہزار تھی۔ ہر شہری سے حکومت نے 6 ہزار 7 سو 72 روپے لیے۔ جو مالی سال 1949-50ء کی نسبت 6 لاکھ 38 ہزار 7 سو 17 فیصد زیادہ تھا۔

مالی سال 1949-50ء میں امپورٹ ایک ارب 45 کروڑ 91 لاکھ روپے تھی۔ مالی سال 2012-13ء میں امپورٹ 43 کھرب 49 ارب 88 کروڑ روپے (44 ارب 95 کروڑ ڈالر) کی گئی۔ امپورٹ میں اسی دوران 2 لاکھ 98 ہزار21 فیصد اضافہ ہوا۔ مالی سال 1949-50ء میں (3 اعشاریہ تین سو تینتیس) 3.333 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ 23 دسمبر 2014ء کو 100.544 روپے کا ڈالر تھا۔ روپے کی قیمت میں کمی 2 ہزار9 سو 17 فیصد کر دی گئی۔ اسی نسبت سے پاکستان کے لیے غیر ملکی مارکیٹوں سے آنے والی ہر چیز کی قیمت ہمیں 1949-50ء کی نسبت 2917 فیصد زیادہ ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی کاغذی جعلی ڈالر کے بدلے روپے کی قیمت میں کمی کرنے والے حکمرانوں کے مفادات بیرونی ملکوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ عوام کو جمہوریت کو مقدس گائے بنا کر عوام کو جمہوریت کی قید میں جکڑ کر عوام کو معاشی غلام بنانے کا سلسلہ ہے۔

عوام پر پرت در پرت گلی سے محلے سے محلوں اور پورے شہروں پر ٹرائیکا اور اس کے دلال عوام کو جمہوری غلام اور معاشی غلام بنائے ہوئے ہیں۔ جمہوریت جو ٹرائیکا کے لیے مقدس ہے کیونکہ اس کے ذریعے اشرافیہ (ٹرائیکا) مالیاتی اختیارات حاصل کر لیتی ہے اور پھر عوام کی قوت خرید کر خوب جی بھر کر لوٹتی ہے۔ عوام جوں جوں غربت کے کنوئیں میں گرتے جاتے ہیں توں توں ٹرائیکا (اشرافیہ) دولت مند ہوتی جاتی ہے۔ کیا آئین اور جمہوریت کے دعویدار حزب اختلاف کے لیڈر اور حکمران بتائیں گے کہ معیشت کی تباہی کے ذمے دار یہ خود ہیں یا عوام؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔