ٹرین ایک گھنٹے تک بغیر ڈرائیورکے چلتی رہی

غ۔ع  منگل 21 اپريل 2015
واقعے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے،فوٹو : فائل

واقعے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے،فوٹو : فائل

بنگلادیش میں مسافروں سے بھری ٹرین ضلع راجبری کے اسٹیشن پر کھڑی تھی۔ صبح کے آٹھ بجنے والے تھے۔ ٹھیک آٹھ بجے ٹرین اگلے شہر فرید پور کے لیے روانہ ہوجاتی۔ اسی لیے مسافر جلدی جلدی چڑھ اور اُتررہے تھے۔

اچانک فریدپور ایکسپریس نے ’ اُلٹے قدموں‘ چلنا شروع کردیا۔ اندر بیٹھے اور پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے مسافر سمجھے کہ ڈرائیور کسی وجہ سے ٹرین کو پیچھے لے جارہا ہے اور چند ہی لمحوں کے بعد وہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوجائے گی۔

مگر جب ٹرین کی پس قدمی جاری رہی تو مسافروں کا ماتھا ٹھنکا، پھر جب گاڑی پلیٹ فارم سے بھی پیچھے نکلی تو مسافروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ٹرین کی رفتار میں اضافے کے ساتھ ساتھ مسافر اب چیخ پُکار کرنے لگے تھے۔ سب سے اگلے ڈبے میں سوار مسافروں نے چیخ چیخ کر ڈرائیور کو متوجہ کرنا چاہا مگر۔۔۔۔ ڈرائیور ہوتا تو سنتا۔۔۔۔۔ ڈرائیور کی سیٹ خالی تھی اور انجن ازخود گاڑی کو پیچھے لیے جارہا تھا۔

پچھلے ڈبوں میں ٹکٹ چیکر موجود تھا۔ وہ خود بھی حیران تھا کہ ٹرین مسلسل پیچھے کی جانب کیوں گامزن ہے۔ اس نے فوراً ٹرین کے ڈرائیور محمد علی کو موبائل سے فون کیا۔ محمد علی کا جواب سُن کر اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ وہ راجبری کے اسٹیشن پر ہی موجود تھا۔ اور تو اور اس کا اسسٹنٹ فیصل بھی وہیں تھا۔ محمد علی نے ٹکٹ چیکر، انور سے کہا کہ وہ کسی طرح ٹرین کو روکنے کی کوشش کرے۔ اس دوران ٹرین کی رفتار بھی بڑھ کر تیس کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی تھی۔

اس صورت حال پر انور کے بھی ہاتھ پاؤں پُھول گئے تھے۔ ٹرین روکنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ایئر بریک ہوز کھول دیے جاتے جس کے ذریعے بوگیاں ایک دوسرے سے جُڑی ہوتی ہیں۔

انور نے اپنے حواس مجتمع کیے اور چند باہمت مسافروں کی مدد سے ایئر بریک ہوز کھولنے میں کام یاب ہوگیا۔ ایئربریک ہوز کُھلتے ہی بریک آن ہوگئے اور ٹرین بہ تدریج رُک گئی۔ اس وقت نو بچنے میں پانچ منٹ باقی رہ گئے تھے۔ یعنی ٹرین ایک گھنٹے تک پیچھے کی طرف چلتی رہی تھی۔

اس دوران دو اسٹیشن گزر گئے تھے اور ٹرین 27 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر آئی تھی۔ حُسن اتفاق سے ٹرین تیسرے اسٹیشن، پنگشا کے پلیٹ فارم پر جاکر رُکی تھی۔

بعدازاں یہ عُقدہ کُھلا کے ٹرین کی روانگی سے چند منٹ پہلے ڈرائیور نے اپنے اسسٹنٹ کو انجن چیک کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اس دوران فیصل سے جانے کیا غلطی ہوئی کہ ٹرین پیچھے کی طرف چل پڑی۔

فیصل نے ٹرین کو روکنے کی کوشش کی مگر کام یاب نہ ہوسکا۔ ٹرین کی رفتار قدرے تیز ہوئی تو اس نے چھلانگ لگادی اور مسافروں کو قسمت کے رحم و کرم چھوڑ دیا۔ اگر ٹکٹ چیکر حاضردماغی سے کام نہ لیتا تو ٹرین کا رُکنا مشکل تھا۔ اس دوران اگر ٹرین کو حادثہ پیش آجاتا تو متعدد مسافر ہلاک و زخمی ہوسکتے تھے۔

ریلوے حکام نے غفلت برتنے پر فرید ایکسپریس کے ڈرائیور محمد علی، اس کے اسسٹنٹ اور گارڈ کو معطل کردیا ہے۔ اور واقعے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔