شاعری اور اچھے برے قارئین

انتظار حسین  پير 21 ستمبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے۔ یعنی کچھ زبان و بیان کا بھی ذکر فکر ہو جائے۔ آخر اردو اب خیر سے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے مطابق زبان کے طور پر نافذ ہوا چاہتی ہے۔ خیر اس کے بارے میں ابھی ہم نے اپنے آپ کو روک رکھا ہے‘ یہ سوچ کر کہ تیل دیکھو‘ تیل کی دھار دیکھو۔ کیونکہ اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔

اس وقت کیا مضائقہ ہے کہ تھوڑا ذکر میرؔ کا ہو جائے۔ ہمارے ایک نقاد کے ہاتھوں میرؔ جی کا ایک شعر ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ اسے لگے ہاتھوں دیکھتے چلیں۔ دلی کی اردو اکیڈمی کا ایک ماہنامہ ’ایوان اردو‘ کے نام سے نکلتا ہے۔ اس کی تازہ اشاعت میں خطوط کے ذیل میں ہم نے دیکھا کہ یہاں ہمارے نقاد ڈاکٹر سلیم اختر نے میرؔ کے بارے میں کچھ خامہ فرسائی کی تھی۔ اسی ذیل میں انھوں نے میرؔ کا ایک شعر یوں نقل کیا؎

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گُل سے میرؔ
میں پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے

یہ شعر پڑھتے ہوئے ہم چونکے کہ ارے گلشن میں تو رنگ گل سے آگ لگ ہی رہی تھی مگر یہاں تو خود میرؔ کا شعر آگ کی زد میں ہے۔

پٹنہ سے ایک خط موصول ہوا۔ مراسلہ نگار منیر سیفی نے دوسرے مصرعہ پر سلیم اختر کی روک ٹوک کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مصرعہ ثانی مجھے اس طرح یاد ہے

میں دیکھ کے پکاری کہ صاحب پرے پرے

ہم ہکا بکا کہ میرؔ کے شعر کے ساتھ یہ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ سلیم اختر کو تصحیح کرنے والا بھی کیا میسر آیا۔ اس نے مصرعہ ثانی میں اپنی طرف سے گل پھول کا اضافہ کر دیا۔ اس مصرعہ میں یہ جو ’میں پکاری‘ کا ٹکڑا لگایا ہے اس پر تو سلیم اختر اور منیر سیفی دونوں ہی متفق نظر آ رہے ہیں۔ آخر یہ ’میں‘ کون بی بی ہے۔ بارہ ماسہ ہوتا تو سمجھ لیتے کہ یہ کوئی برہن ہے جو پکار رہی ہے کہ پرے پرے۔ مگر یہ تو غزل ہے۔ غزل بارہ ماسہ والی برہن سے نا آشنا ہے ہم نے کلیات میرؔ سے رجوع کیا۔ پتہ چلا کہ شعر تو یوں ہے؎

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میر
بلبل پکاری دیکھ کے‘ صاحب پرے پرے

ارے جب گلستان ہو گا اور گل ہو گا تو پھر بلبل ہی کی پکار سنائی دے گی۔ سلیم اختر نے کس کی پکار سن لی کہ رنگ گل کے ہوتے ہوئے شعر بد رنگ ہو گیا۔ یہ غزل میرؔ کے چوتھے دیوان میں ہے۔ اور پوری غزل ہی ایسی ہے کہ خوب سے خوب تر۔ اسے ناخوب بنایا ایک مصرعہ میں ٹاٹ کا پیوند لگانے والوں نے۔

شعر کی ردیف بھی کمال ہے۔ ورے ورے‘

ارے ارے‘ پرے پرے۔ کوئی ثقہ غزل گو اس زبان میں کیوں بات کرنے لگا۔ یہ تو دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بولی جانے والی زبان ہے۔ اور میرؔ ان سیڑھیوں پر بولی جانے والی زبان کے پہلے قائل چلے آتے ہیں اب ذرا غزل ملاحظہ فرمائیے؎

موسم ہے‘ نکلے شاخوں سے پتے ہرے ہرے

پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے

آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے

کیا سمجھیں اس کے رتبہ عالی کو اہل خاک
پھرتے ہیں جوں سپہر بہت ہم ورے ورے

مرتا تھا میں تو‘ باز رکھا مرنے سے مجھے
یہ کہہ کے کوئی ایسا کرے ہے ارے ارے

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے‘ صاحب پرے پرے

ہمارے اردو اخباروں میں تو شعروں کی درگت بنتی ہی رہتی ہے۔ مگر دلی کی اردو اکیڈمی کے پرچے میں میرؔ کے شعر کی ایسی درگت بنے گی‘ یہ توقع نہیں تھی۔

اردو اخباروں میں‘ ٹی وی چینلوں پر ہم آئے دن یارو اغیار کو غالبؔ و میرؔ سے الجھتے دیکھتے ہیں۔ ان سے الجھنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔ شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ یہ بہت باریک کام ہے۔ بلکہ آتشؔ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ

شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

کس باریک بینی سے شاعر ایک ایک لفظ کو پرکھتا ہے اور شعر میں نگینوں کی طرح جڑتا ہے۔ یار کس بے تکلفی سے شعر غلط پڑھتے ہیں اور غلط لکھتے ہیں۔ آدمی کس کس کی زبان پکڑے اور کس کس کے قلم کو روکے۔

ایسے موقعوں پر ہمیں پروفیسر رفیع الدین ہاشمی بہت یاد آتے ہیں انھوں نے کم از کم ہمارے ایک بڑے شاعر کو شاعری کے ساتھ ایسا کھلواڑ کرنے والوں کی دستبرد سے بچا رکھا ہے۔ اقبالؔ کے کسی شعر کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کر کے تو دیکھے۔ فوراً اس کی پکڑ دھکڑ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ خود ہم ان کی گرفت میں آ گئے تھے۔ مگر پھر انھوں نے یہ کہہ کر ہمیں چھوڑ دیا کہ

جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر

اور ہمیں بتایا کہ کیسے کیسے نقادوں اور جانے مانے شاعروں نے اقبالؔ کی شاعری سے ایسا سلوک کر رکھا ہے۔

ہم نے اس فلاحی کام پر ہاشمی صاحب کو بہت داد دی۔ پھر گزارش کی کہ میرؔ اور غالبؔ بھی اس باب میں آپ کی توجہ کے مستحق ہیں۔ ان دو شاعروں کے شعر بھی جا و بے جا بہت نقل کیے جاتے ہیں۔ اور اکثر اوقات غلط نقل کیے جاتے ہیں۔ کیا مضائقہ ہے کہ آپ میرؔ و غالبؔ کے مجرموں کا احتساب بھی اپنے ذمے لے لیں۔ انھوں نے فوراً اپنے کان پکڑے۔ معذرت کی کہ اقبال کے مداحوں سے ہم کس کس طرح نبٹتے ہیں‘ یہ ہم جانتے ہیں یا ہمارا خدا جانتا ہے۔ اور غالبؔ کا معاملہ تو بہت ہی دگرگوں ہے۔ غریب کی جورو سب کی بھابی والا معاملہ ہے۔ جو تیس مار خاں اردو شاعری کے اکھاڑے میں اترتا ہے وہ پہلے غالبؔ سے پنجہ آزمائی کرتا ہے۔ اس خلقت سے عہدہ برآ ہونا بہت مشکل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔