صرف 2 سال میں انسانی سر کی دوسرے جسم میں پیوندکاری ممکن
چین کی ہربن یونیورسٹی میں کامیابی سےچوہےکا سرتبدیل کیا گیاجس کوسامنے رکھتےہوئےانسانی سرکی پیوندکاری میں پیشرفت ہوسکےگی
تجربے میں کامیابی مل جاتی ہے تو پھر مریض ایک سال میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے،سرجن سرگیو کیناورو فائل:فوٹو
QUETTA:
اگر کسی شخص کا سر بالکل ٹھیک ہو لیکن جسم ختم ہوچکا ہو اوردوسری جانب ایک صحت مند جسم کا عطیہ موجود ہو تو کیا اس کا سر تندرست جسم پر منتقل کیا جاسکتا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے سرجن سرگیو کیناورو کہتے ہیں کہ اگلے دو برس میں یہ ممکن ہوگا۔
اگرچہ آج اس دعوے پر سائنس فکشن کا گمان ہوتا ہے لیکن ذرا غور کیجئے کہ آج سے 10 سال پہلے ماہرین نے چہرہ عطیہ کرنے پر کام شروع کیا تھا جس کا مذاق اُڑایا گیا لیکن صرف 10 برس میں ایک مردہ شخص کا مکمل چہرہ ایک ایسےشخص میں منتقل کیا گیا جو حادثے کا شکار ہوا تھا اور اس کا چہرہ بری طرح مسخ ہوچکا تھا۔
انسانی سر کی دوسرے جسم میں پیوندکاری کی کہانی بہت پُرانی ہے، یہ 1950 کی بات ہے کہ روسی ماہر ولادمیر دیمکوف نے ایک کتے کا سر دوسرے کتے کے جسم تک کامیابی سے منتقل کیا تھا اور اس طرح دوسروں والا کتا تیار کیا گیا، پھر 1970 کے عشرے میں ڈاکٹر رابرٹ وائٹ نے ایک بندر کا سر دوسرے بندر کے بدن پر پیوند کیا تھا، اگرچہ ان دونوں ماہرین کا کام ٹرانسپلانٹ عمل کے لیے بہت اہم تھا لیکن تجرباتی جانور ذیادہ عرصے زندہ نہ رہ سکے۔
اٹلی میں ٹیورن ایڈوانسڈ نیوروموڈیولیشن گروپ کے سربراہ نے 2013 میں انسانی سر کی منتقلی کا بہت سنجیدگی سے خیال پیش کیا تھا، انہیں یقین ہے کہ وہ دیمکوف اور وائٹ کو جو مشکلات کا سامنا تھا انہوں نے اس کا حل نکال لیا ہے، ڈاکٹر وائٹ کے بندروں پر تجربے نے اس میدان میں غلطیوں کی نشاندہی کی ہے، بندروں کے تجربات میں دماغ کا اہم حصہ حرام مغز دوسرے بدن سے جوڑا نہیں گیا تھا اور یوں بندر فالج ذدہ ہوگیا اور اسے سانس لینے کے لیے مشینوں کا سہارا لینا پڑا تھا۔ اس کے بعد ہیڈ ٹرانسپلانٹ میں ذیادہ کام نہیں ہوا لیکن ڈاکٹر سرگیو کے مطابق اب سرجری کے متعلق ہماری معلومات بہت بڑھ چکی ہے اور ہم انسانی بدن کو بہت اچھی طرح جان چکے ہیں، ان کے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ تکنیکی لحاظ سے یہ سب ممکن ہے۔
سرگیو کا اپنی تحقیق میں کہنا ہے کہ سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ منتقل کئے جانے والے سر اور دھڑ دونوں کو ہی انتہائی سرد رکھا جائے تاکہ سیلز (خلیوں) کے مرنے کی شرح کو روکا جاسکے، اس کے بعد دونوں کی گردن کاٹنے کے بعد اہم رگوں کو ٹیوب سے جوڑا جائے اور آخر میں انتہائی احتیاط سے حرام مغز کو کاٹا جائے جب کہ سب سے اہم مرحلہ اسپائنل کورڈ کو اعصاب سے جوڑنا ہے، اس میں کئی گھنٹوں تک ان رگوں کو پولی ایتھائلین گلائکول سے دھویا جائے جس سے خلیوں میں موجود چکنائی کم ہوجاتی ہے۔
دوسرے مرحلے میں پٹھوں (مسلز) اورجلد کو خون کی نالیوں سے جوڑا جائے گا اور مریض کو کئی ہفتوں تک کوما میں رکھنا ضروری ہوگا تاکہ اس کی حرکت سے یہ عمل متاثر نہ ہوسکے، خصوصاً کمر کے اعصاب کو الیکٹروڈز سے جوڑنا ہوگا تاکہ اعصاب کے نئے کنیکشنز کو مضبوط اور طاقتور بنایا جاسکے، اگر انسانی جسم اس پر ردِعمل کا اظہار کرے تو اس کے لیے امیونوسپریشن ادویات ضروری ہوجاتی ہیں۔
سرگیوکے مطابق اگر کامیابی مل جاتی ہے تو مریض فزیوتھراپی اور دیگر مدد سے ایک سال میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے، لیکن اس طریقے پر مزید تحقیق اور ٹیسٹ ضروری ہیں، سرگیو اب ایسے مریضوں پر تجربہ کرنا چاہتے ہیں جو دماغی طور پر مرچکے ہیں، چین کی ہربن یونیورسٹی میں ژیاؤپنگ رین نے کامیابی سے ایک چوہے کا سرتبدیل کیا گیا ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی سر کی پیوندکاری میں مزید پیش رفت ہوسکے گی۔
اس عمل پر تنقید کرنے والے افراد ایک جانب تو طبی اخلاقیات کے پہلوؤں کو زیرِبحث لارہے ہیں کیونکہ اس میں انسانی سر اور دھڑ کی بات ہورہی ہے، دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ آنکھوں اور گردوں کی منتقلی کے مقابلے میں سرکی منتقلی بہت پیجیدہ عمل ہے اور ہم اب تک دماغی اعصاب کو بھی درست انداز میں نہیں سمجھ سکے ہیں، اس کا جواب دیتے ہوئے سرگیو کہتے ہیں کہ اگرپوری انسانیت اس طریقے کو ناپسند کرتی ہے تو میں اسے ترک کردوں گا لیکن اگر یورپ اور امریکا مں لوگ اس کے مخالف ہوں اور دنیا کے دیگر علاقے میں لوگ ایسا چاہتے ہوں تو پھر تحقیق جاری رکھنی چاہیے اور وہ اس کی کامیابی کے لیے بہت پرامید ہیں۔
اگر کسی شخص کا سر بالکل ٹھیک ہو لیکن جسم ختم ہوچکا ہو اوردوسری جانب ایک صحت مند جسم کا عطیہ موجود ہو تو کیا اس کا سر تندرست جسم پر منتقل کیا جاسکتا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے سرجن سرگیو کیناورو کہتے ہیں کہ اگلے دو برس میں یہ ممکن ہوگا۔
اگرچہ آج اس دعوے پر سائنس فکشن کا گمان ہوتا ہے لیکن ذرا غور کیجئے کہ آج سے 10 سال پہلے ماہرین نے چہرہ عطیہ کرنے پر کام شروع کیا تھا جس کا مذاق اُڑایا گیا لیکن صرف 10 برس میں ایک مردہ شخص کا مکمل چہرہ ایک ایسےشخص میں منتقل کیا گیا جو حادثے کا شکار ہوا تھا اور اس کا چہرہ بری طرح مسخ ہوچکا تھا۔
انسانی سر کی دوسرے جسم میں پیوندکاری کی کہانی بہت پُرانی ہے، یہ 1950 کی بات ہے کہ روسی ماہر ولادمیر دیمکوف نے ایک کتے کا سر دوسرے کتے کے جسم تک کامیابی سے منتقل کیا تھا اور اس طرح دوسروں والا کتا تیار کیا گیا، پھر 1970 کے عشرے میں ڈاکٹر رابرٹ وائٹ نے ایک بندر کا سر دوسرے بندر کے بدن پر پیوند کیا تھا، اگرچہ ان دونوں ماہرین کا کام ٹرانسپلانٹ عمل کے لیے بہت اہم تھا لیکن تجرباتی جانور ذیادہ عرصے زندہ نہ رہ سکے۔
اٹلی میں ٹیورن ایڈوانسڈ نیوروموڈیولیشن گروپ کے سربراہ نے 2013 میں انسانی سر کی منتقلی کا بہت سنجیدگی سے خیال پیش کیا تھا، انہیں یقین ہے کہ وہ دیمکوف اور وائٹ کو جو مشکلات کا سامنا تھا انہوں نے اس کا حل نکال لیا ہے، ڈاکٹر وائٹ کے بندروں پر تجربے نے اس میدان میں غلطیوں کی نشاندہی کی ہے، بندروں کے تجربات میں دماغ کا اہم حصہ حرام مغز دوسرے بدن سے جوڑا نہیں گیا تھا اور یوں بندر فالج ذدہ ہوگیا اور اسے سانس لینے کے لیے مشینوں کا سہارا لینا پڑا تھا۔ اس کے بعد ہیڈ ٹرانسپلانٹ میں ذیادہ کام نہیں ہوا لیکن ڈاکٹر سرگیو کے مطابق اب سرجری کے متعلق ہماری معلومات بہت بڑھ چکی ہے اور ہم انسانی بدن کو بہت اچھی طرح جان چکے ہیں، ان کے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ تکنیکی لحاظ سے یہ سب ممکن ہے۔
سرگیو کا اپنی تحقیق میں کہنا ہے کہ سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ منتقل کئے جانے والے سر اور دھڑ دونوں کو ہی انتہائی سرد رکھا جائے تاکہ سیلز (خلیوں) کے مرنے کی شرح کو روکا جاسکے، اس کے بعد دونوں کی گردن کاٹنے کے بعد اہم رگوں کو ٹیوب سے جوڑا جائے اور آخر میں انتہائی احتیاط سے حرام مغز کو کاٹا جائے جب کہ سب سے اہم مرحلہ اسپائنل کورڈ کو اعصاب سے جوڑنا ہے، اس میں کئی گھنٹوں تک ان رگوں کو پولی ایتھائلین گلائکول سے دھویا جائے جس سے خلیوں میں موجود چکنائی کم ہوجاتی ہے۔
دوسرے مرحلے میں پٹھوں (مسلز) اورجلد کو خون کی نالیوں سے جوڑا جائے گا اور مریض کو کئی ہفتوں تک کوما میں رکھنا ضروری ہوگا تاکہ اس کی حرکت سے یہ عمل متاثر نہ ہوسکے، خصوصاً کمر کے اعصاب کو الیکٹروڈز سے جوڑنا ہوگا تاکہ اعصاب کے نئے کنیکشنز کو مضبوط اور طاقتور بنایا جاسکے، اگر انسانی جسم اس پر ردِعمل کا اظہار کرے تو اس کے لیے امیونوسپریشن ادویات ضروری ہوجاتی ہیں۔
سرگیوکے مطابق اگر کامیابی مل جاتی ہے تو مریض فزیوتھراپی اور دیگر مدد سے ایک سال میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے، لیکن اس طریقے پر مزید تحقیق اور ٹیسٹ ضروری ہیں، سرگیو اب ایسے مریضوں پر تجربہ کرنا چاہتے ہیں جو دماغی طور پر مرچکے ہیں، چین کی ہربن یونیورسٹی میں ژیاؤپنگ رین نے کامیابی سے ایک چوہے کا سرتبدیل کیا گیا ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی سر کی پیوندکاری میں مزید پیش رفت ہوسکے گی۔
اس عمل پر تنقید کرنے والے افراد ایک جانب تو طبی اخلاقیات کے پہلوؤں کو زیرِبحث لارہے ہیں کیونکہ اس میں انسانی سر اور دھڑ کی بات ہورہی ہے، دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ آنکھوں اور گردوں کی منتقلی کے مقابلے میں سرکی منتقلی بہت پیجیدہ عمل ہے اور ہم اب تک دماغی اعصاب کو بھی درست انداز میں نہیں سمجھ سکے ہیں، اس کا جواب دیتے ہوئے سرگیو کہتے ہیں کہ اگرپوری انسانیت اس طریقے کو ناپسند کرتی ہے تو میں اسے ترک کردوں گا لیکن اگر یورپ اور امریکا مں لوگ اس کے مخالف ہوں اور دنیا کے دیگر علاقے میں لوگ ایسا چاہتے ہوں تو پھر تحقیق جاری رکھنی چاہیے اور وہ اس کی کامیابی کے لیے بہت پرامید ہیں۔