یہ تو ہونا ہی تھا

جاوید قاضی  ہفتہ 29 اگست 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جب سندھ کا دارالحکومت دبئی بن جائے۔ جب ہنڈی کا کاروبار عام ہوجائے، لوگوں کے ترقیاتی فنڈ ہتھیا کے کوئی کھسک جائے، بھوک سے بلکتے لوگ، افلاس کے مارے لوگ بنا اسکولوں کے صحت کے اداروں کے، گندی گلیوں کے ابلتے نالوں سے گندا پانی نکل کر پھیلے، سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہوں، بھتہ خوری اور قبضہ گیری ہو، اور پھر جب آپ پر کوئی ہاتھ ڈالے اور پھر وہ جنھوں نے آپ کو ووٹ دے کر ایوانوں میں پہنچایا ہو وہ تالیاں بجائیں، اس پر تعجب کرنے والی کون سی بات ہے۔

ذرا ایک رہائشی اسکیم قائم علی شاہ بتا دیں جو غریبوں کے لیے عوامی حکومت نے نکالی ہو؟ ذرا ایک اسکول بتا دیں اس محکمہ تعلیم کا جس کے لیے 150 ارب ہر سال مختص کیے جاتے ہیں، جو صحیح طرح کام کر رہا ہو، کوئی اسپتال، کوئی اور ادارہ جس کا غریبوں سے بالواسطہ یا براہ راست تعلق ہو؟ امیروں کے اسپتال کی طرح کام کرتے ہیں۔

ان کے بچوں کے اسکول دیکھیں ہر چیز جو ان کے لیے ہے عمدہ کام کرتی ہے اس لیے کہ وہ ہر چیز خرید سکتے ہیں، یہاں تک کہ انصاف بھی کیوں کہ اچھے وکیل پیسوں سے ملتے ہیں۔ اور اب جب عتاب آیا ہے یا قضا آئی ہے یا پھر یہ کوئی مکافات عمل ہے تو دیکھیں اس بار ان عام لوگوں کو چپ سی لگی ہے۔ ان کو کوئی فکر نہیں کہ اس بے نظیر بھٹو کی پارٹی میں اب کوئی رہتا ہے یا نہیں رہتا ۔ بے نظیر بھٹو کی پارٹی، ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی، بلاول بھٹو کی پارٹی نہ بن سکی۔

بختاور اور آصفہ کی پارٹی نہ بن سکی۔ کیسے ممکن ہے بے نظیر بھٹو کے یہ بچے نہ جانتے ہوں کہ ان کیخاندان نے کیا کیا نہیں کیا۔ لوٹو، عیش کرو اور مزے اڑاؤ۔ نہ تھا کچھ تو غریبوں کے لیے کچھ نہ تھا۔ الٹا جو ان کے لیے تھا وہ ہی لوٹا گیا۔ تعلیم کے لیے رکھے فنڈ، ان کی صحت کے لیے رکھے فنڈ، ان کے کھیلنے کے میدان، ان کی گلیوں کے لیے مختص پیسے لوٹے گئے اور ڈکار مار کے جئے بھٹو کا نعرہ لگا کے چل دیے۔ لگ بھگ ایک ہزار ارب ساتویں مالیاتی ایوارڈ میں ان سات سالوں میں سندھ کے نئے مسئلے کہاں گئے؟ نہ میٹرو بس آئی نہ موٹروے، نہ آبپاشی کا نظام بہتر ہوا، نہ بند مضبوط ہوئے، تو پھر یہ تو ہونا ہی تھا۔

اب کون کافر مانے گا سندھ میں ان کی حکومت ہے اس طرح تو بھٹو نے بھی بلوچستان و سرحد کی حکومت کے ساتھ نہیں کیا تھا، جس طرح آج ان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ یہ ایک زاویہ ہے اس لیے کہتے ہیں جب عوامی حکومتیں لوگوں سے کٹ جاتی ہیں تو پھر ایسی وارداتیں ایک فطری عمل ہے۔

یہ Legitimacy کا سوال ہے۔ عوام میں اپنی مقبولیت کھو دینا خود آپ کی Legitimacy کو چیلنج کرتا ہے۔ پھر کیوں نہ آپ نے پانچ سال پورے نہ کیے ہوں جس کا آپ کو Legitimated مینڈیٹ حاصل ہو۔

ٹھیک ہے خورشید شاہ صاحب یہ کہتے ہوں کہ اگر آصف علی زرداری پر ہاتھ اٹھایا گیا تو پھر وہ جنگ کا اعلان کریں گے۔ ان کے لیے فیض کا یہ نسخہ کافی ہے ’’تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی جس میں رکھا نہیں ہم نے ابھی تک قدم۔‘‘ میرا سوال ایک اور بھی ہے کہ وہ جنگ اگر فرض کر لیں، کریں گے بھی تو کون لڑے گا وہ جنگ؟ اب کوئی نہ جیالہ رہا نہ یہ پارٹی پاکستان میں یکساں مقبول رہی۔ کل ملا کے ایک دیہی سندھ ہے ، ’’اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے۔‘‘ وہ سندھ جب بے نظیر ماری گئی تھی توہر طرف  آہ و فغاں تھی،  بین تھا ، سندھ ماتم کدہ تھا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا جب نیشنل ہائی وے پر سناٹا تھا۔

مجھے نہیں لگتا کہ کسی اور نے ان کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ان کی موجودہ قیادت کی سطحی سوچ نے اس مقام پر پہنچایا  ہے۔پیپلز پارٹی کی قیادت کو پلاٹوں، ڈالروں، ہاؤسنگ اسکیموں سے زیادہ کچھ دیکھنے میں ہی نہیں آیا۔ان کو ہر وہ شخص پارٹی میں عزیز تھا جس میں ذاتی نوکر بننے کی صلاحیت تھی۔ جس کی کوئی انا نہ تھی۔ اور ان کو بیوروکریسی میں بھی ایسے لوگ چاہیے تھے، چمچوں اور چاپلوسوں کی ایک طویل فہرست تھی۔ ہر چیز پر کمیشن، سارے تبادلے و تقرریاں کمیشن پر اور پھر ہنڈی کے ذریعے یہ کمائے پیسے لانچوں کے ذریعے دبئی میں۔ پاکستان کی تباہی دبئی کو راس آگئی۔

یہاں سے جو بھی دبئی گیا ان میں 80 فیصد کالے دھن والا گیا۔ یہ لوگ بینکوں کے ذریعے پیسے نہیں بھیجتے اس سے ان کے خلاف شواہدات بنتے تھے۔ وہ واردات کرو اور واردات مٹاؤ کے قائل تھے۔ یہ سب بھٹو کے نام پر ہوتا تھا وہ بھٹو جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اب ان کے حقیقی وارث جس میں مرتضی اور شاہنواز کی اولادیں آتی ہیں پریشان حال ہیں اور یہاں زرداری بمع سردار زرداری مزے لوٹ رہے ہیں۔

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک، اب اگر پارٹی بھسم ہو بھی جاتی ہے تو اس سے لوگوں کو کوئی غرض نہیں۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ جس طرح اب پارٹی وڈیروں کی رہ کر ہوگئی ہے اب اس کے لیے ضروری بھی یہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے جوتوں تلے رہے تو بہتر ہے اور اگر اس پارٹی نے تھوڑی بھی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کی کوشش کی تو بجائے یہ کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجائے اس کے برعکس وہ خود ریزہ ریزہ ہوسکتی ہے۔

کیونکہ یہ وڈیرے اس لیے زمینیں نہیں رکھتے کل ان کا پانی بند ہوجائے، زمینوں پر قبضہ ہو وہ پارٹی میں اس لیے ہوتے ہیں کہ ایسی پارٹی اقتدار میں ہوگی اور اقتدار سے وہ اپنی زمینیں بچا سکیں گے بلکہ سرکاری زمینوں پر قبضہ بھی کرسکیں گے۔ تبادلے کروا کے کمیشن بھی کمائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے گلشن کا کاروبار ایک ایسی پارٹی سے ہے جو صرف اور صرف اقتداری سیاست کرے۔

یہ دکھ کی بات ہے کہ جنرل راحیل آج کل ان سیاسی لیڈروں سے زیادہ عوام میں مقبول ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی قیادت میں فوج نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ لوگوں کو اس لیے ریلیف ملا ہے۔ اس لیے کرپشن کے نام پر یا دہشت گردی کے نام پر جو بھی کارروائی ہو رہی ہے اس کو عوام کی تائید حاصل ہے۔

یہ دکھ کی بات اس لیے ہے کہ کس طرح سیاستدانوں کی نالائقیوں نے اس ملک کو ایک مرتبہ اس نہج پر کھڑا کردیا ہے کہ ملک میں مارشل لا یا ’’کو‘‘ آنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ دھرنے کے زمانوں میں یہ جنرل راحیل خود تھے جنھوں نے ’’کو‘‘ کی مخالفت کی اور وہ اب بھی نہیں چاہتے ہوں گے۔ لیکن کیا خبر مسلم لیگ ن کی قیادت کوئی 12 اکتوبر 1999 والا غلط قدم نہ لے لے۔ مگر جنرل راحیل کبھی بھی اس طرف نہیں بڑھیں گے کیونکہ وہ ایک پیشہ ور سپاہی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ بالآخر ’’فوجی کو‘‘ ایک ایسے بھنور میں پھنس جاتا ہے جس کا انجام ایوب، یحییٰ، ضیا یا مشرف جیسا ہوتا ہے۔

جیسا بھی جس طرح بھی ہو یہ نظام چلتا رہے اور اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ثابت کرے اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہ نظام اس میں مداخلت کرنے سے بہتر نہیں ہوگا بلکہ اور بگڑ جاتا ہے۔ لہٰذا قصور جمہوریت کا نہیں، ان لیڈروں کا ہے جو جمہوریت کو غلط ڈگر پر لے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پھر دہشت گردی کی عدالت سے 90 دن کا ریمانڈ، پھر مخدوم امین فہیم و یوسف رضا گیلانی کے Non Bailable Warrant ، پھر اویس مظفر ٹپی، کاکا وغیرہ کے Red Warrant، خود سندھ کے چیف سیکریٹری کا Bail Before Arrest کروا کے فرائض انجام دے رہے ہیں، کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ سندھ میں قائم علی شاہ صاحب کی حکومت Paralyse ہوگئی۔ اب سارے ادارے رینجرز وغیرہ سے ہدایات لے رہے ہیں۔ میاں صاحب، عمران خان کو فیس کر رہے ہیں۔ کورٹ نے جو فیصلے دینے تھے وہ دے دیے۔

اب حکومت کے اندر حکومت ہے۔ ایک حکومت تحلیل ہو رہی ہے اور دوسری حکومت ظہور پذیر تو کب کی ہوگئی تھی اب مستحکم ہو رہی ہے۔ جب کہ سب کچھ رواں دواں ہے۔ کراچی میں لوگ بہت محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ فوج کبھی بھی بحرانوں میں داخل نہیں ہوتی جب کہ بحران خود اسے دعوت نہ دے رہا ہو۔

لیکن مجھے اب بھی یوں نہیں لگتا کہ سسٹم پٹڑی سے ہٹ رہا ہے۔ ہاں لیکن ’’پارٹی از اوور‘‘ بھٹو کو تاریخ بنانے میں زرداری صاحب کا کارنامہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ اقربا پروری کی ایسی تاریخی مثال جو سندھ حکومت نے پیدا کی ہے ہمیں اس سے پہلے کہیں نہیں ملے گی۔ یقیناً بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی۔ اب یہ پنجاب  تک بھی پہنچے گی۔ جہاں پولیس کو کھلی آزادی ہے جو چاہے وہ کرے ۔ مسلم لیگ ن کی قیادت جی ٹی روڈ سے باہر کبھی نہ آسکی وہ اسی روڈ تک سکڑ کر رہ گئی کیوں کہ طاقت کا سرچشمہ Road آتا ہے جس کو پانے سے ملک پر حکومت کی جاسکتی ہے۔ اس  نے پنجابی بیانیہ Narrative پر خوب کھیلا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ Narrative اٹھتے ہاتھوں کو جو اب ان کی طرف بڑھ رہے ہیں ، روک سکے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔