بچوں کا کیا قصور ؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 30 اگست 2015
advo786@yahoo.com

[email protected]

آج کی دنیا ایک گلوبل ویلیج کی صورت اختیارکرچکی ہے، جس میں رابطوں کی دشواری یا فقدان ہے نہ اب کوئی بات ڈھکی چھپی رہ سکتی ہے، پہلے خاندان، برادری یا معاشرے کی سطح پر جو قانونی، اخلاقی اور سماجی حدود و قیود ہوا کرتی تھیں ان پر عمل کرانے کی ذمے داری بھی یہ ادارے خود ادا کرتے تھے، اب ان کا دائرہ عالمی سطح تک وسیع ہوچکا ہے۔

اب یہ ذمے داریاں بین الاقوامی ادارے اور حکومتیں سر انجام دیتی ہیں جن پر اقوام عالم اور حکومتوں کا اتفاق رائے اور اشتراک عمل دونوں شامل ہوتے ہیں اورکسی خلاف ورزی کی صورت میں یہ بین الاقوامی ادارے اور حکومتیں خلاف ورزی کے مرتکب کسی شخص گروہ یا جماعت کے خلاف عملی اقدامات کرتے ہیں جن میں سرزنش، تنبیہہ، معاشی و سماجی پابندیوں سے لے کر عسکری کارروائیوں تک ہر قسم کے اقدامات شامل ہوتے ہیں اس سلسلے میں عوام اور حکومتوں کی آگاہی و توجہ کے لیے مختلف قسم کے پروگرام اور مہمات شروع کی جاتی ہیں۔

بین الاقوامی دن منائے جاتے ہیں مثلاً انسانیت کا عالمی دن، غلامی اور غلامی کے خاتمے کا عالمی دن، نوجوانوں کا عالمی دن، دیہی خواتین اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا دن، بچیوں کا عالمی دن، بچوں سے مشقت لینے کے خلاف عالمی دن، معصوم بچوں کے خلاف تشدد کا عالمی دن وغیرہ اس سلسلے میں دنیا بھر میں ایسے اداروں اور این جی اوز کا جال بچھا ہوا ہے، جو بڑے وسائل و اختیارات کے ساتھ ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں کی سرپرستی اور تائید بھی رکھتے ہیں۔

لیکن ان سب کے باوجود ان کی جانب سے جو حالات و واقعات اور اعدادوشمار اور رپورٹس شایع کی جاتی ہیں انھیں دیکھ کر بعض اوقات بڑی مایوسی، افسوس اور حیرت ہوتی ہے بلکہ یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ بعض قبیحی، انسانیت سوز اور سفاکانہ قسم کے جرائم جن کا ارتکاب پہلے انفرادی قسم کے یا چھوٹے گروہوں کی جانب سے ہوا کرتا تھا۔

اب ان کے طاقتور مافیا اور بین الاقوامی نیٹ ورک بن چکے ہیں، جن کے سامنے ریاستیں بھی بے بس نظر آتی ہیں مثلاً ڈرگ مافیا، قذاقی، اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ و خرید وفروخت، انسانی اعضا کی خرید وفروخت، جنسی کاروبار کے بچوں اور خواتین کی خرید وفروخت وغیرہ۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق خوراک نہ ملنے پر ہر منٹ 14 سے 16 بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں صرف 30 فیصد آبادی کو معاشرتی تحفظ حاصل ہے بیشتر معاشروں میں نہ تو انصاف ہے نہ غربت پر قابو پایا جا رہا ہے شہری تعلیم و سماجی انصاف جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ 88 فیصد مزدور لیبر قوانین کے عدم نفاذ کے باعث بنیادی حقوق سے محروم ہیں ۔

عالمی ادارہ محنت (ILO)کے مطابق مزدوروں کی صحت کی سہولت کو یقینی بنانے کے لیے ایک کروڑ سے زائد ہیلتھ ورکرز کی ضرورت ہے جن کی عدم دستیابی کی وجہ سے صنعتوں کے محنت کش خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ دنیا کے ایک ارب سے زائد افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، جس میں 40 فیصد بچے ہیں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ طبقاتی نظام اور امیر و غریب کے درمیان وسیع ہوتی خلیج کی وجہ سے اس وقت دنیا کا ہر دوسرا فرد غربت اور ہر چوتھا شخص غربت کی نچلی سطح پر زندگی بسرکرنے پر مجبور ہے۔ ان تمام مسائل و مصائب سے بالواسطہ بلاواسطہ سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔

نومولود بچوں کے اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے لے کر بچوں کا اغوا، اغوا برائے تاوان ، بچوں کی خرید و فروخت اور اسمگلنگ، چائلڈ لیبر اور بیگارکیمپ، اونٹوں کی ریس میں بچوں کا استعمال، گداگری کے لیے بچوں کا استعمال، دہشت گردی اور جنگوں میں بچوں کا استعمال، بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانا اور جسم فروشی پر مجبورکرنا اس قسم کے لاتعداد سنگین، سفاکانہ اور انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ بچوں کے خلاف جاری ہے، بچوں کے ساتھ خاندان سے لے کر معاشرے اور حکومت کی سطح تک ناانصافی، بے اعتنائی اور عدم توجہی و مجرمانہ غفلت خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے۔

اس سلسلے میں والدین و سرپرست، خاندان، معاشرہ، حکومت اور سیاسی و سماجی تنظیمیں اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں ،جس کی وجہ سے بچوں کا استحصال اور ان کے خلاف نااتفاقی و تشدد کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے ردعمل میں اور ویڈیو گیمز اور ڈرامے دیکھ کر ہاتھوں میں کھلونا اسلحہ تھامے بچوں میں بھی تشدد اور خودکشیوں کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے ،کئی نوعمر بچے اپنے ساتھیوں کے قتل اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سندھ ہائیکورٹ میں ایک آئینی درخواست میں بتایا گیا تھا کہ صرف کراچی میں 35 ہزار سے زائد لاوارث بچے ہیں جن میں سے 17 ہزار سے زائد سڑکوں، فٹ پاتھوں اور پارکوں میں سوتے ہیں سیکڑوں جسم فروشی پر مجبور ہیں۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ ان لاوارث بچوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے اقدامات کرے۔

سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے پاس کروڑوں کا بجٹ موجود ہے، ورلڈ بینک اور دیگر اداروں سے ملنے والی رقوم اس کے علاوہ ہیں لیکن اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ اس درخواست پر ہائیکورٹ نے محکمہ سماجی بہبود کو تمام لاوارث بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ان کی کفالت کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس پر بھی کوئی عملدرآمد نظر نہیں آیا۔ اب قصور کے ایک گاؤں میں بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کا اسکینڈل سامنے آیا ہے اطلاعات کے مطابق ایک 25 رکنی شیطانوں کا یہ گروہ گزشتہ 10 سالوں سے اس قبیح جرم میں مصروف عمل تھا۔

جس پر 250 بچوں کے ساتھ جنسی درندگی اور ان کی 400 ویڈیو فلمیں بنا کر اندرون و بیرون ملک فروخت کرنے ان کے ذریعے بچوں کو بلیک میل کرکے پیسہ وصول کرنے،گھروں سے چوریوں پر مجبور کرنے اور ان کے والدین سے بلیک میلنگ کے ذریعے رقمیں وصول کرنے کا الزام ہے۔ وزیر اعلیٰ کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی اور وزیر قانون نے واقعے کی تردید کردی۔ پولیس نے بھی ابتدائی طور پر اتنی بڑی تعداد میں جنسی زیادتی کے واقعات کی تردید کرتے ہوئے اسے زمین کا تنازعہ قرار دے دیا تھا عوامی حلقوں کی جانب سے مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے اور مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اب تک جرم میں نامزد 15 سے 14 ملزمان گرفتار کرلیے گئے ہیں۔

6 نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔ ہائیکورٹ سے ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں بھی مسترد ہوچکی ہیں قصور کیس جہاں پولیس کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے وہیں معاشرے کے اخلاقی انحطاط کی بھی نشاندہی کرتا ہے اس خالصتاً انسانی مسئلے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور سیاسی رنگ دے کر جرم کی نوعیت اور سنگینی کو کم اور کیس مبہم بنایا جا رہا ہے جس کا فائدہ مجرموں کو پہنچ سکتا ہے۔ بہرحال واقعے کی حقیقت اور اس کے مرتکب افراد کا کھوج لگانا اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے اس میں شفافیت اور انصاف کی حکمرانی نظر آنی چاہیے۔

جہلم میں بھی اس قسم کے ایک گروہ کا انکشاف ہوا ہے جو کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کی فلمیں بناکر ان کے خاندان کو بلیک میل کرکے رقمیں وصول کرتا تھا اور فلمیں عام کرکے ان کے خاندان کو بے آبرو کرتا تھا۔ گلگت میں بھی 3 رکنی گروہ سامنے آیا ہے جس نے 3 سو سے زائد گھرانوں کی خواتین کے ساتھ زیادتی کی اور ویڈیو بناکر انھیں اور ان کے خاندان کو بلیک میل کیا ۔ متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ جرائم کے مرتکب افراد کا ان پر دباؤ ہے کہ کوئی قانونی چارہ جوئی نہ کی جائے۔ قصور واقعے کے مرکزی کردار کے بارے میں بھی خبریں آئی ہیں کہ وہ اس کیس کو اچھال کر ملک کو بدنام اور انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے معاملے کو یو این او تک لے جانا اور اس آڑ میں امریکا سیٹل ہونا چاہتا تھا۔

پاکستان میں بعض غیر ملکی قوتیں اور این جی اوز اس قسم کی حرکات میں ملوث رہی ہیں جو جعل سازی، دروغ گوئی اور منفی پروپیگنڈا کرکے ملک و قوم اور اسلامی تشخص کو داغدار کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں جو ملک سے اسلامی تشخص اور روایات اور اخلاقیات کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ بے حیائی کے سائنٹیفک حربے استعمال کرتی ہیں اور ہم جنس پرستی کی مبلغ ہیں اور ایسے شرمناک و قبیح جرائم کی سنگینی کو کم کرکے عوام کو ان سے مانوس کرنے اور قابل قبول بنانے کے مشن پر عمل پیرا ہیں۔ حکومت کو قصور واقعے میں اس پہلو کو بھی خاص طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔