ضیاء محی الدین..... اپنے یا بیگانے (آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  پير 19 جنوری 2015

ضیاء محی الدین نے ایک دلچسپ بات کہی ہے کہ میں سوتے ہوئے خوب سے خوب تر لکھتا ہوں۔ ٰI write best in my sleep ۔ برٹرینڈرسل کی طرح وہ بھی اختصار brevity کو تحریر کا حسن کہتے ہیں، اب اس سے بھی زیادہ دلچسپ وہ بحث یا سائنسی تحقیق ہے کہ کون سا رائیٹر کب بہتر لکھتا ہے اور اس پر ذہنی ، تخلیقی اور جمالیاتی وجد یا سکون کی کیفیت دن یا رات کے کس حصے میں طاری ہوتی ہے۔

دنیا کے چند ممتاز ادیبوں پر ریسرچ کے دوران یہ حقیقت بھی سوال بن گئی کہ شاور لیتے ہوئے عظیم خیالات کیوں ابھرتے ہیں؟ خیر چھوڑیئے ۔ضیاء صاحب کے کچھ انگریزی کالموں سے اقتباسات پر نظر ڈالتے ہیں۔ دیکھئے ایک باکمال اداکار ، صدا کار ، ہدایتکار اور آرٹ اکیڈمی کے سربراہ کا اسلوب اور انداز نظر کیا ہے۔

لکھتے ہیں، ’’ کچھ سال قبل کراچی کے کوچۂ ثقافت میں داخل ہوا تو ایک مجسمہ کا بالائی حصہ کھرچ دیا گیا تھا، جب مجسمہ ساز کو میں نے اس چیز سے آگا ہ کیا تو وہ فلسفہ بگھارنے لگے، کچھ بھی بے مزہ نہ ہوئے بلکہ فرمانے لگے لوگوں نے کچھ تو محسوس کیا۔feeling something is better than nothing. ۔ جب میں شاہراہوں پر نصب شدہ بل بورڈز پر عورتوں کے کھرچے یا دانستہ بگاڑے ہوئے چہرے دیکھتا ہوں تو اسی بے لگام آزادی پر پریشان ہوجاتا ہوں، کہ انتہا پسندوں کو ملک میں پوسٹر پھاڑنے کی کیسی آزادی حاصل ہے، کیونکہ وہ کچھ نہ کچھ محسوس کرتے ہیں۔ گویا feel too much والے عناصر ہی پتھروں پر منقش تصویروں کی شکل بگاڑ لیتے ہیں۔‘‘

ایک اور جگہ لکھتے ہیں  ’’ میں چین کے دورے پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مائوزے تنگ دیوتا بنے ہوئے ہیں، اور چو این لائی ان کے زمین پر نائب۔ مجھے چین کے سفر کے دوران گرم پانی ہی پینے کو ملا، کیونکہ مائو کا کہنا تھا کہ صحت مند رہنے کیلیے گرم پانی ضروری ہے۔‘‘ بھارتی ذہنیت اور برہمن سماج کے فلسفہ پر ان کی مشاہداتی گفتگو گائیڈ ویشل ٹنڈن کے ذریعے سنئے، لکھتے ہیں، دلت برادری کی نمایندہ اترپردیش کی وزیراعلیٰ ’’ مایاوتی نے گزرتے ہوئے راستوں میں لگے ہوئے اپنے دراز قد روحانی مرشد اورگرو کا بڑا مجسمہ دیکھا تو اسے چھوٹا کرنے کی ہدایت کی۔

اس کے پاس 77 ہزار روپے کا لوئی ویٹن ہینڈ بیگ تھا تاکہ اس کو دیکھ کر سارے پنڈت جلتے رہیں‘‘ ضیاء کہتے ہیں ’’برہمن ذات پر اپنے گائیڈ کی زبان سے جو کچھ میں نے سنا وہ چشم کشا تھا۔‘‘ وہ مجھے کہنے لگا ’’ہندوازم میں یہ حیران کن خاصیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ سودے بازی میں یقین رکھتی ہے، عہد قدیم سے یہ روایت چلی آرہی ہے، چاہے مظاہر پرستی ہو یا وحدانیت، مادیت پرستی ہو یا روحانیت ، جمہوریت ہو یا اشرافیہ ، حیات بعد الموت کا اثبات ہو یا نفی ، برہمن ذات صرف طاقت کو سب کچھ سمجھتی ہے۔‘‘

پسندیدہ کتاب کے موضوع پر رقمطراز ہیں کہ ’’ آج کے ناول نگار جو ادبی دنیا پر چھائے ہوئے ہیں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں یا اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ کہانی زندگی کی تفہیم کا حصہ ہوتی ہے، وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن کے ذریعے قاری کو حصار میں لیا جاسکتا ہے۔ ان کے خیال میں اس کام میں صناعی جھلکتی ہے ۔ کوئی بھی ناول اس میتھڈ سے الگ ہو تو اسے فرسودہ و بے لطف Prosaicیا Passeاترا ہوا حسن اور ڈھلتی جوانی کہتے ہیں۔‘‘ ایک کالم میں واضح کرتے ہیں کہ’’ ایک وجہ جو میں صحافیوں ، اخبارات یا ٹی وی پر انٹرویو دینے سے کتراتا ہوں یہ ہے کہ وہ مجھ سے ہمیشہ احمقانہinane سوال کرتے ہیں، مثلاً آپ کی پسندیدہ کتاب کون سی ہے؟ کسی کتاب کی پسندیدگی کا آدمی کس طرح بتائے ، یہ کیسے ممکن ہے۔ یا اسی حوالے سے پسندیدہ فلم کے بارے میں ۔ آپ اپنی پسندیدہ ڈش نامی نیٹ کرسکتے ہیں جو قیمہ بھرے پراٹھے اور ماش کی دال ہوسکتی ہے۔

اسی پسند سے آپ کسی کو اپنی خواہش بتا سکتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک آپشن ہے، لہٰذا چپس اور بریانی کی ضرورت نہیں، لیکن جب آپ با آواز بلند یہ کہتے ہیں کہ ’’برادرز کارمازوف‘‘ میری پسندیدہ کتاب ہے تو آپ در اصل کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو نصف درجن کتابیں گننے کو دی جائیں تو آپ صرف برادرز کارمازوف ہی کو پڑھیں گے۔ مجھے ان قارئین پر رحم آتا ہے جو نیٹ پر کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں اندازہ نہیں کہ کتابیں نوع انسانی کی طرف سے انسانیت کا عہد نامہ ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ٹائپ کے حروف ، بائنڈنگ، اور اچھے کاغذ کا معیار کس کو کہتے ہیں۔‘‘ اسی ضمن میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’میری آخری کتاب جو میں نے ختم کی وہ ایمبروس پیئرس کی ’’دی ڈیولز ڈکشنری‘‘ تھی۔

اب کلاسیکیت پر دیکھئے ضیاء محی الدین اپنے تفصیلی فکر انگیز کالم میں کیا لکھتے ہیں،’’ مجھے عام طور پرکلاسیک پسند کہا جاتا ہے۔ بلکہ الزام تھوپا جاتا ہے۔میں برا نہیں مانتا، کیونکہ مجھے احساس ہے کہ اس کا اثر یہ لیا جاتا ہوگا کہ میں ذوق کے اعتبار سے قدامت پسند ہوں۔ جدید مساعی اور اختراعات سے قطعی لاتعلق ہوں، مجھ سے کمپیوٹر ایج کی حیران کن چیزیں بھی اوجھل ہیں، میری نگاہیں ان سے مانوس نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے اطراف پھیلا ہوا یہی وہ دانش مخالف کلچر ہے جس میں کلاسیکس Classicsکو ازکار رفتہ سمجھا جاتا ہے۔

جسے دقیانوسی لوگ fuddy-duddies ہی پسند کرتے ہونگے۔ ماضی کی ہر شے کو کلاسیک کہنے کی ضرورت نہیں، کلاسیک اور کلاسیک ازم کی تعریف یہ ہے کہ ایسی چیزیں جن کی شہرت اور معیار مسلمہ ہو، جو بے انتہا ضروری ہوں، میرا استدلال یہ ہے کہ ماضی کی تخلیقات چاہے مجسمہ سازی ، مصوری، تعمیرات، ڈرامہ اور شاعری ہو ، اگر وہ انسانی جذبات و احساسات کی گہرائیوں کو متحرک کرے کلاسیک ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ پرانے دور سے ہی متعلق ہوں ۔ اس لیے میری نگاہ میں پارتھیونان ، سانچھی کے آثار قدیمہ، مائیکل اینجلو، شیکسپیئر، لوپ ڈی ویگاس، غالب ،اور گوئٹے کی شاعری اور نثر سب کلاسیک ہیں۔ ماسوائے اس ماحول کے جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں کلاسیک یا کلاسیک ازم کا اطلاق مصوری ، موسیقی ، ناول اور ڈرامہ پر عمومی طور پر قبولیت اور تحسین کے معنی میں ہوتا ہے ۔ ضیاء نے جاپان کے کازوایشی گورو اور بن ہکری کو صف اول کا ناولسٹ کہا ہے۔

ملین میں چھپنے والے سڈنی شیلڈن کو اچھا اور سموتھ اسٹوری ٹیلر قرار دیا ،اس سے زیادہ نہیں۔ تاہم وہ لکھتے ہیں کہ ’’پلیز مجھے غلط نہ سمجھیں ، مجھےLustrous یعنی شاندار دلفریب اور عقلی Perceptive نثر پسند ہے۔ اس میں عظیم ترین اثاثہ کولمبین ناولسٹ گابریئل گارشیا مارکویز بھی ہے۔ وہ اپنی کہانی کی ڈور اور لڑی میں سے باہر نہیں نکلتا، وہ تخیل، اختراع ، مزاح اور لطافت کو واقعات میں بڑے کمال سے سموتا ہے۔ ہاں اگر میرا کوئی دوست مجھ سے میری پسند کے 5 بہترین ڈرامے مانگ لیتا تو میرے لیے دشوار ہوتا کیونکہ ڈرامہ جب تک اسٹیج نہ ہو آدمی اس پر کیا رائے دے سکتا ہے۔

ضیاء محی الدین عظیم ڈرامہ نگار بریخت کے Mother Courage ’’مدر کریج‘‘ اور چیخوف کے The cherry Orchard کو من بھاتا تخلیقات میں شمار کرتے ہیں۔ باب اسمتھ کی ہملیٹس ڈریسر Hamlet’s Dresserاورورجینیا وولف کے شہ پارہ Mrs Dallowayکو ضیاء صاحب کی پسندیدہ ترین کتاب ہونے کا درجہ حاصل ہے۔اس حوالہ سے ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک دروازہ ہے درمیان میں جو کھل نہیں سکتا۔‘‘ کینتھ ٹائنان کی کتاب Profile میں ادباء، اداکار ، ہدایتکار اور موسیقاروں کے بارے میں تحیر خیز مشاہدات ہیں، جب کہ واقعات پر مبنی صاحب تصنیف کے اسلوب کو ضیاء فسوں ساز کہتے ہیں۔

8 نومبر2012 ء کو لاہور میں ضیاء محی الدین کے انگریزی میں لکھے گئے کالموں پر مبنی کتاب ’’گاجر تو گاجر ہے A Carrot is a Carrot‘‘کی نقاب کشائی ہوئی، جو ان کی خوبصورت یادوں اور ان معتبر لوگوں کے بارے میں خیالات سے معمور ہے جنہوں نے بقول ممتاز صحافی اور تجزیہ نگارخالد احمد کے ضیاء کی زندگی کو بامعنی بنایا۔وہ ضیاء کے والد محترم امخدوم محی الدین کو ضیاء کی تشکیل و تعمیر کا منبع کہتے ہیں۔ اس کے بعد ضیاء کی ایک اور کتاب Theatrics بھی جلد منظر عام پر آگئی جس پر آصف فرخی کا بڑا جامع تبصرہ تھا۔ خالد احمد نے ضیاء کو تہذیبب ، شائستگی ، دور دور رہنے اور کم گوئی کا پیکر قراردیا ہے ۔

تاہم ان کا شگفتہ تبصرہ یہ تھا کہ جب 31 دسمبر کو ہمیشہ کی طرح لاہوری ان کو بے تکان سنتے ہیں تو جبلی طور پر ضیاء کو ’’زبان کا جانور یا حیوان ناطق‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے برطانیہ میں ضیاء کی رہنمائی اور دوستی کا حق ادا کیا وہ عظیم اداکار پیٹر یوسٹینوف تھے ۔ کیسا دلکش اور منفرد تبصرہ ان کا تھا کہ نہ دوسرا ضیاء محی الدین اور نہ کوئی پیٹر یوسٹینوف اب کبھی جنم لے گا۔ یہی وہ بات ہے جو آغا ناصر نے ملکی حوالہ سے کہی تھی کہ ہم برس ہا برس میں صرف ایک ضیاء محی الدین پیدا کرسکے۔

افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔