سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت اور سرگودھا یونیورسٹی میں "ڈینگی کی آمد"

اعظم طارق کوہستانی  جمعرات 22 اکتوبر 2015
ڈینگی نامی ہیکر نے رابطے کے لیے فیس بک آئی ڈی بھی دی ہے تاکہ وہ یونیورسٹی کی ویب سائٹ میں موجود کمزوریوں سے آگاہ کرسکے۔

ڈینگی نامی ہیکر نے رابطے کے لیے فیس بک آئی ڈی بھی دی ہے تاکہ وہ یونیورسٹی کی ویب سائٹ میں موجود کمزوریوں سے آگاہ کرسکے۔

جب بڑی مچھلیاں خود کو قانون سے ماورا یا قانون کو اپنی جیب میں سمجھے تو اِسی طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں۔ آپ پاکستان بھر کی سرکاری اور کسی حد تک نجی تعلیمی اداروں کی گہرائی میں جا کر تجزیہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ طالب علموں کے مستقبل کے حوالے سے کیا کھلواڑ کر رہی ہیں۔ جہاں طلبہ تنظیمیں اپنا بھرپور وجود رکھتی ہیں وہاں انتظامیہ کی طرف سے مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں، عام طالب علم کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ طلبہ تنظیم کا حصہ بن کر اپنے مطالبات منواسکے جس میں ناجائرز مطالبات بھی شامل ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر جامعہ کراچی میں کوئی شخص موٹر سائیکل لیکر نہیں جاسکتا، اُس کی وجہ طلبہ تنظیمیں بتائی جاتی ہیں جو دیگر تعلیمی اداروں سے اپنے لوگوں کو بلا کر لڑائی جھگڑے کے لیے افرادی قوت بڑھاتے ہیں۔ لیکن طرف تماشا یہ ہے کہ عام طلبہ اس کے نتیجے میں پِس رہے ہیں جبکہ طلبہ تنظیموں کے کارکنان سیکورٹی گارڈ کو آنکھیں دکھا کر اور رینجرز اہلکاروں کو آنکھ مار کر نکل جاتے ہیں۔ جو بیچارے کسی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے وہ پیدل دور دراز کے شعبۂ جات جانے کے لیے پَر تولتے ہیں۔

یہ صرف ایک مثال ہے اس کے بے شمار مسائل سر اُٹھا کر ہمارے حلق تک آچکے ہیں۔ جب ایک عام طالب علم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو وہ پھر ایسی ہی حرکت کرتا ہے۔ جیسی سرگودھا یونیورسٹی کے ڈینگی نے کی۔

آپ کے سامنے سرگودھا یونیورسٹی کا ایک ٹیسٹ کیس رکھ رہا ہوں اسی طرح کی صورت حال سے ملک کی دو بڑی جامعات یعنی جامعہ پنجاب اور جامعہ کراچی بھی دو چار ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہی صورت حال ہے لیکن نمائندہ جامعات یہی ہیں۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ پچھلے دنوں سرگودھا یونیورسٹی کی ویب سائٹ ڈینگی نامی ایک شخص نے ہیک کرلی ۔ ہیکر نے ویب سائٹ پر اپنا ایک پیغام چھوڑا جس میں یونیورسٹی انتظامیہ پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ ہیکرز نے انگریزی زبان میں تفصیل کے ساتھ یونیورسٹی کی اُن خامیوں کی نشاندہی کی جس سے ایک عام طالب علم متاثر ہوتا ہے۔ ہیکر نے انگریزی میں کیا لکھا اُسے اُردو ترجمے کے ساتھ ملاحظہ فرمائے۔

بُرے نتائج سے بچنے کے لیے میں اپنا تعارف نہیں کروا رہا۔ اس سے پہلے میں نے دوسرے طریقوں (فیس بک اور ای میل) سے اپنا پیغام پہچانا چاہا لیکن انتظامیہ نے فوراً مجھے بین کردیا۔ میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ایچ او ڈی اور طلبہ کو کچھ باتوں سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، جنھوں نے کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کو بدترین جگہ بنا دیا ہے۔ ‘‘

ہیکرز نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے لکھ، ’’کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ میں اساتذہ اپنے تعلقات کی بنیاد پہ بھرتی کیے جاتے ہیں اور پھر نااہل اساتذہ اپنے خطرناک کم علمی سے طلبہ کی زندگیاں تباہ کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی تعلق واسطہ ہے تو وہ بغیر کوئی کلاس لیے بغیر یہاں تک کہ بغیر مضمون کانام جانتے ہوئے بھی 4 جی پی اے لے سکتا ہے۔‘‘

ڈینگی نامی ہیکر اساتذہ کے رویے سے سخت شاکی ہے، وہ ان اساتذہ کے بارے میں لکھتا ہے، ’’آپ کسی استاد سے سوال نہیں کرسکتے، اعتراض نہیں کرسکتے اور کوئی بھی ایسا کام نہیں کرسکتے جو اُنھیں ناپسند ہو، نہیں تو آپ فیل ہوجائیں گے۔ اساتذہ کے ساتھ ساتھ رہنا اور خوشامد کرنا اعلی نتائج کی ضمانت ہے۔ استاد کبھی غلط نہیں ہوسکتا اس لیے آپ درست ہونے کے باوجود غلط ثابت ہوں گے۔ روزانہ ہمیں کافی ساری تعریفیں رٹائی جاتی ہیں اور کچھ اساتذہ تو لکھنے پہ زور ڈالتے ہیں۔‘‘

ہیکر نے اپنے پیغام کے اختتام پر اپنا نام ’’ڈینگی‘‘ ظاہر کیا ہے اور کمال دیدہ دلیری سے اپنا فیس بک اکاونٹ کا پتا دے کر یہ لکھا ہے کہ اس ویب سائٹ کے ڈویلپر مجھ سے اس آئی ڈی کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں تاکہ میں انھیں اس ویب سائٹ کی سکیورٹی کمزوریوں کے بارے میں آگاہ کرسکوں۔ اس ڈینگی مچھر نامی فیس بک پروفائل کو طلبہ کی جانب سے خاصی توجہ مل رہی ہے اور اس جامع میں داخلہ لینے کے خواہشمند کئی طلبہ شدید شش وپنج کا شکار ہیں۔ یونیورسٹی کی جانب سے اب تک اس معاملے پر کوئی خاص رد عمل نہیں آیا جو طلبہ میں شکوک وشبہات کو مزید تقویت دے رہا ہے۔

ڈینگی نامی ہیکر نے رابطے کے لیے فیس بک آئی ڈی بھی دی ہے تاکہ وہ یونیورسٹی کی ویب سائٹ میں موجود کمزوریوں سے آگاہ کرسکے

 

یونیورسٹی آف سرگودھا کا شمار پاکستان کے بڑے جامعات میں ہوتا ہے اس پر ایسے سنگین الزامات ہمارے پورے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہیں۔

حالات بدل چکے ہیں۔ اگر آپ اپنے کام کے حوالے سے دیانت نہیں برت رہے تو اس زعم میں نہ رہیں کہ ہمیشہ یوں ہی ہوگا اور بولنے والا کوئی نہ ہوگا۔ سوشل میڈیا نے ہر آدمی کو طاقت بخش دی ہے اگرچہ یہ بگڑا ہوا ہاتھی ہے لیکن ہے بہت مضبوط جو کسی بھی چیز کو خش وخاشاک کی طرح بہا کر لے جا سکتا ہے۔

کیا آپ سرگودھا یونیورسٹی کے ’’ڈینگی‘‘ کے عمل کو ٹھیک سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی ان کا قلمی نام ہے۔ اصلی نام ’محمد طارق خان‘ ہے۔ نوجوان صحافی اور ادیب ہے۔ آج کل بچوں کے رسالے ’جگمگ تارے‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ بچوں کے لیے اب تک ان کی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔