دور دور تک اندھیرا

نسیم انجم  اتوار 1 مارچ 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ سندھ کے وزیر اطلاعات وبلدیات شرجیل میمن کو جھاڑو دے کر صفائی مہم کا آغاز کرنا پڑا۔ انھوں نے اچھا ہی کیا۔ ورنہ تو صوبہ سندھ کے چھوٹے شہر ہوں یا بڑے ، ہر جگہ کا حال یکساں ہے لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس صوبے کے خاکروب کیا چھٹی پر گئے ہوئے ہیں یا انھیں دوسرا کام سونپ دیا گیا ہے؟ کراچی غلاظت کا ڈھیر بن چکا ہے، ہر علاقے، ہر جگہ کچرا، گلیوں اور شاہراہوں پر بکھرا پڑا ہے، کہیں کچرا کنڈی خالی ہیں تو کہیں بھری ہوئیں۔

ان میں تعفن پیدا ہوچکا ہے، ماہ رمضان، عید، بقر عید اور دوسرے تہوار اسی طرح گزر گئے، کہیں صفائی ستھرائی نظر نہ آئی، اب جب کہ خیال آہی گیا ہے اور خبر بھی چھپ چکی ہے تو دیر کیسی۔؟ تین دن گزرنے کے بعد حال ابتر ہی نظر آرہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ملازمین کیوں بھرتی کیے گئے تھے؟ جب ان سے کام نہیں لیا جارہاہے؟

یہ خبر بھی حیرت انگیز اور افسوسناک ہے کہ تعلیم یافتہ افراد کو بحیثیت خاکروب ملازمت دی گئی ہے، ماتحت عدالتوں میں کئی پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ ہری چند جوکہ بی کام کا طالب علم ہے ضلع ویسٹ میں بطور خاکروب اور دینش بی کام کرچکا تھا، ان دونوں نے کلرک اور پیش کار کے لیے اپنی درخواستیں جمع کرائی تھی۔ آسامیاں پر ہونے کے بعد انھیں خاکروب کی ملازمت کے لیے آفر ہوئی تو انھوں نے بطور مجبوری اسے قبول کرلیا۔

یقیناً یہ بات بے حد دکھ کی ہے غریب والدین اپنے بچوں کو ہزاروں مشکلات اٹھانے اور زیادہ سے زیادہ محنت مشقت کرنے کے بعد انھیں تعلیم کے سنہرے زیور سے آراستہ کرتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ایک وقت وہ آئے گا جب ان کی اولاد سر اٹھا کر چلیں گی۔ ان کی ماہانہ آمدنی بھی زیادہ ہوگی اس طرح غربت کے دن ختم ہوجائیں گے۔

گھروں کی دیواروں پر پروان چڑھنے والی افلاس کی خاردار بیلیں خزاں رسیدہ ہوجائیں گی پھر خوشی و خوشحالی کے پھول مہکیں گے، چولہا ہر روز جلے گا، بھوکے بچے، خاندان کے بھوکے افراد شکم سیر ہوں گے، لیکن سب جتن کرنے کے بعد کچھ الٹ سا ہوگیا، وہ سوچتے ہوں گے کہ جب ان کے بچوں کو خاکروب ہی بننا تھا۔ تو پھر تعلیم کا حصول تو فوت ہوگیا۔ کیا فائدہ ہوا، پہلی سے میٹرک تک اور میٹرک سے بی کام تک کی تعلیم کا کس قدر مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔

غربت کا احساس ایک غریب خاندان ھی کرسکتا ہے، دوسرا نہیں حالات کو مد نظر رکھ کر سوچا جائے تو مجبور و غریب نوجوانوں نے خاکروب کی ملازمت کرکے برا نہیں کیا بلکہ اچھا ہی کیا، بے روزگاری سے بہتر ہی ہے، محنت انسان کو عزت عطا کرتی ہے جب کہ چوری، چکاری، ڈاکہ زنی اور دوسرے برے کام انسان کو ذلت و پستی کے غار میں دھکیل دیتے ہیں۔

جہاں وہ سسک سسک کر مرجاتا ہے اور آج کل تو حال یہ ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی، ہزاروں بھتہ خور اور قاتل موت کی وادیوں میں اتر گئے ہیں، رزق حلال کمانا یقینا عبادت ہے، اﷲ رب العزت محنت کا پھل ضرور دیتا ہے، چھوٹے عہدے والے ایک دن اپنی دیانت داری اور فرض شناسی کے باعث اعلیٰ عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

ہمارے ملک کا کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں ہے، ہر جگہ اقربا پروری اور غیر منصفانہ عمل کو فروغ ملا ہے، ہمارے ملک کے حکمرانوں کے عزیز و اقارب خود اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، اسی طرح تمام صوبوں کا حال ہے، ایسے ایسے لوگ اسمبلی تک پہنچ گئے ہیں جو ان عہدوں کے اہل نہیں تھے، وزارت بھی ان لوگوں کے ہاتھ لگی ہے جن کا شمار دانشوروں اور عالموں میں ہرگز نہیں ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے ملک کا حال ابتر ہے، ہر شعبہ زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر ہے، کرکٹ کے میدان میں بھی اقربا پروری اور اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے، ہندوستان سے ورلڈ کپ کے مواقعے پر بار بار ہار جانا ایک قومی المیے سے کم نہیں ہے، بڑے زور شور سے تیاریاں کی جاتی ہیں ایک دھوم مچ جاتی ہے کہ اب میچ شروع ہونے والاہے۔

ہماری ٹیم یقینا اچھی کارکردگی دکھائے گی۔ ماضی کی ہی طرح پاکستان کا نام روشن کرے گی، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے، قوم مایوس الگ ہوتی ہے اور وقت کا زیاں علیحدہ، سب لوگ اپنے اہم کام چھوڑ کر ٹی وی کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور جونہی ’’ہار‘‘ کا شکست خوردہ چہرہ ٹی وی پر نمودار ہوتا ہے تو کرکٹ کے شائقین برا بھلا کہتے ہوئے اٹھ جاتے ہیں اور اس دفعہ تو بہت سے لوگوں نے ٹی وی ہی توڑ ڈالے۔

یہ بات بھی کرکٹ میچ کے عاشقین کے لیے حیران کن ہے کہ ہارنیوالے بالکل پریشان نہیں ہیں وہ تو موجیں کر رہے ہیں، نیٹ پر اپنی نئی نئی تصاویراپ لوڈ کر رہے ہیں۔ ریستورانوں میں من پسند کھانے اور اپنی پسندیدہ جگہوں کی سیر کررہے ہیں، انھیں چلو بھر پانی نصیب نہیں کہ وہ ڈوب مریں یا حقیقت سے پردہ اٹھا دیں۔ جیسا کہ کچھ لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ یہ فکسنگ میچ تھا۔

بھارتی وزیراعظم مودی نے فون بھی کیا تھا، لوگوں نے فون کی خبر سن کر یہی سوچا کہ ہو نہ ہو میچ کی جیت کو ہار میں بدلنے کے لیے ایک ڈیلنگ تھی، اگر ایسا ہے تو سچ سامنے آنا چاہیے اور ایسے بکنے والے کرکٹرزکی ہمیشہ کے لیے چھٹی کردینے میں ہی عافیت ہے۔

رہی سہی کسر چیف سلیکٹر معین خان نے پوری کردی اور وہ کرائسٹ چرچ کے کیسینو میں جا پہنچے۔ قوم، پاکستانی ٹیم کی کارکردگی سے دلبرداشتہ ہے لیکن نہ کرکٹرز کو احساس ہے اور نہ منتظمین کو، بہتر تو یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا جائے جنھیں موقع میسر نہیں آتا ہے، وہ بہت اچھا کھیلتے ہیں لیکن تعلقات، سفارش اور پیسے سے محروم ہیں۔

ہمارے ارباب اختیار کو صلاحیتوں کی قدر کرنی چاہیے، لیکن ظالمانہ اور منافقانہ رویہ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ سالہا سال سے ہے زبان سے کچھ کہتے ہیں اور عمل برعکس ہوتا ہے جو قابل قدر ہیں وہ پتھروں کی طرح مٹی میں رل رہے ہیں اور جو کچھ نہیں جانتے اور جاننے کی خواہش رکھتے ہیں، علم و شعور سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ملک کے استحکام و ترقی کے لیے وہ ہرگز خواہش مند نہیں ہیں۔ اس کی وجہ انھیں وطن سے ہی محبت نہیں ہے ایسے حضرات کو ان کرسیوں پر بٹھا دیا گیا ہے۔

جس کے وہ ہرگز مستحق نہیں تھے۔ جو صاحب اقتدار ہیں ان میں سے اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے جن کے دلوں میں نہ ایمان کا نور ہے اور نہ سچائی کی روشنی۔ اسی لیے اجالے اندھیرے کی تمیزکرنے سے قاصر ہیں، بس پیسے کی ہوس ہے، اقتدار کی بھوک اور شان و شوکت دکھانے، سیر وسپاٹے کرنے کے لیے ہی یہاں تک پہنچے ہیں، ملک کی رعایا پر ایسے ایسے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں کہ جن کا ادا کرنا، خودکشی کو دعوت دینا ہے۔ اس ملک میں پہلے ہی مہنگائی و بے روزگاری ہے، خوف و ہراس، قتل وغارت نے رہا سہا سکون بھی غارت کردیا ہے اور اب آلودگی نے بھی دامن پکڑ لیا ہے ۔

اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ قلب و نظر کی صفائی بھی ضروری ہے اور جب ظاہری صفائی کا خیال آتا ہے تو پتھاروں کو سڑکوں سے ہٹا کر ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کردیا جاتا ہے لیکن چند روز بعد ہی پولیس رشوت کے نتیجے میں دوبارہ اجازت دے دیتی ہے، بلدیہ عظمیٰ کے محکمہ انسداد و تجاوزات کے عملے نے ایک بار پھر وزیر اطلاعات و بلدیات کے کہنے پر پتھارے داروں اور چھابڑی والوں کو اپنی جگہ سے بے دخل کرنے کا حکم دے دیا ہے، معلوم نہیں ان کا یہ حکم کہاں تک پہنچا ہے؟ ابھی تک بے شمار جگہیں ایسی ہیں جہاں کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں ، سڑکیں اور گلیاں غلاظت سے بھر چکی ہیں، سوائے چند ہی علاقے ایسے ہیں جو صاف نظر آتے ہیں۔ ورنہ تو ؟

ایک طرف جعلی بھرتیاں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف شرجیل میمن گھوسٹ ملازموں کے نکالنے کی بات کررہے ہیں، یہ معاملات سالہا سال سے چل رہے ہیں اور جوں کے توں ہیں نہ گھوسٹ ملازمین نکالے جاتے ہیں اور نہ ہی محکمہ تعلیم جیسے ادارے میں شفاف اصولوں کو اپنایاجاتا ہے، اسی بد دیانتی نے دور دور تک دبیز اندھیرے کی چادر تان دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔