جانوروں اور پرندوں پر ظلم نہ کر

لیاقت راجپر  جمعرات 26 فروری 2015

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور پھر اسے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا اور کہا کہ وہ اللہ کی پیدا کی ہوئی دوسری مخلوق پر رحم اور پیار کریں۔ مگر ہم نے جو سلوک بے زبان جانوروں اور پرندوں کے ساتھ کیا ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں۔

میں بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں کہ انسان اپنا روزگار کمانے کے لیے جانوروں اور پرندوں کو استعمال کرتا آ رہا ہے مگر جس کی محنت سے وہ رزق کماتے ہیں انھیں وہ ان کا حصہ پورا نہیں دیتے بلکہ ان پر ظلم کرتے ہیں۔ خاص طور پر گھوڑا، گدھا، اونٹ اور بیل کو کام میں لایا جاتا ہے، گھوڑے کو ٹانگے میں جوت کر سواریاں اٹھائی جاتی ہیں، گدھا اور اونٹ سامان لانے لیجانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور بیل سامان لادنے کے علاوہ زمین میں ہل چلانے کے بھی کام آتا ہے۔

صبح سویرے جب گھوڑے، گدھے اور اونٹ کے مالک انھیں کام کے لیے لے جاتے ہیں تو انھیں پیٹ بھر کے کھانا جسے ہم چارہ کہتے ہیں نہیں دیتے اور پھر سارا دن رات دیر تک اس سے کام لیتے ہیں۔ ایک تو ان پر اتنا وزن ڈالتے ہیں جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا ہے اور جب وہ چل نہیں سکتا تو اسے ڈنڈے سے مارتے رہتے ہیں۔

گدھا گاڑیوں پر سبزی اور پھل رکھ کر بیچے جاتے ہیں اور ان جانوروں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ انھیں پورا دن کھڑا ہونا پڑتا ہے اور وہ ہانپتے رہتے ہیں اور اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو مالک اسے باگ (Rein) کے ساتھ مارتے ہیں۔ ان کے منہ میں لوہے کی ہٹی ڈال دی جاتی ہے جس سے چمڑے کے پٹے سے کنٹرول کرتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جانوروں کے مالک خود تو ہوٹل سے پانی پیتے ہیں مگر جانوروں کو پیاسا رکھتے ہیں اور ان کے پاس گھاس بھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ جہاں بھی کوئی ہری چیز دیکھتے ہیں تو اس طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں اور مالک کی مار کھاتے ہیں۔

پچھلے وقتوں میں سندھ میں نہ صرف مسافر خانے بلکہ جانوروں کے پینے کے لیے پانی کے حوض اور سائے کے لیے شیلٹر بنائے جاتے تھے اور پرندوں کے لیے چھت پر پانی اور دانہ رکھتے تھے۔ مگر اب تو شہر میں جانوروں کے پانی پینے کے لیے کوئی جگہ نہیں اور جو جگہیں تھیں ان پر قبضہ کر کے بزنس اسپاٹ بنائے گئے ہیں۔

اس وقت جانوروں کے علاج کے لیے باقاعدہ ہر شہر میں چھوٹے اسپتال ہوتے تھے اب تو اس نام کی اگر کوئی جگہ ہے بھی تو وہاں نہ آپ کو ڈاکٹر ملے گا اور نہ ہی دوائیں جس کی وجہ سے سرکاری جانوروں کے ڈاکٹر اپنا کلینک کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں آپ اپنے جانور اور پرندوں کا مہنگا علاج کروا سکتے ہیں۔ یہ منظر صرف آپ کو عیدالاضحی کے موقعے پر زیادہ نمایاں ملے گا اور ہر چورنگی پر پرائیوٹ ڈنگر ڈاکٹر کا کیمپ نظر آئے گا۔

ہم لوگ اتنے ظالم ہیں کہ اپنے شوق اور خوشی کے لیے ریچھ اور کتے کو، مرغوں ، تیتروں اور کتوں کو لڑاتے ہیں اور ان کے زخم اور موت کا تماشا بڑی ہنسی کے ساتھ دیکھ کر انجوائے کرتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب پشاور سے لے کر لاہور اور سندھ کے ایک سے دوسرے شہرے میں جانوروں کو ذبح کے لیے لے کر آتے ہیں اور کیسے ان کو ٹھونس کر بھرتے ہیں ٹرکوں میں جہاں پر وہ کئی دنوں کا سفر کر کے کراچی پہنچتے ہیں۔ ان جانوروں کو پورا سفر کھڑے ہو کر گزارنا پڑتا ہے اور وہیں پر فضلہ بھی نکالتے ہیں۔ مویشیوں کے کھانے کو بہت کم گھاس دی جاتی ہے، چارہ کھاتے وقت انھیں نیچے جھکنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے جو صرف وہی جانتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے لیے رزق کا بندوبست کیا ہے جب آپ مرغی یا بھینس، گائے یا بکری کا گوشت لینے جاتے ہیں تو اس کی غیرضروری چیزوں کو باہر پھینکا جاتا ہے تا کہ وہ بلیاں، کتے، چیل اور کوے وغیرہ کھائیں۔ مگر اب تو ہمیں لالچ اور حرص نے اتنا جکڑ لیا ہے کہ ہم ہر بچی ہوئی چیز کو بھی بیچ کر اس میں سے انسانوں کے لیے دوسری مصنوعات بناتے ہیں اور خدا کی پیدا کی ہوئی اس مخلوق کو بھوکا رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھاتے۔

اس کے علاوہ ہم انڈسٹری سے نکلا ہوا زہر سمندر اور دوسری آبی جھیلوں میں بہا دیتے ہیں جس سے آبی مخلوق مر جاتی ہے جن پر نہ صرف انسان کی غذا منحصر ہے بلکہ جانور اور پرندے بھی رزق حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے جنگلات کاٹ دیے ہیں جو ہمارا سرمایہ ہیں بلکہ کئی پرندوں کے بسنے، پلنے اور کھانے کا ٹھکانا ہے جن کے نہ ہونے سے ہم کئی آلودگی والی بیماریوں سے مقابلہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

کراچی میں صدر کے علاقے ایمپریس مارکیٹ میں جائیں تو آپ کو کئی جانور اور پرندے پنجروں میں قید ملیں گے جو خریدار کو بڑی خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ انھیں ایک جیل سے نکال کر دوسری جیل میں ڈالنے کے لیے آئے ہیں۔ آزاد فضاؤں میں اڑنے والی اور رہنے والی اس مخلوق کو ہم نے غلاموں کی طرح قید کیا ہوا ہے تا کہ ہمارے بچے انھیں دیکھ کر خوش ہوں اور آنے والے مہمان تعریف کریں کہ ہم نے گھر پر چھوٹا Zoo بنایا ہوا ہے۔

ہم خود اور اپنی اولاد کو یہ تربیت نہیں دیتے کہ جانور اور پرندے بھی خدا کی مخلوق ہیں جو ہمارے دوست بھی ہیں اور ہماری زمین کو انھوں نے خوبصورت بنا رکھا ہے اور ان کی وجہ سے ہماری زمین کئی خطرات سے بچی ہوئی ہے۔ اکثر بچے جانوروں اور پرندوں کے بچوں کو گلے میں رسی ڈال کر زور زور سے گھماتے رہتے ہیں اور خاص طور پر بلی کے بچوں کو پانی میں پھینک دیتے ہیں اور پھر انھیں نکال کر اس کی بے بسی کا مزہ لیتے ہیں۔

یورپ، امریکا، فرانس ، برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں اور پرندوں کے لیے کتنی اہمیت ہے۔ ان کے بچاؤ اور علاج کے لیے حکومت نے کتنے سخت قانون بنائے ہیں اور پرائیویٹ این جی اوز مفت کام کر رہی ہیں۔ وہاں پر جانوروں اور پرندوں کی حفاظت کے لیے شیلٹر ہاؤس حکومت اور پرائیویٹ اداروں کی طرف سے بنے ہوئے ہیں۔

جس کے لیے لاکھوں ڈالرز خرچ کیے جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص جانوروں اور پرندوں پر ظلم کرتا ہوا نظر آ گیا تو اسے سزا کے ساتھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس مخلوق کا سالانہ چیک اپ کروانا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ درختوں کو بھی بڑی اہمیت ہے کیونکہ درخت بھی جاندار ہے اور اسے کاٹنے یا اکھاڑنے والے کے لیے بڑی سخت سزا ہے کیونکہ یہ عمل خون کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

اس کالم کے ذریعے میں اپنی حکومت اور لوگوں کو التجا کرتا ہوں کہ خدارا جانوروں اور پرندوں سے پیار کرنا سیکھو اور ان پر رحم کھاؤ، ان کی حفاظت کرو، ان کے ساتھ نہ صرف ہمدردی کرو بلکہ ان کے زخموں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرو۔

اس کام کو بڑھانے میں حکومت نے جو بھی قانون بنائے ہیں اس پر سختی سے عمل کروائیں اور اس مخلوق کے علاج و معالجے کے نظام کو فعال کریں اور لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے حکومت، این جی اوز اور میڈیا پروگرام پیش کریں تا کہ نئی نسل بھی اس سے واقف ہو کہ جانوروں اور پرندوں پر رحم کیا جاتا ہے انھیں ستایا نہیں جاتا ہے۔ وہ ہمارے دوست بھی ہیں اور اس زمین کی خوبصورتی بھی جو ہمارے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اور ہمیں خوراک اور روزگار مہیا کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔