2016 کا نیا خطرہ

ایم جے گوہر  جمعـء 8 جنوری 2016

آپ دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں دہشت گرد تنظیموں نے مختلف اوقات میں اپنے اپنے انداز سے کام کیا اور ان کا طرز عمل موقع و محل کی مناسبت سے جداگانہ اہمیت کا حامل رہا ہے، کبھی انھوں نے اہم اور معروف و مقتدر شخصیات کو نشانہ بنایا،کبھی جہاز اغوا کیے،کبھی بینک اور گاڑیاں لوٹیں،کبھی حساس عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا،کبھی جیلوں سے اپنے آدمیوں کو فرارکرانے کے لیے نقب لگائی لیکن تاریخ عالم میں بچوں کی کسی تعلیمی درس گاہ پر خوفناک حملہ کرکے اتنے بڑے پیمانے پر معصوم طالب علموں کو نشانہ نہیں بنایاگیا، جیسا کہ 16 دسمبر 2014ء  میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں نے تمام تر حفاظتی حصار کو توڑ کر دیدہ دلیری کے ساتھ خونی کارروائی میں سیکڑوں نونہالوں کو جو ملک و قوم کا مستقبل تھے، ابدی نیند سلادیا۔

اس واقعے کے بعد پوری قوم پر خوف و ہراس اور غم و اندوہ کے گہرے بادل چھاگئے، سیاسی و عسکری قیادت سرجوڑ کر بیٹھ گئی، قومی ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور دہشت گردوں، ان کے معاونین اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپورکارروائی اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ شروع کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کے جوان اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر ملک کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں اور ملک کے طول و ارض میں امن وامان کی صورتحال بتدریج بہتر ہورہی ہے، پاکستان انسٹیٹیوٹ فارکونفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیزکی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2014 کی نسبت 2015 میں دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

2015 میں 706 دہشت گرد حملوں میں 1325 انسانی جانیں ضایع ہوئیں جن میں 619 شہری اور 348 سیکیورٹی اہلکار تھے جب کہ 325 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ 280 دہشت گرد حملوں میں 355 افراد جان کی بازی ہارگئے، بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 2014 کے مقابلے میں 41 فی صد کمی واقع ہوئی، فاٹا میں 170 حملوں میں 396 لوگ ہلاک ہوئے یہ تعداد 2014 کے مقابلے میں 56 فی صد کم ہے۔

خیبر پختونخوا  میں 139دہشت گرد حملوں میں 224 لوگ لقمہ اجل بن گئے یہاں 2014 کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں 70 فی صد کمی واقع ہوئی۔ سندھ میں 89 حملوں میں 240 افراد ابدی نیند سلادیے گئے، تاہم یہ تعداد 2014 کے مقابلے میں 64 فی صد کم ہے جب کہ پنجاب میں خود کش حملوں میں باقی ملک کے مقابلے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تاہم جہاں 25 دہشت گرد حملوں میں 110 افراد خون میں نہلادیے گئے جب کہ 2014 کے مقابلے میں دہشتگردی کے واقعات میں 39 فی صد کمی آئی۔

مذکورہ اعداد و شمار سے پورے ملک میں دہشت گردوں کی کم ہوتی ہوئی طاقت اور خونی کارروائیوں اور ان کی پسپائی اور امن وامان کی بہتر سے بہتر ہوتی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب جس بھرپور طریقے سے کامیابی کی سمت گامزن ہے تو قوم کو یہ یقین  ہے کہ پاک فوج بہت جلد پاک سرزمین کو دہشت گردوں کے ناپاک قدموں سے نجات دلانے کے مشن میں سرخرو ہوگی، جنرل راحیل شریف کے اس عزم تازہ نے قوم کے حوصلوں کو جلا بخشی ہے کہ 2016 دہشت گردی کے خاتمے اور یکجہتی کا آخری سال ہوگا، آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف قلات اور تربت کے دورے کے بعد گوادر پہنچے، انھوں نے دورے کے دوران بلوچ عمائدین سے ملاقات کے موقعے پر اس یقین کا اظہار کیا 2016 دہشت گردی کے خاتمے اور یکجہتی کا سال ہوگا، انشاء اﷲ قوم کی حمایت سے دہشت گردی، جرائم اور بد امنی کا گٹھ جوڑ توڑ دیں گے ۔

جس سے انصاف کی راہ ہموار اور پائیدار امن منزل حاصل ہوگی۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں نے جنرل راحیل شریف کے 2016 کو دہشت گردی کا آخری سال قرار دینے کے عزم کو سال نو کے آغاز پر ایک اچھی خبر قرار دی ہے، آرمی چیف اس سال 29 نومبرکو ریٹائرڈ ہورہے ہیں اور جانے سے پہلے دہشت گردی کے خاتمے اور ملک بھر میں پائیدار و دیرپا امن کے قیام کے لیے پرعزم ہیں لیکن اس حوصلہ افزا خبر کے پہلو بہ پہلو عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی خبروں نے قوم کو ایک مرتبہ پھر مستقبل کے حوالے سے شش و پنج اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کردیا۔

جس سے آپریشن ضرب عضب کی ’’کامیابی‘‘ کو گہن لگنے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ بعض انتہا پسند پاکستان میں داعش کی بنیاد ڈالنے اور اس کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلانے کی خفیہ سرگرمیوں میں مصروف رہے، لیکن کالعدم تنظیموں کے سیکڑوں افراد آج بھی ملک کے مختلف علاقوں میں داعش کے نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، اخباری اطلاعات کے مطابق داعش نے ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے امیر مقررکر رکھے ہیں جو نوجوانوں کو 30 سے 50 ہزار روپے ماہانہ کے عوض بھرتی کرکے افغانستان بھجوارہے ہیں ۔

جہاں انھیں اسلحہ چلانے کی ٹریننگ اور ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے، داعش کے لیڈر سوشل نیٹ ورک کے ذریعے لوگوں سے رابطے کرتے ہیں بالخصوص انتہا پسند مذہبی گھرانوں کی خواتین و نوجوانوں کو داعش میں شمولیت پر آمادہ کرکے مختلف ذرایع سے شام بھجوایا جارہاہے، یہ خبریں انتہائی تشویش ناک ہیں قومی اسمبلی میں ارکان نے بھی اس ضمن میں آواز اٹھائی ہے۔

پی پی پی کی شاہدہ رحمانی نے کہاہے کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف خوف کا شکار ہے، اسلام آباد میں بیٹھا ایک شخص داعش کی حمایت کررہاہے حکومت اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتی۔ صورتحال کی نزاکت اور سنگینی کا تقاضا یہ ہے کہ داعش کے ممکنہ حملوں سے بچنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ 2016 کے دہشت گردی کے خاتمے کے آخری سال کا خواب ادھورا رہ جانے کیوں کہ داعش ہمارے سروں پر 2016 کا نیا خطرہ بن کر منڈلارہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔