ہیرلڈ پنٹر اور ملالہ یوسف زئی

اوریا مقبول جان  جمعـء 10 جولائی 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

گلے کے سرطان کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھی ہوئی تھی لیکن اس پچھتر سالہ شخص کی جرأت، بہادر ی اور الفاظ کی گھن گھرج سے ہال میں بیٹھے لوگ حیرت میں گم تھے۔ سرطان کے اسی حملے کی وجہ سے اس کی جِلد ایک خطرناک مرض کا شکار ہو چکی تھی اور خون میں زہریلے مواد کے در آنے سے جسے Spticemia کہتے ہیں ،اسے چلنے اور کھڑے ہونے میں بھی مشکلات درپیش تھیں۔

ان تمام مشکلات و مصائب کے باوجود 7 دسمبر 2005 کو سویڈیش اکیڈیمی اسٹالک ہوم کی نوبل انعام کی تقریب منعقدہ بورسلین Borssalen میں اس نے انعام وصول کرنے کے بعد جو تقریر کی وہ آج کے دور کے مظالم پر ایک فردِ جرم تھی۔ یہ فردِ جرم ایک ایسے شخص نے پڑھ کر سنائی جس کی ساری زندگی شاعری کرنے، ڈرامے لکھنے، فلموں کے اسکرین پلے تحریر کرنے اور اداکاری کرتے گذری۔ مشرقی لندن کے علاقے ہیکنی Hackney میں 10 اکتوبر 1930 کو  پیدا ہونے والا ہیرلڈ پنٹر “Harlod Pinter” جس نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے ایک اسکول میں حاصل کی۔

تعلیم کے دوران وہ ڈراموں میں حصہ لیتا، تقریریں کرتااور کرکٹ کھیلتا تھا۔وہ شاعری بھی کرتا اور اپنے آپ کو ایک پیدائشی شاعر سمجھتا تھا۔ اسکول کے بعد اس نے ڈرامائی آرٹ کی رائل اکیڈمی میں داخلہ لیا لیکن اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکا۔ اسے رائل اکیڈیمی اس لیے چھوڑنا پڑی کہ اس نے ضمیر کی آواز بلند کرتے ہوئے جبری طور پر فوجی ٹریننگ اور ملازمت سے انکار کیا تھا۔رائل اکیڈیمی سے نکالے جانے کے بعد اس نے نسبتاً ایک چھوٹے ادارے سینٹرل اسکول آف اسپیچ اینڈ ڈراما میں اپنی تعلیم مکمل کی اور ساتھ ساتھ انگلینڈ اور آئر لینڈ کے تھیٹروں میں بھی اداکاری شروع کر دی۔

ستائیس سال کی عمر میں اسے پہلا ڈرامہ  “The Room” تحریر کرنے کا موقع ملا۔ اس کا دوسرا ڈرامہ “The Brithday Party” صرف آٹھ شو کرنے کے بعد بند کردیا گیا۔ اس کی تحریروں کو  Comedy of menace یعنی “خوفزدہ کرنے والا مزاح” قرار دیا گیا۔ لیکن وہ لکھتا رہا اور اداکاری بھی کرتا رہا۔ وہ مسلسل شاعری میں بھی طبع رواں رکھے ہوئے تھا۔ اس کی اسی لگن اور انتھک محنت نے اسے برطانیہ کا مقبول ترین ڈرامہ نگار بنا دیا۔ اس کے اندر ایک باغی کی روح بچپن ہی سے تڑپ رہی تھی۔ صرف 18 سال کی عمر میں اس نے سرد جنگ کی مخالفت کی اور اسے ” باضمیر مخالف”کے نام سے پکارا گیا،کیونکہ اس نے برطانوی فوج کی جبری ملازمت سے انکار کیا تھا۔

اس نے 29 سال کی عمر میں نسلی امتیاز کے خلاف چلنے والی تحریک میں حصہ لیا اور تمام برطانوی آرٹسٹوں کو قائل کیا کہ ان کے ڈرامے جنوبی افریقہ جیسے نسل پرست ملک میں نہیں چلنے چاہیں۔ عمر کے آخری پچیس سال اس نے خود کو کالم اور مضامین لکھنے، تقاریر کرنے اور انٹرویو دینے تک محدود کرلیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ڈراموں اور شاعری کی نسبت اس طرح زیادہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اس نے 1991 کی پہلی عراق جنگ کی مخالفت کی، 2001 میں افغانستان اور 2003  میں عراق پر حملے کے خلاف وہ میدان میں نکل آیا۔ اس کے مضامین اور تقریریں جرأت و بہادری اور طنزومزاح کا امتزاج تھیں۔ اس نے ٹونی بلیئر کو Deluded Idiot   “مغرور جاہل” کہا اور جارج بش انتظامیہ کو نازی جرمنی سے تعبیر کیا۔

اس نے کہا کہ امریکا دنیا میں قتل و غارت کے ذریعے اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کے عوام اور برطانیہ کا قاتل وزیرِاعظم اس سب کو ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے کو ئی اسٹیڈیم میں میچ دیکھتا ہے۔ اس کی تحریروں پر اسے بے تحاشا ایوارڈ ملے اورآخر کار 2005 میں اسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ وہ شدید بیمار تھا۔ اس کے گلے کے سرطان کا آپریشن ہو چکا تھا۔

اس کی جِلد ایک بیماری کی وجہ سے کٹ پھٹ چکی تھی اور خون میں زہریلے مواد کی آمیزش نے اسے چلنے پھرنے سے معذور کر دیا تھا۔اسے ادب کا نوبل انعام دیا گیا تو اس نے تاثرات ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ” مجھے صبح کسی نے بتایا کہ  SKYچینل پر میرے بارے میں یہ خبر چلی ہے کہ ہیرلڈ پنٹر مر گیا اور پھر تصحیح کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نہیں اسے تو ادب کا نوبل انعام دیا گیا  ہے ، تو یوں میں ایک دفعہ مر کے دوبارہ زندہ ہوا ہوں” وہ دسمبر میں انعام وصول کرنے کے لیے اسٹالک ہوم جانا چاہتا تھا، اس نے تمام تیاریاں مکمل کر لیں، لیکن نومبر میں اسے اسپتال داخل ہونا پڑا اور ڈاکٹروں نے اسے اس قسم کے سفر سے منع کر دیا۔

اس کے اندر کے باغی کی روح بے چین ہو گئی۔ اس نے ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے نوبل انعام وصول کرنے کے بعد کی جانے والی تقریر ریکارڈ کروائی جسے سویڈش اکیڈیمی نے تین بڑی بڑی اسکرینیں لگاکر ہال میں لوگوں کو سنایا۔ اس کی تقریر اکیسویں صدی میں ہونے والے جنگی جرائم کی فردِ جرم ہے اور سیاست، سیاسی رہنماؤں اور جمہوری نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ تقریر کا آغاز سچ اور سچ کی تلاش کے تصور سے شروع ہوتا ہے ۔ وہ کہتا ہے” سیاست دانوں کی اکثریت سچ کی وادی کے سفیر ہی نہیں۔ وہ کسی طور بھی سچ کی بالا دستی میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ طاقت کا حصول اور اس کا مستقل دوام ہی ان کے منزل ہوتی ہے۔ وہ نکاراگوا میں امریکی بدمعاشی کی کہانی سناتا ہے جہاں وہ چالیس سال سموزا کی حکومت کی مددکر تارہا تاکہ وہ اسکول تباہ کرے، لوگوں کو قتل کرے، عورتوں کی عزت لوٹے۔ وہ کہتا ہے کہ جب کانگریس اس قتل و غارت کی منظوری دے رہی تھی تو میں امریکی سفارت خانے احتجاج کے لیے گیا۔ میں نے دھواں دار گفتگو کی جس کے جواب میں امریکی سفارت کار نے طنزیہ مسکرا کر بس اتنا کہا،” میں آ پ کے ڈرامے پسند کرتا ہوں”۔

وہ بتاتا کہ السلویڈور میں 1989میں کس طرح امریکی رجمنٹ نے چھ قابلِ قدر ججوں کو یونیورسٹی میں قتل کر دیا۔ آرک  بشپ رومیو کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب اس نے لوگوں سے خطاب کے دوران یہ فقرہ کہا تھاکہ امریکیوں نے75 ہزار افراد کو قتل کیا ہے وہ اپنی تقریر میں ایسے ملک گنواتا ہے جہاں جمہوریت اور آزادی کا نظام نافذ کرنے کے بہانے امریکا نے لاکھوں لوگ قتل کیئے۔ انڈونیشیا، یونان، یوراگوئے، برازیل، پیراگوئے، ہیٹی، فلپائن، گوئٹے مالا، السلواڈور اور چلی۔ لیکن اس کا زورِ بیان افغانستان سے ہوتا ہوا عراق کے قتل و غارت پر اپنے عروج پر پہنچتا ہے۔ میں اس کے انگریزی الفاظ تحریر کر رہا ہوں تا کہ اس کی تلخی کا صیحح تصور کیا جا سکے:

“We have brought torture, cluster bombs, depleted uranioum, innumerable random murder, misery, degradation and death to the Iraqi people and call it bringing freedom and democracy to the middle east”

“ہم نے عراقی عوام کو تشدد، کلسٹر بم، تابکاری یورینیئم ، لاتعداد قتل و غارت کے واقعات، بدبختی، عزت و حرمت کی پامالی اور موت تحفے میں دی ہے اور ہم کہتے ہیں کی یہ سب ہم نے مشرقِ وسطیٰ میں آزادی لانے کے لیے کیا ہے” اس کے بعد وہ پکارتا ہے کہ جنگی جرائم کی عدالت میں امریکا اور اس کے حواریوں کو لے جانے کے لیے اور کتنے مقتول چاہیں، ایک لاکھ، یہاں تو کئی ایک لاکھ لوگ قتل ہو چکے۔ اپنی اس تقریر کے ٹھیک تین سال بعد 31 دسمبر 2008 کو وہ انتقال کر گیا۔لیکن نوبل انعام حاصل کرنے والوں کے ہر سال کے اجتماع میں فضاؤں میں کہیں اس کی تقریر کی گونج آج بھی موجود ہو گی۔ یہ گونج اس وقت بھی موجود تھی جب اسی امریکا اور برطانیہ کی آشیرباد سے ملالہ یوسف زئی نے امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے بعدامریکا اور اس کے حواریوں کے قتل و غارت اور درندگی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طور پر جائز قرار دیا تھا۔

شاید ہیرلڈ پنٹر کی روح اس موقع پر پوری پاکستانی قوم سے زیادہ شرمندہ ہوئی ہو گی۔لیکن ہم کیوں شرمندہ ہوں۔ ہم ملالہ یوسف زئی کو پسند کرتے ہیں۔ ہم تو پہلی جنگِ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم میں وکٹوریہ کراس لینے والوں کو آج بھی عزت و احترام سے دیکھتے ہیں۔ ہماری اسمبلیاں ان لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جن کے آباء واجداد  نے 1857 کی جنگِ آزادی میں افرادی قوت مہیا کی تھی۔ ایک ایک مسلمان باغی کو اپنے شہروں میں قتل کرنے پر چند روپے فی لاش وصول کیئے تھے۔

ہم نے دوسری جنگِ عظیم میں انگریز کی وفاداری دکھانے والوں کو مکھی جھیل سندھ کے آس پاس  زمینیں دی تھی۔ ہم آج بھی اپنے انھی آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں جو KBOE  اور  OBOE  جیسے برطانوی تمغے حاصل کرتے رہے ہم مدتوں اس سپاہی کی یاد میں گلے میں نیلا ربن ڈالتے رہے ہیں جس نے 1857 میں دہلی قلعہ کے دروازے میں گردن دے دی تھی، گردن نیلی ہو گئی تھی لیکن دروازہ کھلا رہا اور انگریز فوج اندر داخل ہو گئی تھی۔

ہمارے رول ماڈل آج بھی برطانوی سول سروس کے وہ وفادار بیوروکریٹ ہیں جنہوں نے یہاں پر ہر اٹھنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے تشدد کیا، پھانسیاں دی، کالے پانی بھجوایا۔ یہ سب ہمارے لیے قابلِ فخر ہیں، ان لوگوں کی  اولادیں ہماری سیاسی اشرافیہ ہیں ہمارے روحانی پیشوا ہیں، ہماری سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔ ہمارے درمیان سے ہیرلڈ پنٹر نہیں ملالہ یوسف زئی ہی جنم لے سکتی ہے یا پھرہم صرف ملالہ یوسف زئی پر فخر کر سکتے ہیں کسی ہیرلڈ پنٹر جیسے پاکستانی پر نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔