انتظامی اصلاحات کے ناکام تجربات دہرانے کا کیا فائدہ

رحمت علی رازی  اتوار 3 مئ 2015

سول سروس اور سرکاری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہم نے جو کالم اس سے قبل لکھے، اس پر بہت سے ماہرین اور تجربہ کار افسران نے ہم سے رابطہ اور اپنے تحقیقی تجزیے سے ہمیں آگاہ کیا جسکا لب ِ لباب یہ ہے کہ انگریزوں کا بنایا ہوا انتظامی ڈھانچہ ہماری آزادی سے پہلے کے حالات کے مطابق انگریز حکومت کے مفادات کے عین مطابق بنایا گیا تھا۔

اس سلسلے میں صدر ایوب خان کے دور میں انتظامی اصلاحات کے لیے جسٹس کارنیلیئس کی سرکردگی میں ایک کمیشن بنایا گیا تھا جس نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے نو آبادیاتی انتظامی ڈھانچے کو بدل دیا جائے اور نئے حالات کے ساتھ پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت اور ضروریات کا تقاضا ہے کہ ہر محکمے میں پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل اور متعلقہ شعبے کے ماہرین کو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینات کیا جائے لیکن سول سروس کے پردھانوں نے ان تجاویز پر کوئی عمل نہ ہونے دیا اور اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہی ترقی پا کر تمام اعلیٰ عہدوں پر قابض رہے۔

حالانکہ وہ بنیادی طور پر مال افسر تھے اور کسی دوسرے محکمے کا زندگی بھر کا کوئی تجربہ نہ اُس وقت تھا نہ آج ہے بلکہ جائیداد کے بندوبست کے بارے میں جو کام انھوں سے سیکھا اور تحصیلدار اور پٹواری جو ان کے ماتحت رہے ہیں، وہ آج تک اس نظام میں بہتری نہیں لا سکے بلکہ یہ نظام سب سے بوسیدہ اور عوام کے لیے مشکلات اور دردسری کا باعث بنا ہوا ہے۔

کارنیلیئس کمیشن کی رپورٹ کے بعد متعدد رپورٹیں تیار کی گئیں جن میں یہ تجویز کیا گیا کہ سول سروس کے ڈھانچے کو تجربے اور پیشہ ورانہ خطوط پر استوار کیا جائے تا کہ انتظامی ڈھانچے کے تمام گروپوں کو ترقی اور دیگر مراعات کے مساوی مواقع ملیں۔ اس ضمن میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پہلی بار ٹھوس اور بامعنی اصلاحات کیں اور یہ طے کیا گیا کہ انتظامی مجسٹریٹوں یعنی ڈی سی اور اے سی کے عدالتی اختیارات ختم کر کے یہ اختیارات صرف ججوں اور جوڈیشل مجسٹریٹوں کو دیے جائیں کیونکہ انتظامی افسر کے ہاتھ جج کے اختیارات دینے کا مطلب یہ تھا کہ مدعی خود ہی تھانیدار ہے اور خود ہی منصف بھی۔

دراصل یہ طریقہ کولونیل سسٹم کے ہاتھ مضبوط کر کے غیر ملکی حاکم کو مقامی محکوموں پر حکومت کرنے اور انھیں دبانے میں آسانیاں پیدا کرتا تھا۔ ایک رپورٹ میں تو یہاں تک لکھا گیا تھا کہ یا آپ پاکستان کو بچا لیں یا اے سی اور ڈی سی کو بچائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سول سروس کا جو مافیا ڈی ایم جی اور اب ایڈمنسٹریٹو سروس کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔

اس نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا کیونکہ ہمارے خوشامد پسند حکمرانوں اور عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے والے حکمرانوں کے لیے یہ گروپ وہی خدمت انجام دیتا ہے جو انگریز حکمرانوں کی ضرورت تھی۔ مشرف دور میں بلدیاتی انتخابات کی اصلاحات کی وجہ سے اس طاقتور مافیا کا اثر کچھ کم ہوا تھا لیکن اس کے بعد اب یہ گروپ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی انتظامیہ پر مکمل طور پر قابض ہو گیا ہے۔

تعجب کی بات ہے کہ عوام کی تائید سے منتخب ہونے والی عوامی حکومت کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اس گروپ کو طاقتور بنانے اور تمام کلیدی عہدوں پر ان غیرپیشہ ورانہ افسروں کو ایک ایسے دور میں فائز کرنے میں سب سے آگے ہیں جب ملک کو خاص شعبوں میں زندگی کے بڑے حصے کا تجربہ رکھنے والے افسروں اور ماہروں کی ضرورت ہے۔

سول سروس کے انتظامی مافیا کو کسی ایک شعبے کی ماہرانہ صلاحیت کی کمی کی وجہ سے یہ افسر دانستہ حکمرانوں کو صرف وہی مشورہ دیتے ہیں جو حکمران سننا چاہتے ہیں، اگر کوئی خرابی ہو جائے تو یہ افسران ناکامی کی ذمے داری متعلقہ محکموں کے اہلکاروں پر ڈال دیتے ہیں اور اگر کامیابی ہو تو اس کا کریڈٹ خود لے لیتے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کے ان ماہروں کی حالت یہ ہے کہ انھوں نے مختلف حکومتوں کو یہ مشورہ دیا کہ لوگوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ڈکیتی، چوری اور دہشت گردی سے بچنے کے لیے اپنے علاقوں میں اپنے خرچ پر عوام ٹھیکری پہرہ کا بندو بست کریں، حالانکہ ٹھیکری پہرہ اس وقت رائج تھا جب انتظامیہ اور پولیس کا جدید دور نہیں تھا۔

کیا یہ امر باعث شرم نہیں کہ دنیا بھر میں جرائم اور مجرموں کے خاتمہ کے لیے ڈیجیٹل سسٹم رائج ہو چکا ہے جب کہ ہمارے ہاں ابھی ٹھیکری پہرہ ہی مروّج ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کے نظام اور دوسرے مختلف پیشہ ورانہ اہم اداروں کو خراب بلکہ تباہ کرنے میں اس نظام کا بہت بڑا دخل ہے جس میں انتظامیہ کا ایک مخصوص طبقہ اہم اور کلیدی عہدوں پر مسلط کیا جاتا ہے۔

عوامی حکومتوں اور لیڈروں میں یہ بات سمجھنے کی اہلیت ہی نظر نہیں آتی کہ موجودہ پیچیدہ معاشی نظام اور بڑھتے پھیلتے شعبوں کو جدید تقاضوں کے مطابق چلانے کے لیے ہر ادارے اور شعبے میں پیشہ ور اور تجربہ کار افسروں کی ضرورت ہے اور پرانے بوسیدہ نظام میں بنائے گئے افسر شاہی ڈھانچے کی ضرورت قطعاً ختم ہو گئی ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی انتظامی اصلاحات کی ایک رپورٹ میں جناب حفیظ پاشا نے تفصیل سے تجزیہ کیا تھا کہ انگریز حکومت کے دور میں سی ایس پی یا موجودہ ڈی ایم جی ایڈمنسٹریٹو سروس ایک پریمیئر سروس یا گروپ تھا کیونکہ یہ گروپ حکومت کے لیے مالیہ، آبیانہ اور جائیداد کے لین دین کی فیس کی شکل میں محصولات اکٹھے کرتا تھا اسی لیے ان افسروں کو کلکٹر یا مال افسر بھی کہا جاتا تھا۔ ساتھ ہی عدالتی اختیارات دیکر ان کو اعلیٰ حکومتی عہدیدار بنا دیا گیا تا کہ انگریز حکومت کا دبدبہ عوام و خواص پر قائم رہے۔

پاکستان بننے کے بعد ابتداء میں ایسے نظام کی بہت ضرورت تھی لیکن اب تو مالیہ اور آبیانہ وغیرہ سے ٹیکس یا محصولات بہت ہی قلیل ہیں‘ اس کے مقابلے میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی اب محصولات کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

اس رپورٹ میں اس بات کی سفارش کی گئی کہ اب ٹیکس سروس کو پریمیئر سروس کا درجہ دیدیا جائے اور اسی طرح دوسرے محکموں اور اداروں کے عہدیداروں کو ترقی کے مواقع اور مراعات بھی دی جائیں تا کہ ملک موجودہ دور کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کا اہل ہو سکے اور پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والے افسر مسلسل پھیلتے ہوئے اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھا سکیں اور ملک کی انتظامی جڑوں میں بیٹھنے والے مافیا سے نجات حاصل ہو سکے۔

پاکستان کو انگریزی حکومت کی وراثت میں ملی نو آبادیاتی بیورو کریسی کی باقیات کا شکنجہ قائم رکھنے کے لیے ڈی ایم جی یا ایڈ منسٹریٹو سروس کا موجودہ بوسیدہ ڈھانچہ ہمارے سیاسی لیڈروں اور حکومتوں کا بھی مرہونِ منت ہے۔ ایشیا کے غیرترقی یافتہ ممالک کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کے بارے میں تحقیق کرنیوالے اقوام متحدہ کے چار بڑے نامور ماہرین نے ایک کتاب کی شکل میں رپورٹ شائع کی، جو حرف بہ حرف پاکستان کے موجودہ حالات پر صادق آتی ہے۔

اس کتاب کا نام ’’ٹُو ورڈز اے تھیوری آف رُورل ڈویلپمنٹ‘‘ ہے یعنی ’’دیہی ترقی کا نظریہ‘‘۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوکل سطح پر بلدیاتی انتخابات عوامی جمہوریت کی اصل روح ہیں تا کہ مقامی لوگوں کو ان کے مقامی نمائندوں کے ذریعے مکمل اختیارات دیے جائیں لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ان ملکوں کی متعلقہ حکومت مقامی سطح پر عوامی ترقیاتی کام بیوروکریسی اور مفادپرست ٹولے کے سپرد کر دیتی ہے۔

جس ملک کے حکمران اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے تحفظ کی خاطر مقامی حکومتیں بنانے اور بلدیاتی انتخابات کروانے سے ہی گریزپا ہوں، ان سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ مذکورہ دیہی ترقی کے نظریے پر عمل کرینگے۔ جس گروہ سے جمہوری عمل عوام کو مقامی سطح پر آزاد کروانا چاہتا ہے‘ اس طرح کا کنٹرول عوام کی اپنی ترقی کرنے کی صلاحیت کے جذبے کو ختم کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر اور سینیٹرز بھی عوام کے نام پر فنڈز لیتے ہیں حالانکہ ان کا کام عوام کے لیے قانون اور پالیسی بنانا ہے جب کہ فنڈز خرچ کرنا مقامی سطح پر بلدیاتی اداروں کا کام ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ جمہوریت کے نام پر سیاسی حکومتیں بھی لوگوں کو بیوروکریسی اور مفاد پرست مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں اور انہیں اپنی ترقی کے لیے سیاسی اور مالی خودمختاری نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے عام آدمی کی شخصیت مسلسل ذلت اور خواری کا شکار ہو رہی ہے اور اس کی حالت مزید زوال پذیر ہے۔

مندرجہ بالا حقائق سے ہر لحاظ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے گزشتہ 68 سال کے عرصے میں سرکاری انتظامی ڈھانچے کو بوسیدہ نوآبادیاتی ساخت کے ایک آزاد ملک کے روز افزوں بدلتے حالات اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے انتظامی مشینری کو غیر ضروری مراعات یافتہ طبقے کی گرفت سے آزاد کرنا انتہائی ضروری ہے، ورنہ جیسا کہ اوپر کے تجزیے میں بیان کیا جا چکا ہے، ایک ِ انتظامی امور کے ماہر نے درست کہا تھا کہ ’’یا تو اے سی اور ڈی سی کو بچا لیں یا پاکستان کو بچا لیں‘‘۔

یہی وہ برہمن کلاس یا اعلیٰ مراعات یافتہ طبقہ ہے جو اعلیٰ کلیدی عہدوں کے لیے ترقی کے سب سے زیادہ مواقع کا لطف اُٹھاتا ہے اور ہر وزارت یا محکمے میں پوسٹنگ لے لیتا ہے لیکن مجموعی طور پر اسے اور کسی بھی شعبے میں خصوصی مہارت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے۔ ہم یہ بات اپنے تجربے اور گزشتہ برس ہا برس کے مشاہدات کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں اور ہمیں اس پر پورا یقین ہے۔

افسروں کا اس طرح کا طبقہ اس دور میں مکمل طور پر غیرضروری اور زمینی حقائق سے غیر متعلق ہے لیکن ہمارے مفاد پرست حکمران ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے پیش نظر عوامی مفاد کی بجائے اپنے وقتی مفادات ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی اشیرباد سے وہ ہر طرح کے قانونی اور غیرقانونی اختیارات حاصل کر لیتے ہیں لیکن انجام کار سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہی افسران کا طبقہ ہے جو نوآبادیاتی سرکاری مشینری کی آؤٹ ڈیٹڈ باقیات ہیں اور یہ اپنی بقا کے لیے ہر سطح پر جنگ لڑ رہے ہیں، جن سے چھٹکارا حاصل کرنا ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔

ہم یہاں حکمرانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ہمسایہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے اس خطاب کو پیش نظر رکھیں جس میں نریندر مودی نے اپنے ملک کی بیوروکریسی کے اہم ترین مہروں کو اپنے ہاں بلایا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اپنے بگڑے ہوئے مزاجوں کو خود ہی درست کر لیں جن سے عملی طور پر یہ ثابت ہو سکے کہ آپ صحیح معنوں میں عوام کے خادم ہیں اور یہ بھی سامنے آ سکے کہ آپ لوگوں کا ہر قدم عوامی خدمت میں ہے نہ کہ عوامی حاکمیت میں۔ ہمیں یقین ہے کہ وطن عزیز کے منتخب حکمران اگر اس خطاب کا مطالعہ کریں تو وہ آسانی کے ساتھ ملک کی بدمزاج اور عوام دشمن بیوروکریسی کا قبلہ درست کر سکتے ہیں۔

آخر میں سابق ایم ڈی واسا انجینئر افتخار خاں کی تجاویز جو واقعی متاثر کن لگتی ہیں۔ یہ تو ماہرین اور حکمران ہی ان تجاویز کا جائزہ لے سکتے ہیں اور رائے قائم کر سکتے ہیں، اگر یہ واقعی قابل عمل ہوں تو یقینا ملک کی تقدیر سنور سکتی تھی۔ انھوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں کون ہوں اور آپ سے کیوں مخاطب ہوں۔ میں ان 85 فیصد غریب لوگوں کا دوست ہوں جو کہتے ہیں کہ غربت ہی ان کا مقدر ہے اور ان کو کسی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ میں ریٹائرمنٹ کے بعد 10 سال دن رات یہی سوچتا رہا، ان گنت کاپیاں کالی کیں اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی تجاویز تیار کیں جو وقت کے ساتھ نکھرتی گئیں۔

کوئی محکمہ نہیں چھوڑا جہاں اصلاح تجویز نہ کی ہو۔ ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پانچ سالہ ترقی کا منصوبہ بنایا۔ ہر محکمے کے لیے 30 کھرب روپے پانچ سال کے لیے تجویز کیے۔ اس سے 500 کھرب روپے پانچ سال میں درکار ہونگے یعنی 100 کھرب روپے سالانہ۔ اس وقت حکومت کی آمدنی 20 کھرب روپے سالانہ ہے۔ اس کو اگر 100 کھرب سالانہ کر لیں تو اگلے پانچ سال میں ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا ۔ موجودہ تمام ٹیکس ختم کر دینگے۔

نیا ٹیکس سسٹم جو پرچیز پر 20 فیصد ہو گا، صرف ریٹیلر پر لاگو ہو گا۔ ہر پرچیز یا ماہانہ خرچے پر سرکار کی مہیا کی ہوئی رسید دکاندار جاری کریگا اور اس کے ساتھ 20 فیصد رقم کے برابر اسٹیٹ بینک کا ٹوکن ہو گا۔ ایسا نظام رائج کرینگے جس سے ایک بھی پرچیز بغیر رسید اور ٹوکن کے نہیں ہو سکے گی۔ اس ٹیکس میں ہیراپھیری کسی کے بھی فائدے میں نہیں ہو گی۔

اس ٹیکس سسٹم کو شروع کرنے سے پہلے کم از کم ماہانہ تنخواہ 25 ہزار روپے کرنا ہو گی۔ ہر سرکاری‘ غیرسرکاری اور پرائیویٹ ملازم، دکاندار کا سیلزمین، ڈیلی ویجز والا مزدور اور مزارعے کے کام کرنیوالے 25 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینگے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ 5 کروڑ لوگ اس سلیب میں آئیں، یہ کام تین ماہ میں ہو جائے گا ، انصاف کا سسٹم اس کو پوری طرح لاگو کریگا۔ اس نظام کے فائدے ہر غریب آدمی کو نظر آئینگے کیونکہ آج سے ہی بجلی کا بل دو روپے فی یونٹ کے حساب سے آئیگا اور آج سے ہی لوڈشیڈنگ ختم ہو جائیگی۔ کوئی ایسا سوچ نہیں سکتا، ہم پورا کر کے دکھائیں گے۔ آج سے آرڈر کیا جائے گا کہ سودی نظام ختم کیا جاتا ہے۔

بینک صرف کسٹوڈین ہونگے اور کوئی سود نہیں دینگے۔ قرضہ پر صرف سروس چارجز لگیں گے جو ایک فیصد سے کم ہونگے۔ باہر کی ایجنسیوں کو ان شرائط کے مطابق قرضے واپس کیے جائینگے، حکومت کو نئے قرضے کی بالکل ضرورت نہیں ہو گی۔ ایک سال کے عرصہ میں ڈالر 50 روپے کا ہو جائے گا ۔ حکومت 5 مرلے کے 50 لاکھ گھر بنوائے گی جن کو 2 ہزار روپے ماہانہ قسط پر دیا جائے گا ۔ یہ گھر ہر چک، ہر گاؤں اور ہر شہر میں بنیں گے‘ ان کی یکمشت قیمت 7 لاکھ روپے ہو گی۔ کوڑا کرکٹ کا ایسا نظام رائج کرینگے جس سے ہر قسم کی غلاظت اور تعفن سے نجات مل جائے گی اور آپ کو کوڑا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔

حکومت کا اس پر ایک پیسہ نہیں لگے گا اور ہزاروں لوگوں کو باعزت نوکری ملے گی۔ آج سے ملک کی آمدن پانچ گنا ہو جائیگی۔ سات دن کے اندر مکمل انصاف کا نظام رائج ہو گا۔ زمین کی قیمت بہت کم ہو جائے گی۔ رشوت، دہشت گردی اور گندگی جڑ سے ختم ہو جائے گی۔ ملک کا کھیلوں میں نام ہو گا۔ ہر غریب آدمی کی ہیلتھ انشورنس ہو گی۔ ہر بچہ اسکول جائے گا جس سے لٹریسی ریٹ 100 فیصد ہو جائے گا ۔ یہ صرف 5 سال کے عرصے میں ہو گا۔ اس نظام سے ملک میں اڑھائی کروڑ نوکریاں پیدا ہونگی۔ ہر شخص کو اس کے اپنے گھر کے پاس نوکری دستیاب ہو گی۔ پانچ سال بعد کم از کم تنخواہ دگنی کر دی جائے گی کیونکہ حکومت کی آمدن بھی دگنی ہو جائے گی۔

ہر شادی شدہ شخص کا اپنا ذاتی گھر ہو گا۔ ہر طرف ہریالی ہو گی اور ملک میں خوشحالی ہو گی۔ یہ کوئی خواب نہیں، یہ کوئی وعدہ نہیں، یہ کوئی چال نہیں، یہ کوئی ڈرامہ نہیں۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو مناظرہ کر لے۔ صرف حکومت نے ایک کام کرنا ہے کہ ہر پرچیز کی رسید کٹے اور اس کے ساتھ 20 فیصد رقم کا ٹوکن ہو۔

ہر تجویز قابل فہم اور قابل عمل ہے۔ ہماری تجاویز کو لاگو کرنے سے ہمارے ملک کا ایک مسئلہ بھی باقی نہیں رہیگا۔ ہماری تجاویز سے جو چیزیں ختم ہونگی اس میں رشوت، دہشت گردی، جعلی ادویات، جعلی ڈاکٹر، جعلی مدرسے، سرداری نظام، جاگیرداری، بوٹی سسٹم اور سب سے بڑھ کر غریب ختم ہو جائینگے۔ ہر شخص اور ادارہ عدالتوں کی کڑی نگرانی میں ہو گا اور کسی شخص، گروہ اور جماعت کو عدالت سے ماورا نہیں سمجھا جائے گا ۔ پرانی غلطیاں معاف کر کے نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔