برطانوی طلبا ضروریات پوری کرنے کے لیے ’’سیکس ورکر‘‘ بننے لگے
ہر 20 میں سے ایک طالب علم نے سیکس ورکر کے کام کو بطور پیشہ اختیار کرلیا ہے، سروے
سیکس ورکر بن جانے والوں میں لڑکیوں سے زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے،سروے، فوٹو فائل
بظاہرسائنس کی بدولت جدید طرز زندگی کے حامل یورپ کے لوگ بہت خوش حال اور پرسکون نظر آتے ہیں لیکن کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اونچی دکان پھیکا پکوان کیوں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ غربت و افلاس ان معاشروں میں بھی اپنے ڈیرے جما رہی ہیں اوراب زندگی کے شب و روز ان کے لیے کتنے اذیت ناک ہیں اس کا اندازہ اس سروے رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں ہر 20 میں سے ایک طالب علم اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے سیکس ورکر کے طور پر کام کرنے پرمجبور ہے۔
برطانوی یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے سروے نے حکومت کی آنکھیں کھول دی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہاں طلبا اپنی ضروریات اور تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے سیکس تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہیں بلکہ ہر 20 میں سے ایک طالب علم نے سیکس ورکر کے کام کو بطور پیشہ اختیار کرلیا ہے۔
سروے کے مطابق سیکس ورکر بن جانے والوں میں لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کی تعداد ہے جب کہ سروے کے سربراہ ٹریسی سیگار کا کہنا ہے سروے کے دوران اس بات کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں کہ طلبا سیکس انڈسٹری کے ورکر کے طور پر کام کر رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر طلبا معاشرتی خوف کے باعث اپنی اس سرگرمی کو انتہائی رازداری سے انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سروے کے دوران 6750 طالب علموں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا گیا جس سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ 5 فیصد طالب علم اور3.5 فیصد طالبات سیکس ورکر کے طور پر کام کرتے ہیں جب کہ 22 فیصد طلبا اس پیشے کو اپنانے پر بھی غور کررہے ہیں۔
ٹریسی سیگارکا کہنا تھا کہ جو طلبا اس شعبے سے وابستہ ہوجاتے ہیں ان میں سے اکثریت اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی اس لیے ان معلومات کے بعد یونیورسٹیز کو چاہئے کہ وہ طلبا کو ایسی سہولیات مہیا کریں کہ وہ اس طرح کے کاموں پر مجبور نہ ہوں۔
دوسری جانب سیکس ورکر کے طور پر کام کرنے والوں میں سے دوتہائی کا کہنا ہے کہ اس شعبے کو اختیار کرنے کا مقصد خاص طرز زندگی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے فنڈز جمع کرنا ہے اور 56 فیصد نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے یہ کام کرنے پر مجبور ہیں جب کہ 40 فیصد نے کہا کہ اس کا مقصد اپنی تعلیمی کورس کے اختتام پر یونیورسٹی کے بقایا جات ادا کرنا ہے۔
برطانوی اخبار گارجین کے مطابق ان میں سے ایک چوتھائی طلبا کا کہنا ہے کہ اب ان کا اس شعبے سے نکلنا بہت مشکل ہے جب کہ ایک چوتھائی نے اس پیشے کے باعث خود کوغیر محفوظ بھی قرار دیا۔
برطانوی یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے سروے نے حکومت کی آنکھیں کھول دی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہاں طلبا اپنی ضروریات اور تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے سیکس تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہیں بلکہ ہر 20 میں سے ایک طالب علم نے سیکس ورکر کے کام کو بطور پیشہ اختیار کرلیا ہے۔
سروے کے مطابق سیکس ورکر بن جانے والوں میں لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کی تعداد ہے جب کہ سروے کے سربراہ ٹریسی سیگار کا کہنا ہے سروے کے دوران اس بات کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں کہ طلبا سیکس انڈسٹری کے ورکر کے طور پر کام کر رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر طلبا معاشرتی خوف کے باعث اپنی اس سرگرمی کو انتہائی رازداری سے انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سروے کے دوران 6750 طالب علموں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا گیا جس سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ 5 فیصد طالب علم اور3.5 فیصد طالبات سیکس ورکر کے طور پر کام کرتے ہیں جب کہ 22 فیصد طلبا اس پیشے کو اپنانے پر بھی غور کررہے ہیں۔
ٹریسی سیگارکا کہنا تھا کہ جو طلبا اس شعبے سے وابستہ ہوجاتے ہیں ان میں سے اکثریت اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی اس لیے ان معلومات کے بعد یونیورسٹیز کو چاہئے کہ وہ طلبا کو ایسی سہولیات مہیا کریں کہ وہ اس طرح کے کاموں پر مجبور نہ ہوں۔
دوسری جانب سیکس ورکر کے طور پر کام کرنے والوں میں سے دوتہائی کا کہنا ہے کہ اس شعبے کو اختیار کرنے کا مقصد خاص طرز زندگی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے فنڈز جمع کرنا ہے اور 56 فیصد نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے یہ کام کرنے پر مجبور ہیں جب کہ 40 فیصد نے کہا کہ اس کا مقصد اپنی تعلیمی کورس کے اختتام پر یونیورسٹی کے بقایا جات ادا کرنا ہے۔
برطانوی اخبار گارجین کے مطابق ان میں سے ایک چوتھائی طلبا کا کہنا ہے کہ اب ان کا اس شعبے سے نکلنا بہت مشکل ہے جب کہ ایک چوتھائی نے اس پیشے کے باعث خود کوغیر محفوظ بھی قرار دیا۔