یہ فرسودگی کب تلک؟

مقتدا منصور  جمعرات 28 مئ 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

دو دن پیشتر سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں پولیس نے دو وکیل مار دیے۔جن میں ایک بار کے صدر اوردوسرے ان کے ساتھی تھے۔ چند روز پہلے کراچی میں سابق وزیر داخلہ کی سندھ ہائی کورٹ آمد پر سادہ لباس میں ملبوس، نقاب پوش پولیس اہلکاروں نے ہائی کورٹ کے احاطے میں گھس کرصرف مرزاکے محافظوںہی کو نہیں بلکہ ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے عملے کی بھی اچھی خاصی دھنائی کردی۔

اس سے بدتر نوعیت کا واقعے گزشتہ سال ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیش آیا تھا،جب ڈیڑھ درجن کے قریب لوگ پولیس گردی کا شکار ہوئے۔ ہر صوبے،ہر ضلع میں ہونے والے جعلی پولیس مقابلے اس کے سوا ہیں۔ اس قسم کی خبریں روز کا معمول ہیں۔ کیونکہ ہر تھانہ لوٹ مار اور دہشت گردی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ جہاں جرائم کی بیخ کنی نہیں، بلکہ پرورش کی جاتی ہے۔ بدعنوانی، بد کرداری اور بد اخلاقی پولیس کی شناخت اول بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ اس خرابیِ بسیار کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟یہ جاننے کے لیے تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔

پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس محکمے کی ابتداء چین سے ہوئی، جہاں450قبل مسیح اس کی موجود گی کے آثار ملے ہیں۔ اسی طرح یونان کی شہری ریاستوں میں300برس قبل مسیح میں عدالتیں غلاموں کے ذریعے مجرموں کو گرفتار کر کے سزا دیتی تھیں ۔جدید دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد پولیس ریاستی نظم و نسق میں کلیدی کردار کا حامل ادارہ بن گیا۔ پولیس کی ذمے داریوں کو سمجھنے کے لیے برطانیہ کے پولیس مینوئل کے ابتدائیہ کی درج ذیل سطورپر غور ضروری ہے، جو اس کی ذمے داریوں کا مکمل احاطہ کرتی ہیں۔

A Police force is a constituted body, empowered by the state to enforce law, maintain law and order, protect lives of the citizens and to safeguard public and private properties. Its powers includes legitimized use of force   ۔اس تعریف کے جس نکتے پر خصوصی غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہے legitimized use of force۔یعنی طاقت کا جائز استعمال۔ جائزکب ہوگا؟ جب یہ قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کیاجائے گا اور بے جا استعمال (Power Abuse) سے اجتناب کیا جائے گا۔

1857ء میں ہونے والی جنگ آزادی (یا غدر)پر قابو پا لینے کے بعد1858ء میں ہندوستان براہ راست ملکہ کی زیر سرپرستی چلا گیا۔ ملکہ کے نمایندے کو وائسرائے کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد 1860-62ء کے دوران تاج برطانیہ نے ہندوستان میں ریاستی انتظام و انصراف کو مربوط انداز میں چلانے کے لیے  بڑی سرعت کے ساتھ مختلف قوانین تیار کر کے نافذ کیے۔ جن میں انڈین پینل کوڈ(IPC)،کرمنل پروسیجرکوڈ(Cr.P,C) کے علاوہ دیگر امور جن میں کاروباری اور دوسری نوعیت کے قوانین شامل تھے ۔ یہ قوانین آج بھی خطے کی چار ریاستوں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں جاری وساری ہیں۔ ان ممالک کا پورا انتظامی ڈھانچہ انھیں قوانین اور انتظامی سیٹ اپ کے تحت چل رہا ہے۔

1861ء میں انڈین سول سروس (ICS)متعارف کرانے کے ساتھ ہی انڈیا ایکٹ5کے تحت پولیس کے محکمے کی تشکیل نو بھی کی گئی۔ مغلیہ دور کے کوتوالی نظام کی جگہ تھانہ کلچر متعارف کرایا گیا تاکہ امن و امان پر با آسانی قابو پایا جاسکے۔ دیگر انتظامی شعبہ جات کی طرح پولیس میں بھی تین درجات رکھے گئے۔ اول، وہ جو IPS سے منتخب ہوکر آئیں۔ انڈین پولیس سروس(IPS)دراصل ICSکے طرز پر کمیشنڈ سروس تصور کی جاتی تھی۔ ٹریننگ کے بعد ایک نوجوان افسرکو ASP (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ) لگایا جاتا تھا جو ترقی کرتے ہوئے SP،پھرSSPاورDIGہوتے ہوئے IGتک پہنچ سکتا تھا۔ دوئم، درمیانی درجے کے نان کمیشنڈ افسران یا عہدیدار۔ اس سطح پر عمومی طورپر چاردرجات ہوتے تھے۔

ایک نوجوان تربیت کے بعد اسسٹنٹ سب انسپکٹر تعینات کیا جاتا ہے، جو ترقی کرتے ہوئے سب انسپکٹر، پھر انسپکٹر اور آخر میں ڈی ایس پی تک پہنچتا ہے۔ بعض ذہین اور اعلیٰ کارکردگی والے عہدیدار SPاورSSPکے عہدے تک بھی پہنچتے تھے، جنھیں Ex-cadreکہا جاتا تھا۔ تیسری سطح کانسٹیبل کی ہوتی تھی، جو ترقی کرتے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل، محرر اور ہیڈ محرر اور اکثر انسپکٹر تک ترقی پا جاتا تھا۔

یہ نظام آج بھی اسی انداز میں چل رہا ہے، جس طرح نوآبادیاتی دور میں چلتا تھا۔لیکن آج یہ نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچہ مزید فرسودگی اور شکستگی کاشکار ہوچکا ہے۔ اس کی کارکردگی انتہائی پست اور ناکارہ ہوچکی ہے جس کا بنیادی سبب تقرریوں اور تعیناتیوںمیں ہونے والی بے قاعدگیاں اور بدعنوانیاں ہیں۔ انگریز کے بارے میں بحیثیت نوآبادیاتی آقا کوئی بھی رائے رکھیں، مگر یہ طے ہے کہ وہ دیگر اقوام مثلاً ولندیزیوں، پرتگالیوں اور فرانسیسیوں سے بدرجہا بہتر تھا۔ اس نے اپنی نوآبادیات میں بھی قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے پرہمیشہ توجہ دی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہر نوآبادیاتی آقا ایسا انتظامی ڈھانچہ اور ایسے قوانین ضرور وضع کرتا ہے، جو نوآبادیات پر کنٹرول اور رعیت(Subject)کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کے68 برسوں کے دوران ہم نے کیا بھاڑ جھونکی؟ کتنے نوآبادیاتی قوانین میں ترامیم و اضافے کے ذریعے انھیں قوم کی امنگوں کا آئینہ دار بنانے کی کوشش کی؟ پولیس سمیت کتنے محکموں کی تطہیر اور تنظیم نوکر کے انھیں حقیقی معنی میں ایک آزاد مملکت کے شہریوں کا خدمت گار بنایا؟ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ 68برس گذر جانے کے باوجود ہم انھی قوانین اور اسی انتظامی ڈھانچہ پر تکیہ کیے ہوئے ہیں جو ہمیں نوآبادیاتی آقاؤں سے ورثے  میں ملا تھا ۔

ہماری حکمران اشرافیہ، ماہرین قانون (Jurists) اور اہل دانش میں سے کسی نے بھی اس جانب توجہ نہ دی کہ وہ ان نوآبادیاتی قوانین اور انتظامی ڈھانچے میں مناسب تبدیلیوں کے لیے تجاویز مرتب کرتے۔ ہمارے مقتدر حلقوں (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کی نااہلی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ انھوں نے نوآبادیاتی نظام کو بھی مزید ابتر کردیا۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ انگریز کے زمانے میں پولیس کی زیادتیوں پر کم ازکم اس کی گوشمالی یعنی احتساب کی روایت تو موجود تھی، مگر اب تو معاملہ اندھیر نگری چوپٹ راج سے بھی آگے جا نکلا  ہے۔

پولیس کے محکمے میں آج جو خرابیاں، کمزوریاں اور نقائص پائے جاتے ہیں، ان کے چار بنیادی اسباب ہیں۔ اول، پولیس مینوئل ڈیڑھ سو برس پرانا ہے، جب کہ دنیا بہت آگے جاچکی ہے۔ دوئم، پولیس کی تربیت کا نظام اور ان کے تربیتی ماڈیولز(Modules)کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ سوئم، پولیس میں بھرتیوں، تعیناتیوں اور تقرریوں کاجو طریقہ کار انگریز نے وضع کیا تھا، اسے تباہ کردیا گیا ہے۔

پولیس میں بھرتی کے لیے میرٹ اور اہلکار کا خاندانی پس منظر دیکھنا، اس کے کردار کی ضمانت حاصل کرنا جیسے درست اقدامات سے جان چھڑا لی گئی ہے۔ تھانے کی سطح  پر جرائم پیشہ اور غنڈہ عناصر کو سپاہی سے انسپکٹر تک بھرتی کرکے تعینات کیا جاتا ہے۔ چہارم، اشرافیائی کلچر (VVIP) نے پولیس کے محکمے کو مزید تباہی کے دہانے تک پہنچایا ہے۔ IGسے تھانہSHO تک کی تقرری میں اہلیت کے بجائے ذاتی پسند اور نا پسند کو فوقیت دی جاتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اگرحکمرانوں کے پیش نظر ملک کا وسیع تر مفاد ہے اور وہ سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ ملک میں بہتری کے خواہاں ہیں، تو انھیں چند اقدامات فوری طور پر کرنا چاہئیں۔ اول، پورے ملک کے لیے مقامی حکومتوں کے ایک یکساں، مربوط اور متوازن نظام کی تشکیل ضروری ہے جس میں اضلاع اور پھر یونین کونسل کی سطح تک اقتدار و اختیار کی حقیقی منتقلی ہو۔ جس میں سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات شامل ہوں۔ دوئم، پولیس کا نوآبادیاتی ڈھانچہ ختم کرکے اسے ضلع کے منتخب سربراہ  کے تابع کیا جائے۔

سوئم، پولیس کی بھرتی مقامی سطح پر کی جائے ۔یعنی اعلیٰ افسر اسی صوبے سے ہو، جب کہ دوسری اور تیسری سطح کے اہلکار اسی ضلع سے منتخب کیے جائیں۔ چہارم، کمیونٹی پولیسنگ کے نظام کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔پنجم،آٹھویں جماعت سے انٹرمیڈیٹ تک پولیسنگ کے قواعد و ضوابط نصاب میں شامل کیے جائیں اور گرمیوں/سردیوں کی چھٹیوں میں میٹرک سے انٹر میڈیٹ تک کے طلبا وطالبات کو بطور کمیونٹی پولیس ذمے داریاں سونپی جائیںاور انھیں مناسب اعزازیہ دیا جائے۔ ششم، ضلع کی سطح پر پولیس اہلکاروں کے انتخاب، تقرری اور تعیناتی کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ  شفافیت قائم ہوسکے۔

مگر ہماری تمام باتیں مجذوب کی بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ کیونکہ اگر حکمرانوں میں بصیرت اور عزم ہوتا تو شاید نہ ملک دولخت ہوتا اور نہ اس حال کو پہنچا ہوتا، جس کا آج شکار ہے۔ وہ وہی کریں گے، جس میں ان کا اپنا مفاد ہے۔ VVIPکلچر یونہی چلتا رہے گا۔ پولیس یونہی عوام کے ساتھ زیادتیاں کرتی رہے گی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا بازار یونہی گرم رہے گا۔

کبھی جمہوریت کے نام پر کبھی کسی اور حوالے سے۔ اب تو حکمران اتنے ڈھیٹ ہوگئے ہیں کہ اپنے کہے الفاظ سے بھی مکر جانا تو معمولی بات، ٹیلی ویژن پر دکھائے گئے مناظر تک کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب مقتدرہ جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اس سے کسی اچھائی کی توقع عبث ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔