جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اتحاد

غلام محی الدین  منگل 21 اپريل 2015
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

پاکستان کے ابتدائی برسوں میں جماعت اسلامی کے اندر اس بات پر شدید اختلاف موجود رہا کہ جماعت کو انتخابی سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔ اس معاملے پر جماعت کے کئی اہم اکابرین کو اختلاف تھا اور کچھ نے تو علیحدگی بھی اختیار کرلی تھی۔

ایسا ممکن ہے کہ ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے کوئی ایسا موقع آجاتا کہ جماعت مکمل فکری ارتکاز کے ساتھ پاکستان کی انتخابی سیاست کے لیے اپنے کردار کا انتخاب کرتی لیکن مارچ 1951ء میں ہونے والے پنجاب کے انتخابات میں جماعت کی شرکت حالات و واقعات کے جبر کا نتیجہ تھی۔

کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان کی عسکری کوششوں کو جہاد قرار دینے کی مخالفت پر مولانا مودودی اور جماعت کی دیگر قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ یوں اختلاف رائے کے باوجود یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ جماعت گو کہ اپنے تنظیمی تشخص کو سامنے نہیں لائے گی لیکن انتخابات میں نسبتاً بہتر امیدواروں کی حمایت کی جائے گی۔ مولانا مودودی 1954ء میں رہا ہوئے اور 1957ء میں جماعت نے باقاعدہ طور پر آئندہ انتخابات میں ایک سیاسی پارٹی کے طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔

یہاں جماعت کے بنیادی فکری نکتہ نظر میں بڑی تبدیلی سامنے آتی ہے۔ معاشرے کو سدھارنے کے لیے جماعت کی حکمت عملی فرد میں تبدیلی کے اصول پر استوار تھی، یعنی معاشرے کو بدلنے کے لیے دعوت و تبلیغ کے ذریعے فرد کو بدلنا ضروری ہے۔انتخابی سیاست میں شرکت کے حق میں جو دلیل سامنے آئی وہ یہ تھی کہ یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ محض دعوت کے ذریعے معاشرے میں مؤثر تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

اس لیے عوامی مینڈیٹ کے لیے الیکشن لڑنا ناگزیر ہے۔ یہ ایک غیر معمولی نظریاتی تبدیلی تھی جس نے جماعت کے ایک بالکل مختلف سیاسی رویے کی داغ بیل ڈالی۔ جب آپ اپنے مقاصد کے لیے ریاستی اتھارٹی کے حصول کو لازم قرار دے لیں تو عمومی رویوں میں جبر اور سختی کا عنصر غلبہ پانے لگتا ہے اور نظریاتی افرادی قوت مقاصد کے حصول کو اقتدار کے حصول سے مشروط کر لیتی ہے۔

طرز عمل کی یہ تبدیلی آج تک کسی نہ کسی طور اثر انداز ہوتی آئی ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے صرف 4 پر کامیابی حاصل کرسکی اور یہ تاثر ابھر کر سامنے آیا کہ حکمت عملی کی تبدیلی مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔

تب سے لے کر آج تک انتخابی سیاست میں جماعت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انتخاب لڑنے کے لیے جو شرمناک حربے ہماری سیاست میں پارٹی کی سطح پر اور انفرادی طور پر معمول کا حصہ سمجھے جاتے ہیں، جماعت کے پاس انھیں اختیار کرنے کے وسائل ہیں نہ ہی ان کی اخلاقیات اس کی اجازت دیتی ہے۔پاکستان کی انتخابی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جماعت اسلامی جیسی نظریاتی پارٹی صرف اپنے کارکنوں کے ووٹ کے زور پر ایسی مؤثر نمائندگی حاصل نہیں کرسکتی جس کی طاقت سے اس ملک کے کرپٹ نظام کو تبدیل کیا جاسکے۔

ایسی کامیابی اسی صورت میں مل سکتی ہے جب عوام الناس کی غالب اکثریت پولنگ والے دن ان کے حق میں فیصلہ دینے پر آمادہ ہوجائے۔ وجہ کیا ہے؟ پاکستانی سیاست میں سرگرم عمل دینی جماعتیں کسی نہ کسی فرقہ وارانہ تشخص کی بنیاد پر استوار ہیں۔ ان کے وجود کا سب سے بڑا جواز ہی کوئی مخصوص دینی مکتب فکر ہے۔ ایسی جماعتوں کا برسراقتدار آنا کسی طور ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی واحد ایسی دینی جماعت ہے جو فرقہ وارانہ بنیاد پر استوار نہیں۔ سیاسی اعتبار سے یہ ایک مثبت بات ہے، لیکن عوام کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے مسائل موجود ہیں۔

مثال کے طور پر معاشرے میں تفریحی سرگرمیاں، آزاد روی، مخلوط تقریبات، میڈیا پر ثقافتی سرگرمیوں اور نیو ائیرنائٹس پر جماعت کا ردعمل انتہائی شدید اور فوری ہوتا ہے۔ مغربی ثقافتی یلغار پر بھی ان کا خون کھولتا ہے لیکن معاشرے میں ہونے والے ظلم، ناانصافی، جبر، کرپشن، میرٹ سے روگردانی، تعلیم اور دیگر شعبوں میں عدم مساوات، نظام عدل کے دیوالیہ پن اور دیگر ایسے معاملات جن کے باعث بے وسیلہ عوام دن رات بری طرح کچلے جا رہے ہیں، ان کے لیے ویسا جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آتا۔ کسی قدرتی آفت یا قومی ایمرجنسی کی صورت میں جماعت کا کام ہمیشہ مثالی رہا ہے۔ لیکن انتخابی سیاست ایک مسلسل عمل ہے۔

جماعت کے رہنما بنگلہ دیش میں پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے جدوجہد کرنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کیا پاکستان سے بنگلہ دیش جانے والی ہماری اہم شخصیات ان شہداء کی قبروں پر پھولوںکی چادر چڑھانے کی جرأت کرسکیں گی؟

اس وقت پاکستان کے اندر دو سیاسی قوتیں اس فرسودہ سیاسی نظام کو کھل کر چیلنج کر رہی ہیں۔ یعنی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی۔ جماعت کے اب تک کے اتحادوں سے یہ اتحاد اس طرح موثر اور مختلف ہے کہ یہ دینی جماعتوں کا وسیع تر اتحاد نہیں، یہ بھی اہم بات ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی کمزوریوں کے خلاء کو پرُ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

چھوٹی باتوں پر اختلافات کے باوجود بظاہر یہ بات مشترک نظر آتی ہے کہ پاکستان کے اندر بنیادی تبدیلیوں کے لیے جمود برقرار رکھنے والی قوتوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ایسے سیاسی اتحادوں کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اتحادی جماعتیں ہر مثبت پیش رفت کو اپنی بہتر حکمت عملی جب کہ ہر خسارے کو دوسرے اتحادی کی خود غرضی کا نتیجہ سمجھنا شروع کردیتی ہیں۔

پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنا سیاسی تشخص برقرار رکھتے ہوئے ہر اتحادی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مستقبل کے لیے اپنی پارٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ بہتر امکانات کا بندوبست کرلیا جائے۔ کراچی کے حلقہ 246 کے ضمنی انتخابات ان دونوں جماعتوں کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خواہ انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی نکلے تبدیلی کی دعویدار دو اتحادی جماعتیں ایک ہی معرکے میںآمنے سامنے کھڑی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کہتے ہیں کہ اس نشست سے دستبردار ہونے کے لیے جماعت کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات میں پچاس فی صد نشستیں چاہتی ہے جو حقیقت پسندانہ تقاضا نہیں ہے۔

این اے 246 ضمنی انتخابات کی نوعیت ہی بالکل مختلف ہے۔ فتح شکست یہاں کوئی معنی نہیں رکھتی، یہاں یہ بات اہم ہے کہ تبدیلی کی حامی جماعتیں تبدیلی کے لیے کتنی سنجیدہ ہیں۔ اس اتحاد کو چھوٹی چھوٹی انتخابی سودے بازیوں کے بجائے بہت بڑے مقصد پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر اس موقع پر بھی لوگوں کو حوصلہ دینے کے بجائے مزید کنفیوز کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو آنے والے دنوں میں اس اتحاد کا مستقبل اچھا نظر نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔