میں نہ مانوں

فاطمہ نقوی  منگل 15 دسمبر 2015
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے دوسروں کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے ہیں۔ نہ مانوں کی عملی تفسیر بن کر بیٹھ جاتے ہیں آج کل تحریک انصاف بھی میں نہ مانوں کی پالیسی پر عمل پیرا ہے 2013 میں ہونے والے الیکشن کو سلیکشن اور پنکچر کا نام دینے والے عمران خان نے دھرنوں کی سیاست کو اپنایا عوام کی بڑی تعداد ان کے ساتھ تھی کیونکہ عوام دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے انداز حکمرانی کو بھگت چکے تھے۔

تحریک انصاف کو تازہ ہوا کا جھونکا سمجھ کر عوام وخاص دونوں نے پذیرائی کی مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے سمجھداری سے اپنے پتے کھیلتے مگر ان کے کارکن آپے سے باہر ہوگئے نہ ہی کسی کا احترام رہا نہ رواداری اور درگزر کی پالیسی کو اپنایا گیا صرف غنڈہ گردی کو معمول بناکر سمجھ لیا گیا کہ اب پاکستان کو فتح کرلیا جائے گا مارکٹائی اور بے ہودہ زبان کا استعمال اتنی وافر مقدار میں کیا گیا کہ ان کی جماعت کو ’ہوا کا جھونکا‘ سمجھنے والا طبقہ بھی اسے گرم ہوا سمجھ کر اپنے دروازے کھڑکیاں بند کر بیٹھا اور شکست سے دوچارکردیا مگر ان کا وطیرہ بن گیا کہ اتنا واویلا کرو کہ جھوٹ سچ لگنے لگے یہ جہاں سے جیت جائیں تو وہاں منصفانہ الیکشن اور جہاں سے ہار جائیں وہاں دھاندلی کے الزامات مگر آج کا ووٹر بڑا سمجھدار ہے ۔

کسی کی باتوں میں آنے والا نہیں حتیٰ کہ میڈیا کی آگاہی کی وجہ سے بچوں میں بھی اچھا برا (سیاست کو سمجھنے کی صلاحیت) سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے، ہمارے گھر میں مریم بہت چھوٹی اسکول کی طالبہ ہے مگر وہ بھی سیاسی شعور اور ماہرانہ تبصروں کی ماہر ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر ایک کی کردار کشی کرکے سمجھ لینا کہ ہم نے دنیا فتح کرلی تو اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہر کوئی آپ کے پھیلائے ہوئے جال میں آجائے۔

آج جو حالات مقدر بنے ہیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سے کہاں ایسی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں کہ ہم اپنے ووٹر کو گھروں سے نکال کر نہیں لاسکے آج علی زیدی کہتے ہیں کہ ووٹ دینے والوں کو شرم آنی چاہیے آپ کو ووٹ دیں تو ووٹر اچھے اگر اپنی مرضی سے کسی کو ووٹ دے دیے گئے تو گناہ۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ انصاف کے ترازو ہی ٹوٹ گئے الیکشن سے پہلے صرف مفادات کی خاطر ایسا اتحاد تشکیل دیا گیا کہ بیچ چوراہے پر ہی قائدین ایک دوسرے کو راہ میں اکیلا چھوڑ گئے ۔

کہاں تک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے اپنے ہی کارکنوں کے ہاتھوں انڈے اور ٹماٹر کھانے والے آج ووٹرکو باتیں سنا رہے ہیں ۔کھسیانی بلی کھمبا نوچے یہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اندر سے وہی وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری کے پرستار ہیں کہ کراچی کے عوام نے اپنی مرضی سے فیصلہ کیسے کرلیا ان کے چرنوں میں کیوں نہ بیٹھ گئے شرم تو ایسے لوگوں کو آنی چاہیے جو دو چار سیٹیں لے کر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔

یہ دھاندلی کا الزام ووٹر کے تقدس کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ رینجرز کی انتھک محنت اور کوششوں کو مشکوک بنا رہا ہے۔ آج رینجرز کی حمایت میں نہ بولنے والے یہ نہیں سوچ رہے کہ ایسے الزامات سے رینجرز کی انتھک اور دن رات کی محنت پر پانی پھیر رہے ہیں رینجرز نے دن رات کی کوششوں سے اس الیکشن کو ممکنہ حد تک صاف اور شفاف بنایا مگر اس طرح کی باتیں کرنے والے فوج کی کارکردگی کو نشانہ بناکر معلوم نہیں کون سا گیم کھیل رہے ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی ہے مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں اسی لیے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کو چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں کو خود تلاش کریں اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں کیونکہ وفاق کے لیے پیپلز پارٹی سے زیادہ موزوں کوئی جماعت نہیں، پیپلز پارٹی کا ایک مشن ہے ایک وژن ہے بس اس کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے ماضی میں ان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان غلطیوں کا ازالہ نہیں کیا جاسکے کرپشن کے متعدد الزامات کے باوجود یہ ہنر صرف پیپلز پارٹی ہی کا ہے کہ اس نے دشمن ملک سے تجارتی روابط نہیں بڑھائے آج دوسروں کو غدار اور ملک دشمن کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کو تباہ کرنے کی خواہش رکھنے والا ملک پسندیدہ کیسے بن سکتا ہے ۔

عزت و وقار کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہماری سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھانے والے کی آنکھیں ہی نکال کر رکھ دی جائیں ہاں دوستانہ ماحول کی بہتری کے لیے دونوں ممالک میں تعلقات استوار ہونے چاہئیں مگر عزت و وقار کو بیچ کر نہیں مگر جہاں تاجرانہ مفادات سامنے ہوں وہاں قومی مفادات پس پشت چلے جاتے ہیں تو پھر سرحدوں کی حفاظت کے ذمے داروں کو ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی بیرون ممالک میں جو تھوڑی بہت عزت ہے اس کے ذمے دار سیاست دان نہیں بلکہ ہماری فوج ہے جو ہر جگہ دامے درمے سخنے اپنے ملک کے لیے اپنی جان نچھاور کر رہی ہے پاکستانی فوج کی طاقت ہے جو دشمن کو سو بار سوچنا پڑے گا کیونکہ قوم کا سپہ سالار جاگ رہا ہے ۔

پاکستان کو اس وقت چاروں طرف سے خطرہ ہے ایسے نازک موقعے پر ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگیں گھسیٹنے کی جگہ ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مغربی ابلاغ عامہ کے ذریعے متواتر ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جو مغرب میں ہونے والے ہر واقعے میں پاکستان کو ملوث کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ ایسے نازک موقعے پر ہمارے میڈیا کو بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کی طرف لگنے والے الزامات کا منہ توڑ جواب دے نہ کہ ثابت کرنے کی کوشش کرے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں خدانخواستہ پاکستان نہ رہا تو ہم سب کٹی پتنگ کی طرح ادھر ادھر ڈولتے رہیں گے کیونکہ پوچھنے والا نہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔