شہروں کی چمگادڑیں کہاں جارہی ہیں؟

مرزا ظفر بیگ  اتوار 12 جولائی 2015

اس جدید سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور کام کی رفتار میں تیزی لانے کے لیے مصنوعی روشنیوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔  فوٹو : فائل

اس جدید سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور کام کی رفتار میں تیزی لانے کے لیے مصنوعی روشنیوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ فوٹو : فائل

ماہرین حیاتیات نے جانوروں اور پرندوں پر مصنوعی روشنیوں کے اثرات کا تجزیہ کیا ہے، خاص طور سے انہوں نے چمگادڑوں پر مصنوعی روشنی کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چمگادڑیں رات میں پرواز کے دوران اندھیرے علاقوں سے تو آسانی سے گزر جاتی ہیں، لیکن جب ان کے سامنے شہر کی مصنوعی اور چکاچوند کردینے والی روشنیوں کا سیلاب آتا ہے تو وہ ان مقامات سے کترا کر نکلتی ہیں چاہے اس کے لیے انہیں کتنا ہی لمبا راستہ کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصنوعی روشنیاں چمگادڑ کے سفر میں حائل ہوتی ہیں اور ان روشنیوں کی وجہ سے اس پرندے کو اچھی خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین نے یہ نتیجہ نکالنے کے بعد کہا کہ یہ رجحان چمگادڑوں کے لیے خاصا حوصلہ شکن ہے، کیوں کہ اس صورت میں یہ صرف تیز روشنیوں کی وجہ سے شہروں کو چھوڑ دیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ اب شہروں میں یہ پرندہ دکھائی نہیں دیتا، یہاں اس کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہورہی ہے، گویا آنے والے وقت میں شہروں میں اس کا وجود برقرار نہیں رہ سکے گا اور یہ شان دار اور بے مثال پرندہ شہروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجائے گا۔

ویسے بھی چھوٹے اور بڑے شہروں میں چمگادڑ بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ یہ ویرانے کا پرندہ ہے جو خاموش، ویران اور سنسان جگہوں پر رہنا پسند کرتا ہے، مگر چوں کہ ہم شہروں والے مصنوعی روشنی پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں، کیوں کہ اس کے بغیر ہمارا کوئی کام بھی نہیں ہوسکتا۔

اس جدید سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور کام کی رفتار میں تیزی لانے کے لیے مصنوعی روشنیوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہمارے شہروں میں بلکہ اب تو اگر ہمارے دیہی علاقوں میں بھی مصنوعی روشنیاں نہ ہوں تو سارا نظام زندگی الٹ پلٹ ہوجائے اور آج کے دور کا کوئی بھی زیادہ ضروری یا کم ضروری کام انجام نہ دیا جاسکے۔ لیکن مصنوعی روشنی پر اتنا زیادہ انحصار چمگادڑوں کو شہری علاقوں سے نقل مکانی کرجانے پر مجبور کررہا ہے۔

یہ بے چارہ پرندہ بھی کیا کرے؟ یہ اندھیرے کا پرندہ ہے جو روشنی میں نہیں رہ سکتا، یہی وجہ ہے کہ دیہی اور ویران علاقوں میں بھی یہ اکثر رات میں ہی باہر نکلتا ہے۔ ماہرین نے بجا طور پر کہا ہے کہ مصنوعی روشنیوں کی وجہ سے ہمارے شہری علاقے چمگادڑوں کے لیے ‘ecological dead zones’  بن کر رہ گئے ہیں۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ پرندہ روشن علاقوں میں کیسے پرواز کرسکتا ہے، یہ روشنیاں ہی تو اس کی پرواز کی راہ میں مزاحم ہورہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چمگادڑ کو اپنی خوراک کی تلاش میں رات کو ہی نکلنا ہوتا ہے، لیکن ہم انسانوں نے اپنی ترقی اور آسانی کے لیے راتوں کو بھی دن بنادیا ہے تو اس بے چارے پرندے کی راتیں تو ختم ہوگئیں ناں! پھر یہ رات میں کیسے پرواز کرسکے گا، کیسے اپنے لیے خوراک تلاش کرسکے گا اور کس طرح اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا؟ انسان نے مصنوعی روشنیوں کے سیلاب بہاکر شہری علاقوں کو خود ہی چمگادڑ کے لیے ’’نو گو ایریاز‘‘ بنادیا ہے۔کیا ایسے میں اس کا وجود خطرے میں نہیں پڑے گا؟

ماہرین نے اپنی اس ریسرچ میں چمگادڑ کے علاوہ دوسرے شبینہ جان داروں کو بھی شامل کیا ہے اور ان پر تفصیلی تحقیق کی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگر اس ضمن میں مزید تجربات کرکے ایسی ٹیکنالوجیز دریافت کرلی جائیں، جن کی مدد سے موثر توانائی بھی پیدا ہو اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی کے بجائے مدھم روشنی ملے تو چمگادڑ کے وجود کے لیے فی الوقت کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں ہوگا۔

یہ پرندہ ہلکی اور مدھم روشنی میں آسانی سے پرواز بھی کرلے گا اور اپنے لیے خوراک بھی تلاش کرسکے گا۔شہروں میں ایک بڑا مسئلہ بلند وبالا اور فلک بوس عمارتوں کی تعمیر بھی ہے جس کی وجہ سے پرندوں کو آسانی سے اڑنے کا موقع نہیں ملتا اور ان کی پرواز کی راہ میں کبھی چمک دار بلند عمارتیں آجاتی ہیں تو کبھی تیز روشنیاں ان کا راستہ روک دیتی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہم شہروں کی تعمیر کی پلاننگ اس طرح کریں کہ ان میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پرندوں کو پرواز کے لیے سیدھا راستہ مل جائے تو خاصی سہولت ہوگی۔

ماہرین حیاتیات کہتے ہیں کہ پرندوں کے سفر کا راستہ ایسا ہونا چاہیے کہ ان کے درمیان میں ان کی اپنی آبادیاں ہی آئیں۔ بلند عمارتیں، طویل سڑکیں اور دیگر چیزیں چمگادڑوں کے راستے کو خواہ مخواہ طول نہ دیں۔شہروں کی چمگادڑوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ عام طور سے شام کے اوقات میں ہی خوراک کی تلاش میں اپنی پناہ گاہوں سے نکلتی ہیں۔ ان کی یہ پناہ گاہیں اکثر و بیشتر رہائشی علاقوں میں ہی ہوتی ہیں۔ چمگادڑ باغوں میں پائے جانے والے چھوٹے حشرات الارض کھاتی ہیں۔

اس کے علاوہ چشموں اور ندی نالوں کے کیڑے مکوڑے اور گھاس پھوس یا سبزے میں پائے جانے والے ننھے منے جان دار بھی ان کی خوراک بنتے ہیں۔چمگادڑ کو جن مقامات سے خوراک ملنے کی امید ہوتی ہے، وہ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے عام طور سے درختوں کی قطاروں کے درمیان سے پرواز کرتی ہے، تاکہ اگر کوئی دشمن اس کی گھات میں ہو تو وہ خود کو درختوں کی آڑ میں ہوکر اس سے بچ سکے۔

دوسرے یہ درخت چمگادڑ کو تیز ہواؤں سے بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین نے بھرپور جائزے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ چمگادڑوں کو اپنے سفر کے دوران تیز روشنیاں ملیں تو ان کا سفر مزید جاری نہ رہ سکا اور ناکام واپس لوٹ آئیں۔ خاص طور سے اگر ان کے راستے کے درمیان مصنوعی روشنی کے یہ ٹکڑے زیادہ بڑے تھے تو انہیں بہت دشواری ہوئی، لیکن جہاں مصنوعی روشنی کے یہ ٹکڑے چھوٹے تھے، وہاں چمگادڑوں نے اپنا سفر کسی نہ کسی طرح مکمل کرلیا اور اپنا بنیادی مقصد یعنی خوراک بھی حاصل کرلی۔برمنگھم یونی ورسٹی کے ماحولیاتی سائنس داں جیمس ہیل کہتے ہیں:’’چمگادڑ کی انفرادی خوبی یہ ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، یہی چیز اسے فٹ بھی رکھتی ہے اور اس کے اندر لچک پذیری بھی برقرار رکھتی ہے۔

یہ دونوں خصوصیات چمگادڑوں کی آبادی میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ ہمیں چمگادڑوں کا مطالعہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جتنی کم روشنی ہوگی، اتنی ہی ان کی نقل و حرکت تیز ہوگی، لیکن اگر روشنی زیادہ ہوگی تو ان میں نقل و حرکت مشکل ہوجائے گی اور یہ ان کی آبادیوں کے لیے خطرناک بات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چمگادڑوں کی آبادیوں کو تحفظ فراہم کریں، ان کی آبادیوں کو بچانے کے لیے ایسی مدھم روشنی فراہم کرنے والی ٹیکنالوجی دریافت کریں جس کے بعد اس پرندے کی نقل و حرکت میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی اور یہ شہروں کے درمیان رہتے ہوئے بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا۔‘‘

٭چمگادڑوں کی مستعدی اور پھرتی:
ماہرین نے اپنی تحقیق کے دوران یہ پتا چلایا ہے کہ چمگادڑیں تاریکی میں بھی ایسے غیرمعمولی فضائی کرتب دکھاسکتی ہیں کہ جنہیں دیکھنے والوں کا سانس رک جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے پر نہایت زبردست اور حساس ٹچ سینسرز سے آراستہ ہوتے ہیں۔

ایک چمگادڑ کے پر میں وہ سیلز یا خلیات ہوتے ہیں جو اس کی ہوا کے بہاؤ میں معمولی سی قلابازی یا تبدیلی کی صورت میں بھی جوابی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے یہ پرندہ اپنے اطراف کے مقامات کے مطابق فضا میں ڈبکی یا غوطہ لگاسکتا ہے۔ سائنس دانوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ چمگادڑ کے پروں میں موجود سینسری ریسیپٹرز ہوا کے بہاؤ کے بارے میں دماغ کے نیورونز کو کس طرح معلومات بھیجتے ہیں۔ اس کے بعد چمگادڑ بڑی تیزی سے اپنی پرواز کو کنٹرول کرلیتی ہے اور اپنے توازن کو بھی برقرار رکھتی ہے۔

یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔چمگادڑوں کے حوالے سے جیمس ہیل مزید کہتے ہیں:’’ہم نے اپنا فوکس چمگادڑ کی ایک خاص قسم pipistrelle پر رکھا ہے، مگر ہماری اس تحقیق سے چمگادڑوں کی دوسری اقسام کے برتاؤ کا بھی پتا چلتا ہے کہ وہ مصنوعی روشنی میں کیسے ردعمل کا اظہار کرتی ہیں۔

اس حوالے سے مزید نتائج حاصل کرنے اور کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے، تاکہ دوسری اقسام کی نقل و حرکت کا بھی پتا چلایا جاسکے۔‘‘ماہرین نے اپنے سروے کے دوران تھرمل کیمرے استعمال کیے اور شہر کے متعدد مقامات پر ان درختوں کے درمیان یہ کیمرے بھی لگائے۔ ان کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ چمگادڑیں کس طرح اپنی آبادیوں کے درمیان موجود گیپ کے مسئلے سے نمٹتی ہیں۔ اس سے ماہرین کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ واقعی یہ گیپ چمگادڑوں کے لیے مزاحمت پیدا کررہے ہیں۔جیمس ہیل کا کہنا تھا:’’ہم نے یہ سب دیہی علاقوں میں تو پہلے بھی دیکھا تھا، مگر شہری علاقوں میں یہ کام ہم نے پہلی بار کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہات میں یہ چمگادڑ بڑے مزے سے اڑتی پھرتی ہے، مگر یہ سچ ہے کہ شہر کی تیز اور مصنوعی روشنیاں اپنے ہی علاقوں کو چمگادڑوں کے لیے ecological dead zones بنارہی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات تو سامنے آرہی ہے، مگر کیا عام لوگ بھی اس صورت حال کو سمجھیں گے اور کیا وہ اس کے حل کے لیے آگے آئیں گے؟ ویسے ہمارے زیادہ تر لوگ ایسی چیزوں کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ انہیں اپنی زندگیوں اور صحت کی تو بہت فکر ہے۔

جس کے لیے وہ اس پر بھی اکثر بات چیت کرتے نظر آتے ہیں کہ ایک دن یعنی 24گھنٹے کو کس طرح استعمال کیا جائے کہ اس سے مکمل طور پر استفادہ کیا جاسکے۔ انہیں اپنے آرام کی بھی بہت فکر ہے۔ وہ رات میں اپنی پرائیویسی اور نیند میں خلل برداشت نہیں کرسکتے، مگر چمگادڑ جیسے جانور کی زندگی اگر متاثر ہوتی ہے تو ہوتی رہے، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔‘‘

اس تحقیقی مطالعہ کی شریک مصنف لانچسٹر یونی ورسٹی کی گیما ڈیویس کا کہنا ہے:’’ہم نے شہروں میں جلنے والی مصنوعی روشنی کے حوالے سے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم کو استعمال کیا اور تمام ڈیٹا بھی جمع کیا۔ ہم نے درختوں کے درمیان فاصلوں کے اعداد وشمار بھی جمع کیے، کیوں کہ درختوں کے درمیان اگر زیادہ فاصلے ہیں تو ان کی آڑ میں چمگادڑیں نسبتاً تاریکی میں سفر کرسکتی ہیں، لیکن اگر فاصلے کم ہیں تو انہیں اپنی نقل و حرکت میں دشواری پیش آتی ہے۔

اس کے بعد ہمارا اگلا مرحلہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی اس ریسرچ کے مکمل نتائج مع اعدادوشمار چھوٹے اور بڑے شہروں کی منصوبہ بندی کرنے والے اداروں کو دیں گے اور وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ کن کن مقامات پر چمگادڑوں کی آبادی کم ہے اور کن کن ایریاز میں مصنوعی روشنی زیادہ ہے اور کہاں کہاں یہ روشنی کم ہے۔ اس کے بعد یہ ادارے شہروں کی پلاننگ کرتے ہوئے روشن گلیوں اور سڑکوں پر شیڈز لگائیں گے جس سے روشنی کسی حد تک مدھم ہوجائے گی اور چمگادڑوں کو اپنی پرواز میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ درختوں کے درمیان فاصلے بھی کم کیے جائیں گے، کیوں کہ درخت چمگادڑوں کے لیے سب سے بہترین آڑ اور بہت اچھی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔‘‘

چمگادڑ ہمارے ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ جنگلوں اور ویرانوں میں تو پائی جاتی ہی ہے، مگر چھوٹے اور بڑے شہروں کے تاریک حصوں میں بھی ملتی ہے۔ لیکن اب ہمارے شہروں سے چمگادڑیں غائب ہونے لگی ہیں جس کی ذمے دار شہروں کی مصنوعی روشنیاں ہیں۔ اس طرح تو ہم اس پرندے سے محروم ہوجائیں گے اور جلد ہی یہ بھی معدومیت کا شکار ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چمگادڑ کے تحفظ کے لیے فوری اور ہنگامی اقدامات کیے جائیں، یہ ہمارے ماحولیاتی نظام کے لیے ناگزیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔