آخری تھیسس

عمران شاہد بھنڈر  منگل 8 ستمبر 2015
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

’’فلسفیوں نے مختلف طریقے سے دنیا کی تشریح کی ہے، اصل کام اس کو تبدیل کرنا ہے۔‘‘ یہ ان گیارہ تھیسس میں سے آخری تھیسس ہے جو ہائی گیٹ، لندن میں کارل مارکس کے نصب شدہ بت پر لکھا ہوا ہے۔

مارکس نے یہ گیارہ تھیسس جرمن فلسفی لڈوگ فیورباخ کی مادیت پسندی کی تنقید پیش کرتے ہوئے 1845 میں لکھے تھے، مگر انھیں اپنی زندگی میں کبھی شایع نہیں کرایا تھا۔ ان کے ساتھی فریڈرک اینگلز نے پہلی بار ان تھیسس کو 1885 میں شایع کرایا تھا۔مارکسی فلسفے میں ان تھیسس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کو سمجھے بغیر مارکسی فلسفے کی تفہیم بہت مشکل ہے۔

ان میں سے آخری تھیسس انتہائی اہمیت کا حامل اور پیچیدہ ہے، اسی میں انقلابیت کا وہ تصورموجود ہے، جو مارکسزم کی بنیادوں میں پیوست ہے۔ سطحی طور پر اس تھیسس کو پڑھ کرکئی سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں۔ کیا واقعی فلسفیوں نے دنیا کی تشریح پیش کی ہے اوردنیا کی تبدیلی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے؟ اس سے بھی بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا دنیا تبدیلی کے عمل سے نہیں گزر رہی ہے؟اگر فلسفیوں کی تشریح تک دنیا تبدیلی کے عمل سے نہیں گزر رہی تھی توکیا جدلیاتی مادیت کے فلسفے کے اصول ہمیشہ سے متحرک نہیں تھے؟ کیا آئیڈیالوجی اور واقعات تاریخی عمل پر اثر انداز نہیں ہوسکتے؟ اگر تاریخ کا بنظرِ غور مطالعہ کریں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ واقعات تاریخی عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

جیسا کہ نائن الیون کے واقعے نے دنیا کو ایک مختلف سمت میں دھکیل دیا تھا۔ مذہبی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر جنگیں بھی برپا ہوتی رہی ہیں۔ فلسفیوں کے فلسفے کی روشنی میں علمیاتی، اخلاقی اور جمالیاتی اقدار بھی متعین ہوتی رہی ہیں۔ بورژوا فلسفوں میں خیالات تاریخی سمت کوشعور اور طاقت کے زور پر متعین کرتے رہے ہیں۔تاہم ان باتوں کا اس تھیسس کی تشریح و تعبیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بہرحال اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے کہ مارکس کے اس تھیسس کا اصل مفہوم کیا ہے اور خود مارکسی فلسفی اس کا کیا مفہوم اخذ کرتے رہے ہیں؟ یہ بات مجھے واضح طور پر محسوس ہوئی ہے کہ مارکسی فلسفیوں نے اس تھیسس سے بہت غلط مفاہیم اخذ کیے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد صرف’ انقلابی‘ تبدیلی ہے۔ جب وہ انقلابی تبدیلی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ’ انقلاب‘ کے مفاہیم کو سمجھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ جاگیرداری سماج کے انہدام اور صنعتی سماج کے ظہور کو وہ انقلابی تبدیلی نہیں سمجھتے، جس کا براہِ راست تعلق سماجی پیداواری عمل اور اس پر جنم لینے والے رشتوں کی انقلابی تبدیلی سے تھا۔

انقلاب ان کے لیے محض ایک واقعہ بن جاتا ہے جو کہیں پچاس یا سو برسوں کے بعد رونما ہوتا ہے، مگر ان پچاس یا سو برسوں کے دوران جو صنعت، تجارت، اجناس کی گردش، ان کے نتیجے میں جنم لینے والے رشتوں میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں، وہ ان کا تجزیہ اس گیارھویں تھیسس کی روشنی میں نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سو برس کے بعد برپا ہونے والی ’انقلابی‘ تبدیلی کے لیے ان انگنت تبدیلیوں کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جو ان سو برسوں میں تسلسل سے عمل میں آتی رہتی ہیں۔

یہ درست ہے کہ فلسفیوں نے دنیا کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے ، لیکن عینیت پسند اور مادیت پسند فلسفیوں سے اہم ترین غلطی یہ سرزد ہوئی ہے کہ انھوں نے انسان کو اس کے فعال کردار میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ عینیت پسندی میں فعلیت کا جو تصور موجود تھا وہ تجریدی نوعیت کا تھا۔وہ پیداواری فعلیت پر مبنی نہیں تھا، اس کی نوعیت یا تواخلاقی تھی یا پھر علمیاتی۔فعال سے مراد یہ کہ جب انسان اپنی بقا کی خاطر شعوری طور پر فطرت کو سماج میں بدلتا ہے، اور اس کے نتیجے میں خود بھی تبدیل ہوتا ہے۔پیداوار کا یہ عمل وہ اکیلے ہی سرانجام نہیں دیتا، بلکہ وہ دوسرے انسانوں کے اشتراک سے اس عمل کوسرانجام دیتا ہے۔

پیداوار انفرادی نہیں ہوتی بلکہ سماجی نوعیت کی ہوتی ہے، جس میں وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتوں میں بندھا ہوتا ہے۔ پیداوار اور ازسر نو پیداوار ان رشتوں کی بھی پیداوار ہوتی ہے۔ نئے رشتے بنتے ہیں، پرانے منہدم ہوجاتے ہیں۔ جاگیرداری سماج میں صنعت کی تشکیل و ارتقا سے نئے رشتے، نئے فلسفے، آئیڈیالوجی اور مذہب کی نئی تعبیریں اس پیداواری عمل کے ارتقا کا نتیجہ ہیں۔

مادیت پسند فلسفیوں نے مادی دنیا کو اولیت دی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مادی یا خارجی دنیا ہی ہے جو انسان کے ذہن میں منعکس ہوتی ہے، لہذا انسان ان کے لیے شعور سے عاری محض ایک مجہول وجود بن کر رہ گیا تھا۔ انھوں نے انسان کے اس عمل، اس کی فعلیت کو نہیں جانا جس کے دوران وہ فطرت اور اپنے وجود کو سماج میں تبدیل کرتا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں جانا کہ سماج اور صنعت حقیقت میں انسان ہی کا خارجی وجود ہیں۔ ایک ایسا خارجی وجود جو اس کی اپنی فعلیت کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ یہی اس تبدیلی کا مفہوم ہے جس کی وضاحت اس آخری تھیسس میں پیش کی گئی ہے۔

انقلابی سے مراد پچاس یا سو برسوں کے بعد رونما ہونے والی ’انقلابی‘ تبدیلی نہیں ہے، بلکہ فلسفے یا نظریے کی شکل میں اس تبدیلی کو جاننا ہے جو انسان کے اپنے عمل ، اس کی اپنی فعلیت کا نتیجہ ہے۔اس تبدیلی کو جاننے کے عمل کا آغاز ہی نظریے کی تشکیل کرنا ہے، یعنی خیال جب اس تبدیلی کے عمل سے جڑتا ہے جو عمل انسان کا اپنا عمل ہے تو نظریے اور عمل کی جدلیات کی تشکیل ہوتی ہے۔ نظریے کی یہی وہ تخفیف ہے جس کا اصل کام اس تبدیلی کے عمل تک پہنچنا ہے۔

تبدیلی کا عمل حقیقت میں ایک انقلابی عمل ہی ہوتا ہے، فلسفے، نظریے میں انقلابیت اسی صورت ممکن ہے جب وہ حقیقی تبدیلی کے عمل کی تفہیم کرے، یعنی تبدیلی کو اس کے تبدیل ہونے کے عمل میں سمجھے۔ نظریہ، فلسفہ جب تبدیلی کو اس کے تبدیل ہونے کے عمل میں سمجھتا ہے تو اس تبدیلی سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔اس طرح عمل اور خیال میں کوئی شگاف نہیں رہتا۔ایک فعال انسان اس کے مرکز میں ہوتا ہے۔

فعال انسان کی فعلیت کی تفہیم ہی سے نظریے اور عمل کی جدلیات قائم ہوتی ہے۔ اس طرح فلسفہ، نظریہ انسان کی اپنی فعلیت سے جڑ جاتا ہے۔ انسانی فعلیت کے ساتھ نظریے اور فلسفے کی یہی تبدیلی ہے جو اسے انقلابیت سے ہمکنار کرتی ہے۔

انسان سماج میں اکیلا نہیں رہتا۔ اس کی ہر پیداواری فعلیت اسے دوسرے انسانوں سے جوڑ دیتی ہے۔مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایک کارخانہ چلاتا ہے یا کوئی شخص بیکری کا مالک ہے تو وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ایک سماجی رشتے میں جڑا ہوا ہے۔ اس صورت میں اس اکیلے انسان کی فعلیت کو نہیں جاننا ، بلکہ اس کی فعلیت کو اس اجتماعی تناظر میں جاننا ہوتا ہے جس سے وہ بندھا ہوتا ہے۔ فلسفے، نظریے کا کام اس تمام سماجی فعلیت کو جاننا ہے جو انسانوں کے باہمی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔

تمام مغربی فلسفے کا بنیادی نقص ہی یہ رہا ہے کہ اس میں حقیقی، عملی ، فعال انسان کو نہیں جانا گیا، اس میں انسان کو یا تو تجریدی طور پر ایک اخلاقی وجود سمجھ لیا گیا ، یا علمیاتی نقطہ نظر سے کائنات کے بارے میں غوروخوض کو فلسفے کا موضوع سمجھ لیا گیا تھا، جب کہ انسان کا اصل مقصد اس کی اپنی عملی فعلیت کو جاننا تھا کہ وہ کس طریقے سے موجودہ سطح تک پہنچا ہے۔مقتدر طبقات یہ چاہتے ہیں کہ انسانوں کو مذہبی،اخلاقی،علمیاتی اور جمالیاتی فلسفوں میں الجھا کر رکھیں۔وہ ہرگز ایسا نہیں چاہتے کہ محنت کش اس فلسفے کا فہم حاصل کریں جو انھیں ان کی عملی فعلیت کا علم دیتا ہے،کیونکہ عملی فعلیت کو جاننے کے عمل میں انقلابیت کا تصور موجود ہے۔

لہذا ’انقلابی، عملی ، فعلیت، تبدیلی‘‘ ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں۔سرمایہ داری نظام ازلی اور ابدی نہیں ہے، جیسا کہ اس کے پاسبان تصور کرتے ہیں۔ یہ تاریخی طور پر متعین ہے،مخصوص مادی ، معاشی اور تاریخی حالات میں تشکیل پایا ہے۔گیارھویں تھیسس کی انقلابیت یہ ہے کہ اس میں سرمایہ داری کے ظہوروارتقا کو جاننے کا تصور موجود ہے۔ سرمایہ داری کو جاننے کا عمل ہی ہے جو مارکسزم کو ایک انقلابی فلسفے کے طور پر پیش کرتا ہے۔

صنعت جو کہ انسان کا خارجی وجود ہے، اس کی اپنی فعلیت کا نتیجہ ہے۔اس تھیسس کی روح کے مطابق سرمایہ داری نظام میں صنعت کو بطورِ غالب طریقہ پیداوار سمجھ کر، اس کے تشکیل کردہ رشتوں کی بنیادوں کو تعقلی طور پر جاننے سے ہی اس انقلابی ’نظریے‘ کی تشکیل ہوئی ہے لہٰذا یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ جاننے کا عمل بھی ایک انقلابی عمل ہی ہوتا ہے، بشرطیکہ اس میں اس عمل کو جانا گیا ہو، جو انسان کی اپنی فعلیت کا نتیجہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔