’ ڈھاکا، جو میں نے دیکھا ‘

اصغر عبداللہ  منگل 22 دسمبر 2015
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

طارق عزیز صاحب ریڈیو، ٹی وی، فلم اور سیاست کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ پچھلے سال یہی دسمبر کا مہینہ تھا۔ ان کے گھر، دارالمطالعہ میں ان کی یادوں کی محفل سجی تھی اورچائے کا دور چل رہا تھا۔ میں ہمہ تن گوش تاریخ کی صداے بازگشت سن رہا تھا۔ مغربی پاکستان سے ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت میں جو پہلا وفد شیخ مجیب الرحمٰن سے مذاکرات کے لیے مشرقی پاکستان گیا تھا ، طارق عزیز صاحب بھی اس کا حصہ تھے۔ ان دنوں وہ سرخ انقلاب کا خواب دیکھنے والے نوجوان ہوا کرتے تھے۔ میں ان کے فوٹو البم میں اس تاریخی دورے کی انتہائی نایاب تصویریں دیکھ رہا تھا۔

یہ بڑی کشیدگی کا زمانہ تھا ، ڈھاکا میں آپ کے وفد کا استقبال کس طرح ہوا ؟میں نے بات چھیڑی۔ طارق عزیزصاحب نے فوٹو البم اس طرح کھلا ہی ایک طرف کو رکھ دیا  اور کہنے لگے،’ ہاں بڑی جذباتی فضا تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ڈھاکا ائرپورٹ پر اترتے ہی مجھ سمیت کچھ دوستوں نے، اس اندیشے کے پیش نظر کہ کوئی بھٹو صاحب کو نقصان نہ پہنچا دے، ان کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ اس طرح کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہم نے ان کے اردگرد حفاظتی زنجیربنا دی تھی،کوئی جس کے بیچ میں سے گزر نہیں سکتا تھا۔ اس ترکیب سے بھٹو صاحب تو محفوظ ہو گئے لیکن دھکم پیل میں جیب کترے بڑی آسانی سے ہماری جیبیں صاف کر گئے۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ  اپنی جیبوں پر نہیں رہ سکتے تھے۔ اس طرح جیبیں گویا خود سے جیب کتروں کو دعوت نظارہ دے رہی تھیں۔ میرا پی آئی اے کا ٹکٹ بھی جا چکا تھا۔ ائرپورٹ سے نکل کر شاد باغ ہوٹل پہنچے، جہاں ہمارے رہنے کا سرکاری بندوبست کیا گیا تھا، تو ادھر کچھ اخبارنویس بھی آگئے۔

میں نے تمام دوستوں کی طرف سے اخبارنویسوں کو بتایا کہ ڈھاکا ائرپورٹ پر اترتے ہی یہ واردات ہمارے ساتھ ہو گئی ہے، مگر میں انکو ’چور‘ نہیں کہوں گا، ہو سکتا ہے واقعی وہ ضرورت مند ہوں۔  پھر میں نے کہا کہ جن صاحب نے میری جیب صاف کی ہے، میں ان سے اپنی رقم واپس نہیں مانگتا، وہ اس سے اپنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، لیکن براہ کرم میرا ٹکٹ واپس کردیں، یہ ان کے کسی کام کا نہیں ہے۔ اگر وہ صاحب مجھ پر اپناچہرہ ظاہرکرنا نہیں چاہتے، تو یہ ٹکٹ کسی لفافے میں ڈال کر ریشن پر دے جائیں، میں ان کا بے حد شکرگزار ہوں گا۔ صبح کے اخبار میں میری یہ بیان شایع بھی ہوگیا۔ عرض تو میں نے گزاردی تھی لیکن کچھ زیادہ پرامید نہیں تھا۔ لیکن ہوا یوں کہ شام کو کسی کام سے باہر نکلنے لگا تو ریسیپشنٹ نے مجھے روک کر کہا، سر، کچھ دیر پہلے کوئی صاحب آپ کے لیے یہ بند لفافہ دے کر گئے ہیں۔ دھڑکتے دل سے لفافہ کھولا، اندر میرا ٹکٹ۔ میں نے کہا، جیتا رہ۔ معلوم ہوا کہ  پڑھا لکھا چور تھا، بلکہ اخبار بھی پڑھتا تھا۔‘

بھٹو صاحب اور شیخ مجیب کے درمیان مذاکرات کی اندرونی کہانی کیا تھی ؟ میں نے طارق عزیز صاحب کو ائرپورٹ اور ہوٹل سے نکال کر مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی۔ ’یہ بھی تم نے عجب کہی، مذاکرات کی اندرونی کہانی؟‘ انھوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا ، اور دریاے بوڑھی گنگا کی تصویر کی طرف دیکھا اور بغیر اس سے نظریں ہٹائے کہنے لگے، ’ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ دریاے بوڑھی گنگا ہے۔ یہ اس کی لہروں پر ایک اسٹیمر رواں دواں ہے۔ اس پر ایک طرف شیخ مجیب اور ان کی ٹیم، دوسری طرف بھٹو صاحب اور ہماری ٹیم بیٹھی ہے۔گنگا کی لہروں کے دوش پرباہمی مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ لیکن بمشکل بیس پچیس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک چھوٹی سی کشتی ہمارے اسٹیمر کے ساتھ آ کے لگتی ہے۔ دیکھتے دیکھتے بھٹو صاحب اور شیخ مجیب اترکر اس میں سوار ہوجاتے ہیں۔ کشتی میں ان کے دونوں کے سوا  اورکوئی نہیں۔ یہ کشتی بھٹو صاحب اور شیخ مجیب کو لے کر آہستہ آہستہ اسٹیمر سے کچھ دور چلی جاتی ہے۔ بوڑھی گنگا کی لہروں پر منظر یہ ابھرتا ہے کہ اِدھر اسٹیمر جا رہا ہے جس پر پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ کی مذاکراتی ٹیمیں بیٹھی ہیں، اُدھر کچھ فاصلے پرکشی جا رہی ہے جس پر بھٹو صاحب اور شیخ مجیب بیٹھے ہیں۔

کشتی پر بات چیت کرتے ہم ان کو دیکھ تو سکتے ہیں مگر سن نہیں سکتے۔ ان کے چہرے الجھی ہوئی صورت حال کے غماز ہیں۔ آدھ پون گھنٹہ اس طرح گزر جاتا ہے۔ دونوں طرف کی ٹیموں پر اضطراب طاری ہے۔ یکایک اسٹیمر واپس مڑتا ہے۔کشتی بھی واپس  ہو جاتی ہے۔ ساحل کی طرف آتے ہوئے کہیں آدھے راستے میں کشتی دوبارہ اسٹیمر کے ساتھ آکے لگ جاتی ہے۔ بھٹو صاحب اور شیخ مجیب کشتی سے اتر کر اسٹیمر میں واپس آجاتے ہیں۔ دریاے گنگا کے دوش پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے ان دونوں رہ نماوں کے درمیان اس روز کیا طے ہوا ، یہ وہی جانتے ہیں ، یا خدا جانتا ہے۔ ہم اسی پر یقین کرتے ہیں، جو بھٹو صاحب نے ہمیں بتاتے ہیں۔ شیخ مجیب کے ساتھیوں کا بھی یقیناً یہی حال ہے۔ یہ ہے بھٹو مجیب مذاکرات کی ’اندرونی کہانی‘ یعنی ہم جو ہزار میل کا سفرطے کرکے ڈھاکا پہنچے ہیں ، اور اسٹیمر میں ان کے ساتھ بیٹھے ہیں، وہ بھی’ اندرونی کہانی‘ سے بے خبر ہیں۔ لیکن یہ میں آج یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بھٹو صاحب اور شیخ مجیب کے درمیان جو کچھ بھی طے ہوا ، اس روز اس کشتی میں طے ہوا ، باقی سب کہانیاں ہیں۔

اس کے بعد ایک دوسرا وفد بھی ڈھاکا گیا تھا ، اس کے ساتھ آپ نہیں گئے، اس کی وجہ ؟ طارق عزیز صاحب کی یادوںکی کشتی اب کسی رواںجوئے آب میں بہہ رہی تھیں۔’ ڈھاکا جانے کے لیے میاں محمود علی قصوری کی قیادت میں جو دوسرا مذاکراتی وفد تیار کیا گیا ، میرا نام اس میں بھی شامل تھا۔ مجھے چونکہ اس وفد کی بے اختیاری کا علم تھا ، لہٰذا میں اس کے ساتھ جانے سے بچنا چاہتا تھا۔ روانگی میں ابھی تین چار روز تھے۔ میری دائیں یا بائیں آنکھ پران دنوں چھوٹی سی پھنسی نکلی ہوئی تھی۔ میں نے قصوری صاحب سے کہا ، میری آنکھ میں شدید درد ہو رہا ہے۔ میں پہلے اپنے ڈاکٹر سے پوچھ لوں کہ ایسی حالت میں سفر کر بھی سکتا ہوں یا نہیں۔ دوسرے روز جب میں قصوری صاحب کے پاس گیا تو میری آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ میں نے کہا ، بندہ پرور خود ہی دیکھ لیجیے کہ کیا اس حال میں آپ کے ساتھ سفر پرجا سکتا ہے۔ قصوری صاحب کایاں سیاست دان تھے، سمجھ گئے کہ یہ جانا ہی چاہتا ہے۔ کہنے لگے، ٹھیک ہے ، تم آرام کرو ۔ میں نے بھی شکر کیا کہ جان چھوٹی۔‘

پیپلزپارٹی کے اندر مشرقی پاکستان کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال کو کس طرح دیکھاجا رہا تھا، بطور سیاسیی ورکر کے ، آپکی راے کیا تھی ؟ طارق عزیز صاحب نے البم میں لگی بھٹو صاحب اور شیخ مجیب کی اکٹھی تصویر کی طرف دیکھا ، نظر اٹھائی اور ٹھہرے ٹھہرے لہجہ میں کہنا شروع کیا، ’ ان دنوں پیپلزپارٹی کی اندرونی میٹنگوں میں بھٹو صاحب کو یہ صلاح دینے والے بہت تھے کہ چیئرمین صاحب ،کل کس نے دیکھا ہے، یہ موقع جو  آپ کے ہاتھ لگا ہے ، اس کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں۔ میں اور معراج محمد خان مگر ان لوگوں میں شامل تھے ، جن کی راے  اس کے برعکس یہ تھی کہ شیخ مجیب کے پاس بنگالیوں کا بہت بھاری مینڈیٹ ہے۔ اس وقت اگر ان کو روکا گیا تو پاکستان کو بہت نقصان ہو گا۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ شیخ مجیب جن جذباتی نعروں کی بنیاد پر جیتے ہیں، بطور وزیراعظم ان نعروں کو عملی جامہ پہنانا ان کے لیے مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ لہٰذا بھٹو صاحب کو بہت جلد دوبارہ بروئے کار آنے کا موقع مل جائے گا۔ ہماری یہ صدا مگر صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ بھٹو صاحب ’ اب یا کبھی نہیں‘ کی ذہنی کیفیت میں بہت دور جا چکے تھے۔‘

کہانی اختتام کے قریب تھی۔ آخری دنوں میںکہیں کوئی امیدکی کرن جگمگاتی تھی، میں نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی بجھی ہوئی یادوں کوآخری بارکریدا، جس کی آنکھوں میں نمی اب صاف دیکھی جاسکتی تھی۔’عزیز من ، آنکھ جو کچھ دیکھتی تھی اور کان جو کچھ سنتے تھے، اس کے بعد یہ سمجھا مشکل نہیں تھا کہ کسی بھی وقت کوئی بری خبر آ سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۶ دسمبر سے پہلے کی کوئی رات تھی۔ ڈھاکا سے تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ ہم پارٹی کے کچھ دوست ۷۰ کلفٹن میں مایوس بیٹھے تھے۔ پھر جے اے رحیم نے کوئی ڈرافٹ تیار کیا اور کہا کہ کسی طرح یہ ڈرافٹ آج رات ہی ڈھاکا پہنچا دیں۔ معراج محمد خان اور میں نے کہا ، ہم جاتے ہیں۔

بھٹوصاحب نے جیب سے ہزار روپے نکالے اور ہمیں دیے۔ ہم تارگھر آگئے ۔ تار آپریٹر نے بہت کوشش کی مگر ڈھاکا سے کوئی رسپانس نہیں تھا ۔ میں نے آپریٹر سے کہا ، تم بس یہ لکھ کر بھیجتے رہو ، بھٹو ٹو مجیب ، بھٹو ٹو مجیب ، ہو سکتا ہے کوئی رسپانس آ ہی جائے۔ آپریٹر لگا رہا ، آخر ادھر سے رسپانس آ ہی گیا۔ جوں ہی یہ سگنل ملا کہ ادھر ڈرافٹ موصول ہو گیا ہے، ہمارے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے۔ ہزار روپے میں سے ستائیس روپے اور کچھ آنے باقی بچے تھے۔ میں نے وہ لا کر بھٹو صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ مجھے محسوس ہوا کہ بھٹو صاحب کو اس طرح ستائیس روپے  واپس کرنا اچھا نہیں لگا ہے ۔ تار ڈھاکا پہچ چکا تھا مگر اس تارکا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ حالات اس مقام پر پہنچ چکے تھے، جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہیں تھی۔‘

غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے

یہ کہتے ہوئے طارق عزیز صاحب نے البم بند کردی ۔ ان کے سامنے رکھی ان کی چائے کب کی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔