توجہ فرمائیں

رئیس فاطمہ  اتوار 3 جنوری 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

فانی نے کہا تھا:
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے، مر مر کے جیے جانے کا
ذوق نے کہا کہ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
فیض بھی پیچھے نہ رہے
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ مرنے والا مر جاتا ہے، آسودہ تہہ خاک ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے لواحقین پر جو قیامت ٹوٹتی ہے اس کا ادراک صرف انھی کو ہوتا ہے، جن کے سر سے چھت چھن گئی ہو، جس گھر کا سائبان گر جائے اور اکیلے رہنے والوں کو کڑی دھوپ میں اکیلے کھڑا ہونا ہو، وہی اس تپش کو محسوس کرسکتے ہیں۔ میں بھی اسی کیفیت سے گزر رہی ہوں اور محسوس کر رہی ہوں کہ جب شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا تھا تو برباد ہونے والوں پہ کیا گزری ہوگی؟ جب جب دیہاتوں کو سیلاب بہا لے گئے۔

جب بلاول شہزادے کی حفاظت پر بسمہ قربان کردی گئی تو ان لوگوں پہ کیا گزری ہوگی اور کیسی گزری ہوگی؟ لیکن یہ ملک جسے بعض ’’دانش ور‘‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں اور خلافت راشدہ کے زرین واقعات سنا کر ماضی کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں تو انھیں موجودہ دور میں حکومت کی طرف سے اور حکومتی اداروں کی طرف سے عوام کو تکلیف دینے والے قوانین کے خلاف قلم اٹھانے کا خیال کیوں نہیں آتا؟ کیا صرف شاندار ماضی کا ڈھول پیٹ پیٹ کر صفحے سیاہ کرنا ہی صحافت ہے؟

آئیے میں آپ کو بتاتی ہوں کہ ایسا کیوں کہہ رہی ہوں۔ اس ملک کے تمام قوانین صرف اور صرف عام آدمی کو پریشان کرنے اور بیورو کریسی کو اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بنائے گئے ہیں۔ خواہ پولیو کے سرٹیفکیٹ کا مسئلہ ہو، یا نادرا کے شناختی کارڈ اور جعلی پاسپورٹ کا۔ سب کچھ عیاں ہے، اخبارات اور میڈیا کی سرخیوں میں اور بریکنگ نیوز کی پٹیوں میں سب سامنے آتا رہتا ہے۔

لیکن کبھی کسی نے اس مسئلے کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں دی کہ گھر کے سربراہ کے مرجانے کے بعد مختلف دفاتر میں لواحقین کو جو دھکے لگوائے جاتے ہیں وہ ایک مسلسل عذاب ہیں۔ مرنے والا اگر سرکاری ملازم تھا یا پنشنر تھا تو اس کی وفات کا تصدیق نامہ حاصل کرنے کی اذیت میں خود بہت سے لوگ جان سے گزر جاتے ہیں، یا پھر ہمت ہار کر کونے میں بیٹھ جاتے ہیں۔

وفات اگر کسی اسپتال میں ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسپتال والے موت کا تصدیق نامہ دیتے ہیں، جس میں موت کی وجہ بھی درج ہوتی ہے۔ لیکن سب سے اہم قبرستان کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جس میں تمام تفصیل مع نام، عمر، ولدیت وغیرہ موجود ہوتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ قبرستان کا تصدیق نامہ سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اگر اخبارات میں بھی متوفی کے انتقال اور اس کی شخصیت اور کام کے حوالے سے خبریں لگی ہوں تو یہ ایک اور بہترین اور سچا ثبوت ہے۔

ان تینوں چیزوں کی موجودگی کے بعد سیدھا سادا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ’’نادرا‘‘ کے ضلعی دفتر میں اسپتال اور قبرستان کے تصدیق نامے کے بعد ’’نادرا‘‘ F.R.C (فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ) عطا کردیں تاکہ بیوہ ہیئرشپ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے ڈی سی آفس میں درخواست جمع کرواسکے۔ اور پھر سات دن کے جانکاہ انتظار کے بعد جب بہ دقت کاغذات مل جائیں تو وہ پنشن کے کاغذات جمع کرواسکے۔

لیکن معاملات نہایت مشکل، ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور دوسرے سے تیسرے، چوتھے اور پانچویں۔ اک آگ کا دریا نہیں بلکہ کئی آگ کے دریا عبور کرنے پڑتے ہیں۔ قبرستان کے اور اسپتال کے سرٹیفکیٹ کو لے کر جب ضلعی کونسل کے دفتر جانا پڑتا ہے تو ایک اور پلندہ تھما دیا جاتا ہے۔ انھیں پر کیجیے اور مطلوبہ فیس ادا کرکے بہ دقت رسید حاصل کیجیے۔ درمیان میں اگر چار پانچ چھٹیاں آگئیں تو پورا ملک بند، عدالتیں بند، بینک بند، ہر دفتر بند، زندگی جیسے رک گئی۔

کہ ان چھٹیوں کے دوران نہ کوئی بیمار ہوگا، نہ مرے گا، نہ بینک جانے کی ضرورت پڑے گی۔ الامان الحفیظ! ایسا تو کہیں نہیں ہوتا۔ لیکن یہ عذاب صرف عام آدمی کے لیے ہے۔ بادشاہوں، شہزادوں، وڈیروں اور اسمبلی میں ڈیسک بجا کر دیہاڑی لگانے والوں کے لیے نہیں۔ وہ جب اور جہاں چاہیں کسی بھی دفتر کو کھلوا کر اور متعلقہ افسر کو طلب کرکے اپنے تمام کام منٹوں میں کروا سکتے ہیں، کہ یہ ملک بنا ہی ان کے لیے ہے۔ چھٹیاں ختم ہونے پر آپ ضلعی دفتر جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ متعلقہ شخص مزید اتفاقی (C.L) چھٹیوں پہ چلا گیا ہے کہ دسمبر کا مہینہ ہے اور اسے Casual Leave پوری کرنی ہیں ورنہ برباد جائیں گی۔

یہ ایک ایسا عجیب ملک ہے جہاں اتفاقی چھٹیوں (C.L) کے لیے قانون تو ہے کہ ایک مہینے میں دو یا تین سے زیادہ چھٹیاں نہیں لی جاسکتیں۔ لیکن تمام سرکاری اداروں اور محکموں میں کام کرنے والے یوں تو 12 بجے کے بعد آتے ہیں، وقت ختم ہونے سے پہلے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں اور تمام C.L دسمبر کے لیے بچا رکھتے ہیں، اور 15 دسمبر کے بعد انھیں لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں جن لوگوں کے کام رکے ہوتے ہیں ان کے دل سے صرف بددعائیں نکلتی ہیں۔ لیکن کون ہے جو ان الم ناک اور انتہائی تکلیف دہ حقیقتوں کا ادراک کرے اور انھیں سامنے لائے۔ میں نے تو کبھی کسی ٹاک شو میں بھی ان موضوعات کو اٹھاتے نہیں دیکھا۔ جن کا براہ راست تعلق انسانوں کی موت اور زندگیوں سے جڑا ہو۔

ان دنوں تمام عذابوں سے میں اکیلی گزر رہی ہوں۔ نہ جانے میری طرح اور کتنی خواتین ایسی تکلیف دہ صورت حال سے گزر رہی ہوں گی۔ اس لیے ’’نادرا‘‘ کے افسران بالخصوص رینجرز سے درخواست کرتی ہوں کہ ان معاملات کو آسان بنائیں اور بظاہر زندہ رہ جانے والی عورت کے دکھ کو سمجھیں اور جتنی جلدی ممکن ہو اسے F.R.C جاری کریں تاکہ وہ بدنصیب اپنے مرحوم شوہر کا شناختی کارڈ ’’نادرا‘‘ کو واپس کرکے اگلے آگ کے دریا میں اترنے کی تیاری کرے۔

پنشن کا حصول کئی آگ کے دریاؤں کو پار کرنا ہے۔ اتنے کاغذات کہ دماغ چکرا جائے، پھر ان کی تصدیق کے لیے گریڈ 17 کے افسران کی تصدیق۔ خیر خدا کا شکر ہے کہ اس معاملے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ میرے کالج کے سابق ساتھی، میرے دوست احباب ان معاملات میں بہت تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ ’’نادرا‘‘ کا F.R.C۔ اس کے بعد ڈی سی آفس سے ہیئر شپ اور پھر پنشن کا حصول۔ نجانے لوگ کس طرح کرتے ہیں؟ میرا تو خیال ہے کہ بے شمار لوگ ان دشوار مراحل سے گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتے ہوں گے۔

رینجرز نے جب سے کراچی کو سنبھالا ہے اچھی اطلاعات مل رہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ رینجرز کے افسران ذرا ’’نادرا‘‘ اور ڈی سی آفس کی طرف بھی توجہ دیں اور لوگوں کو احساس دلائیں کہ کچھ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ کراچی کے لوگ دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ جتنا بڑا شہر ہے اتنی ہی زیادہ رشوت، تعلقات اور عذاب۔ لیکن ہمارے قلم کاروں کو کیا؟ ان کے لیے شاندار ماضی کے قصیدے اور بسمہ کی موت کو شہزادے بلاول کا صدقہ قرار دینے سے فرصت نہیں۔ وہ بھی کیا کریں؟ اپنی اپنی نوکریاں کیسے پکی ہوں گی، غیر ملکی دورے کیونکر ہوں گے، N.G.O کیسے بنانے کو ملیں گی، مال کیسے بنے گا، عید کیسے ملیں گے؟ نمرود کی خدائی میں کن لوگوں کا بھلا ہوتا ہے۔ کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔