پولیو کیسز میں 84 فیصد کمی ہوئی،2016تک خاتمہ ہو جائے گا، سائرہ افضل تارڑ

جہانگیر منہاس / شبیر حسین / احسن کامرے  جمعرات 22 اکتوبر 2015
اسلام آباد:ایکسپریس میڈیاگروپ کے زیراہتمام ’’پولیوسے پاک پاکستان ‘‘کے موضوع پرسیمینار سے غفورحیدری،وزیرمملکت سائرہ افضل تارڑ،عائشہ رضا، ڈاکٹرجاوید، مولاناحامدالحق، ڈاکٹرزبیر، ڈاکٹرہارون، اجمل ستارخطاب کررہے ہیں ۔  فوٹو : مدثر راجا

اسلام آباد:ایکسپریس میڈیاگروپ کے زیراہتمام ’’پولیوسے پاک پاکستان ‘‘کے موضوع پرسیمینار سے غفورحیدری،وزیرمملکت سائرہ افضل تارڑ،عائشہ رضا، ڈاکٹرجاوید، مولاناحامدالحق، ڈاکٹرزبیر، ڈاکٹرہارون، اجمل ستارخطاب کررہے ہیں ۔ فوٹو : مدثر راجا

 اسلام آباد: پاکستان نے عالمی ادارہ صحت پر واضح کیا ہے کہ ملک سے پولیو کے خاتمے کیلیے 2015 کی ڈیڈلائن دینے کے بجائے حقیقت پسندانہ ٹارگٹ دیے جائیں کیونکہ موجودہ حکومت کی کوششوں سے ایک سال میں پولیو کیسز کی تعداد میں 84 فیصد کمی آئی۔

ان خیالات کا اظہار وزیرمملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈی نیشن سائرہ افضل تارڑ، وزیراعظم کے انسداد پولیو سیل کی فوکل پرسن سینیٹر عائشہ رضا فاروق، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری، پمز کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اکرم، ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر زبیر مفتی، جے یوآئی (س) کے رہنما و سابق رکن قومی اسمبلی مولانا حامد الحق حقانی اور ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر محمد ہارون نے ’’ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیراہتمام ’’پولیو سے پاک پاکستان‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

گزشتہ سال ملک میں پولیو کے 300 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ رواں سال صرف 38 سامنے آئے ہیں، پولیو کے حوالے سے پاکستان پر بیرون ملک سفر کی پابندیاں عارضی ہیں جو جلد ہٹالی جائیں گی، ملک میں بچوں کو دی جانیوالی پولیو ویکسین ہر لحاظ سے موثر ترین ہے، فاٹا اور خیبرپختونخوا میں پولیو قطرے پلانے کیلیے علمائے کرام کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔

سیمینار کی میزبانی کے فرائض ایکسپریس کے ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے انجام دیے۔ انھوں نے اس سیمینار کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ نے اس سیمینار کا انعقاد لوگوں میں پولیو کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلیے کیا ہے۔ سائرہ افضل تارڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت پوری سنجیدگی کیساتھ پولیو کے تدارک کیلئے دن رات کام کررہی ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم سے لیکر عام پولیو ورکر تک سب کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، پولیو کے خاتمے کا پروگرام ہمارا اپنا ہے، اس کیلیے ایشیائی ترقیاتی بینک نے 300 ملین ڈالر کا قرضہ دیا ہے جو ہم نے واپس کرنا ہے۔

یہ پروگرام ہم خود چلارہے ہیں، اس میں امریکا یا کسی اور ملک کا ہاتھ نہیں، شکیل آفریدی کیس کی وجہ سے ملک میں جاری انسداد پولیو مہم متاثر ہوئی، میں نے امریکی حکام پر واضح کردیا ہے کہ انسداد پولیو جیسے پروگرام کیلیے جاسوسی کا عمل نہ اپنا جائے کیونکہ اس طرز عمل سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ ہم 2016 کے آخر تک پولیو کے مرض پر قابو پالیں گے، گزشتہ سال ملک میں 300 کیس سامنے آئے جبکہ رواں سال ہم یہ فگر 38 پر لے آئے ہیں۔

عالمی ادارے پولیو کے خاتمے کیلیے پاکستان کی کوششوں کے معترف ہیں، حکومت انسداد پولیو پر جتنی رقم خرچ کررہی ہے اتنا کسی اور بیماری پر نہیں لگ رہی، اس کے باوجود ہم نے 43 ملین ڈالر بچائے ہیں، نئے پی سی ون میں بھی کئی ملین ڈالر بچائیں گے، ہماری وزارت میں کرپشن یا بدعنوانی کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا، ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی بار ادویات کی قیمتوں کی جامع پالیسی دی، پاکستان میں ادویات کی 600 کمپنیوں کو صرف 50 لوگ دیکھ رہے ہیں جبکہ اردن میں 50 کمپنیوں کیلیے 600 افراد پر مشتمل عملہ کام کررہا ہے، جعلی ادویات کے خاتمے کیلیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو مکمل اختیارات دیے ہیں، پولیو کے مکمل خاتمے کیلیے ہمیں ساری آبادی کو ٹارگٹ کرنا پڑیگا کیونکہ اس بیماری کا وائرس کہیں سے بھی سامنے آسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت پولیو کے خاتمے کیلیے 2015 کی ڈیڈلائن نہ دے بلکہ حقیقت پسندانہ ٹارگٹ دیے جائیں۔ سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ حکومت نے پولیو کے خاتمے کیلیے ایمرجنسی ایکشن پلان تیار کرکے پورے ملک میں نافذ کیا ہے، پولیو کے حوالے سے پاکستان پر عائد سفری پابندیاں عارضی ہیں جو جلد ہٹالی جائیں گی، پولیو قطروں سے محروم رہنے والے بچوں کو ٹریس کررہے ہیں تاکہ کوئی بچہ ویکسین سے نہ رہ جائے، سینٹ میں مینڈیٹری ویکسین کے نام سے بل بھی پیش کیا ہے، پولیو کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ سازشی عناصر کی طرف پھیلائی جانیوالی مختلف افواہیں اور شکوک وشبہات تھے۔

جن کی بنیاد پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی لگادی گئی، اس سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ بچے پولیو قطروں سے محروم رہ گئے، ہم نے انسداد پولیو پروگرام کوا سٹرٹیجک بنیادوں پر ازسرنو تشکیل دیا ہے، اس حوالے سے پاک فوج، سول سوسائٹی، علماء اور میڈیا کی بھی مدد حاصل کرلی ہے، ہائی رسک ایریاز میں خصوصی ہیلتھ کیمپس بنائے گئے ہیں، وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلیے اضلاع کے داخلی اور خارجی راستوں پر ویکسی نیشن پوسٹیں بھی قائم کی گئی ہیں، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی ویکسی نیشن کیلیے بھی خصوصی مہم شروع کی ہے۔

سول سوسائٹی، خواتین، یوتھ اور میڈیا کی شمولیت کے بغیر پولیو سے پاک پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت پولیو کے خاتمے کیلیے سنجیدہ کوششیں کررہی ہے تاہم فاٹا، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں ہزاروں بچوں کو سرے سے پولیو کے قطرے پلائے ہی نہیں گئے۔ ایک حالیہ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں اب تک 2 لاکھ 45 ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے، اسی طرح سندھ میں 75 ہزار، خیبرپختونخوا میں51 ہزار اور فاٹا میں 60 ہزار بچوں کو ویکسین نہیں دی گئی۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان اور فاٹا کے حالات خراب ہیں لیکن سندھ میں اتنی تعداد میں پولیو کیس کیسے سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیو قطرے پلانے کے حوالے سے حکومت کو علمائے کرام کی مکمل حمایت حاصل ہے، یہ تاثر غلط ہے کہ علما پولیو ویکسین کیخلاف ہیں، میں نے آج تک دنیا کے کسی مذہبی اسکالر کا اس حوالے سے کوئی فتویٰ نہیں دیکھا، مولانا فضل الرحمن نے دس سال پہلے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جو ریکارڈ پر ہے، اس مرض کیخلاف یکجا ہوکر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر زبیر مفتی نے کہا کہ آج دنیا بھر کے125 ممالک میں سے چند ایسے باقی رہ گئے ہیں۔

جہاں اب بھی پولیو پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے جن میں بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں تاہم گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال پولیو کی شرح میں تقریباً 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، ملک بھر کے37 علاقوں سے پولیو کے پھیلاؤ کا باعث بننے والے پانی کے نمونے لئے گئے جس کے مطابق ان میں میں پولیو کی شرح18 سے 19 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال یہ شرح34 سے 35 فیصد تھی، اس وقت دنیا بھر میں پولیو کے کل 56 کیس رجسٹرڈ ہوئے۔

ان میں سے 38 پاکستان میں  رجسٹرڈ ہوئے، ڈیڑھ سال قبل پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے پولیو کے قطروں سے محروم تھے جو اب کم ہوکر صرف 16 ہزار رہ گئے ہیں، سائنٹیفک بیسڈ اسٹرٹیجی کے تحت ملک میں کل 9 انسداد پولیو مہم چلانے ہیں جن میں سے2 مہم کامیابی سے چلا چکے ہیں، آئندہ مہم سب سے زیادہ اہم ہوگی کیونکہ نومبر سے فروری کے دوران موسم سرد ہوتا ہے اورسردیوں کے دوران ویکسین زیادہ موثر ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیو کے خاتمے کیلیے ملک کی لیڈرشپ، پاک فوج، میڈیا، سول سوسائٹی سب نے اہم کردار ادا کیے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ پولیو کوئی نیا مرض نہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ابھی تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے، اس کی بڑی وجہ لوگوں کے ذہنوں میں پولیو قطروں کے حوالے سے پائے جانیوالے مختلف شکوک وشبہات ہیں، پولیو قطروں سے متعلق کہا گیا کہ اس میں سور کی چربی استعمال ہوتی ہے یا اس سے مردانہ کمزوری پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہا گیا کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ٹریس کیا جاتا ہے، خاص طور پر اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا گیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے انھیں پولیو قطرے کے ذریعے ٹریس کیا۔

ان افواہوں کے نتیجے میں کئی علاقوں میں پولیو قطروں پر پابندی عائد کی گئی، پولیو ورکرز پر جان لیوا حملے ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو یونیورسٹی نے ملکی تاریخ میں پہلی بار پولیو وائرس سے متعلق ریسرچ کرنے سمیت دیگر ویکسی نیشن کی تیاری کے بارے میں پی ایچ ڈی کرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں پولیو کیسز کی میپنگ کرکے فیملی جینیٹک پروفائل تیار کیا جائیگا، اس ضمن میں اسلام آباد میں ویکسی نیشن کی تیاری اور ریسرچ کیلیے ہایئر ایجوکیشن کمیشن اور جائیکا کے تعاون سے ایک انسٹی ٹیوٹ بنانیکا بھی معاہدہ ہوا ہے۔

ڈاکٹر ہارون نے کہا کہ حکومتی عہدیدار سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں جو درست بات نہیں، افغانستان میں حالات پاکستان سے بدتر ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں پولیو کیسز کی تعداد کم ہے، نائیجیریا جیسے ملک سے پولیو ختم کردیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں ہرسال وزارت صحت کے دعوؤں کے باوجود مرض ختم نہیں ہورہا، پولیو کے خاتمے کے حوالے سے ول پاور صفر ہے کیونکہ جن باتوں کے دعوے کئے جاتے ہیں وہ عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتیں۔

پولیو ویکسین کے معیار پر کئی سوالات اٹھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر ویکسین موثر ہوتی تو اس کے سو فیصد نتائج سامنے آتے، چکوال فاٹا میں نہیں بلکہ پنجاب میں ہے، وہاں بھی حالیہ دنوں میں پولیو کا ایک کیس سامنے آیا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ حکومت سوائن فلو کی ویکسین کروڑوں روپے خرچ کرکے درآمد کررہی ہے۔

کیا سوائن وائرس پاکستان کا مسئلہ ہے۔ مولانا حامد الحق نے کہا کہ پولیو کے خاتمہ کیلئے قومی اسلامی مشاورتی گروپ  نے فعال کردار ادا کیا، ہرصوبے اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر علماء نے بھی لوگوں کے ذہنوں سے غلط فہمیوں کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے خاتمہ کیلیے علماء سے تعاون حاصل کرکے اچھی حکمت عملی اپنائی، عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ صحت کے پروگرام محض صحت کیلیے استعمال  کریں کیونکہ شکیل آفریدی کیس نے نہ صرف صحت کے پروگرام بلکہ ملک کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیراہتمام ’’پولیو سے پاک پاکستان‘‘ کے عنوان سے سیمینار کے شرکا نے اس موذی مرض کیخلاف شعور اجاگرکرنے پرایکسپریس میڈیاگروپ کی کاوشوںکی بھرپورتعریف کی اورباقی میڈیا گروپس کو بھی ایکسپریس کی طرح ایسے اہم مسائل پر آواز اٹھانے کی ترغیب دی۔سیمینار کی میزبانی کے فرائض ایکسپریس کے ایڈیٹرفورم اجمل ستار ملک نے انجام دیئے جبکہ روزنامہ ایکسپریس کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر راؤ خالد محمود اورچیف رپورٹرارشاد انصاری نے مہمانوں کو خوش آمدیدکہا۔مہمانان خصوصی کی آمد سے قبل ہی مہمانوں سے بھر گیا تھا۔

حاضرین میں سیاسی،سماجی اور مذہبی شخصیات کیساتھ ساتھ طالبعلموں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی، ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری شدید علیل ہونے کے باوجود سیمینار میں تشریف لائے۔ ڈاکٹر محمد ہارون یوسف نے پولیو کا خاتمہ نہ کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے ان کی تنقید کا جواب دینے کیلیے اپنی تقریر کا آغاز حضرت موسیٰؑ کی دعا سے کیا، حاضرین نے دونوں مقررین کو تالیاں بجا کر خوب داد دی۔

سائرہ افضل تارڑ نے جذباتی انداز میں کہا پولیو پر قابو پانا کوئی راکٹ سائنس نہیں لیکن جب تک لوگ بچوں کو حفاظتی قطرے نہیں پلاتے یہ وائرس ختم نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ برطانیہ میں لوگ خود بچوں کو اسپتال لیجاکر ویکسین دلواتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں عملہ گھروں میں جاتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ سستی کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ واحد میڈیا گروپ ہے جس نے پولیو کا مسئلہ اٹھایا جو قابل تعریف ہے۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ اس وقت ملک میں پولیو کے حوالے سے 12 اضلاع ہائی رسک قرار دیے گئے ہیں۔ سمینار میں فاٹا اور خیبرپختونخوا میں پولیو ٹیموں سے تعاون پر علماکا شکریہ بھی اداکیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔