نوجوان، سرمایۂ ملت

شاہین رحمن  پير 8 جون 2015

جوانی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے، اﷲ رب العالمین کو جوانی میں کیا گیا ہی عمدہ کام بشمول عبادات اتنی محبوب ہیں کہ جن کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دین اسلام کی سنہری تاریخ میں اسلام کی خدمت اور اشاعت میں نوجوانوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں دیکھیں تو کہیں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ جیسے نوجوان نظر آتے ہیں کہ لشکر کی قیادت جن کے سپرد کی گئی اور کہیں معاذ و معوذ رضی اﷲ عنہما نظر آتے ہیں کہ جنھوں نے نوجوانی میں ہی اس امت کے فرعون یعنی ابوجہل کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا پھر گزرتے وقت کے ساتھ کہیں محمد بن قاسم رحمۃ اﷲ جیسے جری نوجوان نظر آتے ہیں کہ جوانی میں کئی ہزارکلو میٹر کا علاقہ فتح کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔

غرض اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار پھول ملتے ہیں کہ جنھوں نے اپنی جوانی کی رنگینیوں سے ماحول کو معطر کیے رکھا اس بات سے انکار نہیں کہ تاریخ اسلام کو سنہرا بنانے میں بڑی بڑی بزرگ ہستیوں کا کردار شامل ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کے جوان فرزندوں نے بھی اپنی جوانی کے جوش اور صلاحیتوں سے اس باغ کو بہار بخشی۔ اﷲ کی مدد ونصرت اور انھی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اسلام کا پھریرا سارے عالم پر لہراتا رہا کبھی بھی کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس پاکیزہ دین پر کیچڑ اچھال سکے۔

مگر وقت نے کایا پلٹی اور تاریخ نے رخ بدلا۔ استعماری طاقتوں نے مسلم نوجوانوں کی جوانی کی صلاحیتوں کو مسخ کرنا شروع کردیا، ان کی عظیم صلاحیتوں کو غلبہ اسلام کی تحریک سے ہٹاکر دنیا کی رنگینیوں کی طرف مائل کرنا شروع کردیا اور یہ وقت بھی دیکھنا پڑا کہ وہ نوجوان جنھوں نے امت کی اصلاح کرنا تھی آج ان کی اکثریت گمراہیوں کی دلدل میں پھنسی نظر آتی ہے، جس نے امت کی امامت کرنا تھی اور اسے اغیارکی سازشوں سے محفوظ رکھنا تھا وہ اغیار کے پنجوں کا شکار ہوکر اس کی روش اپنا چکا ہے، جس نے امت کے سر کا تاج بننا تھا وہ غیروں کے ہاتھوں کھلونا بن چکا ہے جس نے امت کی ڈوبتی ناؤ کو بچانا تھا وہ خود جوانی کی رنگینیوں میں ڈوبا نظر آتا ہے، جس نے جوانی کے خون سے دین اسلام کو جلا بخشنی تھی وہ اس جوانی کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے جس کا مقصد حیات عبادت الٰہی تھا وہ غیروں کی چوکھٹوں پر گرا ہوا ہے، بری محافل کا وہ عادی ہے، غرض اس کی زندگی ایک ایسی بھیانک صورت اختیار کرچکی ہے کہ بس …؟ حال ہی میں ایک بس پر سوار لوگوں کو ماراگیا، ان پر گولیاں برسائیں، ساٹھ ستر افراد شامل تھے۔ جب تحقیقات ہوئی تو پتہ چلا ان میں زیادہ تر تعلیم یافتہ لوگ تھے کچھ تو انتہائی بڑے اداروں کے تعلیم یافتہ تھے۔ حالانکہ اسی نے آج اسلام کا سپہ سالار بن کر ظالموں کو ظلم سے روکنا تھا مگر صد افسوس بقول شاعر حالی مرحوم:

’’اے نوجوانو! اپنی جوانی کی حقیقت کو پہچانو‘‘

اپنے مقصد سے شناسائی حاصل کرو تمہارا مقصد حیات، اسکول، کالج، یونیورسٹی میں آپس میں لڑائیاں کرنا اور جھگڑا نہیں بلکہ اسلام کو تائید بخشنا ہے۔ مسلمان منتظر ہیں کہ کب امت مسلمہ کے یہ نوجوان جاگیںگے، کب ان کے دل سے پردہ غفلت الٹے گا؟ کب ان میں احساس امت کی شمع روشن ہوگی، گزرے ہوئے روشن دنوں کو یاد کرو۔

ماضی کی روشن تاریخ کو ایک بار پھر تازہ کرو، اس دنیا کی رنگینیوں میں مت کھوجاؤ بلکہ اپنے سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کرو، عزت سے جینے کی تربیت حاصل کرو۔ اپنے تمام اعمال میں اﷲ سے نصرت کا طالب بن جاؤ، جوانی کو ہر عیب سے تہی دامن رکھو، اے نوجوانو! جوانی میں غیروں کی خاک چھاننا تجھے زیب نہیں دیتا۔

نوجوان کسی قوم کا نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ سرمایہ ہے جو قوم کی ترقی اور فلاح میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سرمائے کے بغیر نہ تو کوئی قوم مضبوط اور طاقتور ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کا کاروبار حکومت چل سکتا ہے۔ نوجوان ہی کسی قوم کی امیدوں کا محور اور مستقبل اور تعمیر و ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ آج کے نوجوان کل کے باپ اور معمار ہوتے ہیں اور یہی وہ افرادی قوت ہے جو ملکی سالمیت اور تحفظ کی امین ہے صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر دنیا میں اپنا نام روشن کرتے ہیں۔ مستقبل کی تمام ذمے داریاں ان ہی کو سنبھالنا ہوتی ہیں اگر کوئی قوم اپنے نوجوانوں کو نظرانداز کردے اور تعلیم و تربیت سے غافل ہوجائے تو وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اس قوم کا ترقی کرنا تو درکنار بلکہ اس کی بقا بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لیے کہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نوجوان مستقبل کے ذمے دار ہیں۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ہمہ وقت ترقی کرتی ہیں جن کے نوجوان تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں کیونکہ تعلیم و تربیت ترقی کا پیش خیمہ اور زینہ ثابت ہوتی ہے۔ یہی مستقبل کی رہنمائی کرتی ہیں اور اسی سے نوجوانوں کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے یہی ان کو اچھے اور برے کی تمیز سکھاتی ہے اور یہی انھیں دنیا میں بلند مقام عطا کرتی ہے اس لیے جو قوم یہ چاہتی ہے کہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور اسے زندگی کے ہر میدان میں اعلیٰ مقام حاصل ہو تو اس کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دے۔ اصل میں کسی قوم کا تعلیمی نظام درست اور ٹھوس ہے تو نوجوان نسل دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گی۔

تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر طلبا اور نوجوانوں میں وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کی بدولت وہ کائنات میں انقلاب لاسکتے ہیں۔ نئے زمانے اور نئی صبح و شام پیدا کرسکتے ہیں۔

نوجوانوں کا نصب العین واضح ہونا چاہیے اور انھیں اپنے نصب العین کو سامنے رکھ کر تعلیم حاصل کرنا چاہیے تاکہ وہ ملک کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکیں۔ نوجوان نہ صرف تعمیر وطن میں حصہ لیتے ہیں بلکہ وہ اس کی تاریخ بھی مرتب کرتے ہیں اور قوم کی تقدیر بھی بدلتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی اور پاکستانی نوجوان میدان عمل میں آئیں۔ خود اپنی زندگی کی تعمیر بھی درست انداز سے کریں اور اپنے ملک کی سیاست کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھیں۔ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کا طریقہ بتا سکتے ہیں۔

نوجوانوں کی قوت عمل پوری طرح ہوتی ہے اس لیے وہ عملی طور پر جتنی عمدگی کے ساتھ ملک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اور کوئی طبقہ نہیں کرسکتا۔

پس حقیقت یہ ہے نوجوان طبقہ ہی ہے جو ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔