اردو (ب) قاعدہ: ج سے جمہوریت

شکیل صدیقی  جمعرات 4 فروری 2016

وطن عزیزمیں جمہوریت کھڑبڑیا ٹرین ہے، جس کے پہیے پٹری سے اتر اتر جاتے ہیں۔ ٹرین لڑھک لڑھک جاتی ہے اور ڈبے بکھر بکھر جاتے ہیں (قافیہ سازی کرکے میں تحریر کا کوئی کمال نہیں دکھا رہا ہوں حقیقت حال یہی ہے۔)

جمہوریت کا تماشا دکھانے والے ’’بچہ جمہورا‘‘ اس ٹرین کو دوبارہ پٹری پرکھڑا کردیتے ہیںاور اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور جمہوریت، جمہوریت دوبارہ کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ معلوم نہیں کیا بات ہے کہ جمہوریت کے کھیل میں ’’عوام ‘‘کا قصہ ضرورآتا ہے۔کہتے ہیں کہ یہ عوام کی طرف سے عوام کے لیے تحفہ ہوتا ہے۔

بہرحال یہ کتابی باتیں ہیں، اس لیے سیانے انھیں کتابوں میں ہی رکھتے ہیں، فساد خلق کے اندیشے کے تحت کتابوں سے باہر نہیں آنے دیتے،کیونکہ جمہوریت کے لیے سر پھٹول لازمی ہوتا ہے۔ ہم دہشت گرد نہیں ہیں،جمہور بھی اسلامی ہے یقینا یہ کوئی سازش ہے ۔کسی بین الاقوامی ایجنسی کی سازش (معلوم نہیں کیوں بین الاقوامی خفیہ ایجنسیاں ہمارے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔انھیں کوئی اورکام نہیں ہے کیا؟)جمہوریت معلوم نہیں کیسے عوام کی طرف سے آتی ہے۔

ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ عوام جمہوریت کو اٹھا کرکیسے پھینکتے ہیںاور تاج وردی والوں کے سر پر رکھ دیتے ہیں۔(کم از کم ان کی سنگینوں پر ہار ڈالتے اور سرخ قالین بچھاتے تو میں نے بھی دیکھا ہے)چند سال بعد ہی اکتاہٹ ہونے لگتی ہے اور حبس بڑھ جاتا ہے تو ہم سینہ کوبی کرکے مطالبہ کرتے ہیں کہ جمہوریت چاہیے۔اس کے لیے مارا ماری پر بھی تیار ہوجاتے ہیں اور فیض کے اشعار بھی فریدہ خانم سے پڑھوانے لگتے ہیں کہ ہم بھی دیکھیں گے،لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیںگے، جب تاج اچھالے جائیں گے،وغیرہ۔

جب تاج اچھل جاتے ہیں تو بھاری بوٹوں والے واپس چلے جاتے ہیں ( وہ آسانی سے جاتے بھی نہیں)کچھ عرصہ ہنی مون میں گزرتا ہے۔لوگ اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور انتخابات کی تیاریاں زور وشور سے شروع ہوجاتی ہیں، تاریخ کا اعلان ہوتا ہے اور ووٹ ڈالنے والوں کی لسٹ بنتی ہے۔حلقہ بندی ہوتی ہے۔الیکشن کمیشن پارٹیوں کو انتخابی نشانات عطا کرتا ہے۔ (مثلاً گھوڑا،گدھا ،شیر اور لوٹا وغیرہ ،جس کا رحجان جدھر ہوتا ہے، وہ اپنے لیے ویسا ہی نشان پسند کرتا ہے۔)

اس عرصے میںقومی توقعات کے انبار لگنا شروع ہوجاتے ہیں(پارٹیاں اپنا پروگرام دینے کے بجائے رہنماؤں کی چھوٹی بڑی تصاویر دے دیتی ہیں۔دیواروں پر قدآدم پوسٹر لگاتی ہیں۔ بینر لگاتی ہیں۔لوگوں کو یہ باورکراتی ہیں کہ انھیں پارٹی پروگرام کے بارے میں سوالات نہیں کرنا ہیں، بلکہ توقعات باندھنا ہیں)مثلاً اب گھر، گھر میں بجلی پہنچنے والی ہے، ہر جگہ سڑک بننے والی ہے۔امیر غریب کا فرق مٹنے والا ہے، ہر بچہ مفت تعلیم یافتہ ہونے والا ہے ،چیزوںمیں ملاوٹ ختم ہونے والی ہے اورصاف پانی کی نہریں بہنے والی ہیں۔(بس فلاں نشان پر مہر لگانا ہے)

ہمارے رہنما اپنے اعلانات(مع تصاویر) اخبارات میں شایع کرواتے رہتے اور لوگوں کو اکساتے(ورغلاتے) رہتے ہیں، ’’ہم‘‘  یہ کردیں گے، وہ کر دیں گے۔گویا انتخاب کا حلیم پکنا شروع ہوجاتا ہے ۔زندہ باد، مردہ بادکا گھوٹا لگنے لگتا ہے۔جلسے جلوس کی بھرمار۔ مخالفین ایک دوسرے پر دشنام طرازی کرنے اور منہ سے جھاگ بہانے لگتے ہیں۔(انھیں اس کے پیسے ملتے ہیں) اس کا پتا ہی نہیں چلتا کہ اب اس ملک میں ایسا کیا ہونے والا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

شہروں اور دیہاتوں میں ووٹ مختلف طریقوں سے ڈالے جاتے ہیں۔دیہاتوں میں ہاری کو صرف یہ پتا ہوتا ہے کہ سائیں کا انتخابی نشان یہ ہے اور مہر اسی پر لگانا ہے(اس کے پاس اپنی پسند اور ناپسند نہیں ہوتی۔اس کی بلا سے تیر والے آئیں یا شیر، انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں ووٹ سائیں کو ہی ڈالنا ہے۔اسے سات سلام کرنا ہیں۔

انتظامیہ کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اب کس سے وفاداری نبھانا ہے۔بقول شخصے کہ کس کے پلڑے میں وزن ڈالنا ہے۔) جس طرح سے خالص دودھ آسانی سے ہضم نہیںہوتا ہے تو اس میں پانی ملا لیتے ہیں، اسی طرح سے ہم جمہوریت میں جاگیرداری اور زمینداری کا تڑکا لگا لیتے ہیں۔

تڑکا لگانے کا مطلب ہے جھنڈا لگوانا۔ چوہدری صاحب کی حویلی پر جو جھنڈا لگا ہے اسے اتروا کر اپنا جھنڈا لگوانا۔تب جمہوریت کا کھیل تماشہ شروع ہوتا ہے۔(یعنی اپنے ہاریوں سے بکس میں ووٹ ڈلوانا۔وقت پڑنے پر پریزائیڈنگ آفیسر بھی یہ کام کر ڈالتا ہے۔ شنید  ہے کہ پوری گڈی پر مہر لگانے سے اس کے ہاتھوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ پولنگ کا عملہ مل کر یہ کام کرتا ہے، یعنی علاقے کے جاگیردارکے انتخابی نشان پر مہرلگا دیتا ہے۔)

دیار غیر میںجمہوریت ایک قاعدے قانون اور نظم وضبط سے آتی ہے ، جب کہ یہاں قاعدہ(بغدادی) اور نظمیں(علامہ کی )ہمارے ہاںبچے پڑھتے ہیںاور یہ دکانوں پر دستیاب ہیں، لیکن قومی سطح پر اس کا فقدان ہے۔ ہم متبادل چیزوں سے کام چلا لیتے ہیں۔دیواروں پر چاکنگ ، جلسے جلوس ، نعرے بازی اورٹھائیں ٹھائیں۔

بیلٹ بکس کا پیٹ کسی نہ کسی طرح سے بھر جاتا ہے۔بعد کے مرحلے میں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے، پھراس سے اگلے دن جو نہیں جیت پاتے وہ دھاندلی کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ (بھٹو کے لیے بھی یہی نعرے بازی ہوئی۔ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھا۔اس نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔پھر نئے انتخابات کرانے پر رضامند ہوگیا، لیکن بھاری بوٹوں والوں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔انھوں نے کہا اب ہماری باری ہے۔تم دور بیٹھو۔پھر اسے تختۂ دار تک لے گئے۔اس زمانے کی تاریخ سیاست کے پہلے باب میں انتخابات میں دھاندلی لکھا ہے مگر آخری باب میں بھٹوکی موت درج ہے۔پتا نہیں یہ کیسے ہوگیا؟آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔)

ہاں تو بات ہو رہی تھی دھاندلی کی۔ایک دوسرے پر اچھی طرح سے کیچڑ اچھالنے کے بعد جو فریق جیت جاتا ہے وہ آکر اسمبلی میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہ وہی طبقہ ’’جاگیرداراں‘‘ہے جو اپنے ہاریوں کے ذریعے متحرک رہتا ہے(وہ پڑھاہوا نہیں ہوتا، مگر ہماری قسمتوں کا فیصلہ وہی کرتا ہے)کچھ عرصے بعدیہ سن گن ملنے پرکہ ڈگری کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی ، وہ جعلی ڈگری خرید لیتے ہیں۔جب اس سے بھی کام نہیں چلتا تو مال وزرکی بوری کا منہ کھول دیتے ہیں ۔بوری سانس کھینچتی ہے تو ڈگری کے بارے میں استفسارکرنے والے بوری میں چلے جاتے ہیں ۔(بات تو آپ سمجھ گئے نا؟)

جمہوریت کا یہ مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے ۔اگلے مرحلے میں ایک دوسرے کو رگیدنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ قومی مسائل ایک طرف پڑے رہتے ہیں اور ان پر کوئی بات ہی نہیں کرتا۔اکثرکورم ہی پورا نہیں ہوتا۔اسمبلی بھائیں بھائیں کرتی رہتی ہے۔ جمہوریت اپنا منہ لپیٹ کر سوجاتی اور ممبران کاغذی تبدیلی کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔

وہ اپنا وقت (سندھ) کلب میں گزارتے ہیں۔اورکریں بھی کیا؟ پالیسی میکنگ ؟(وہ تو کسی تک کو نہیں آتی)جب جمہوریت آجاتی ہے تو اسے سینت کر نہیں رکھتے بلکہ اس کی چادر میں سوراخ کرنے لگتے ہیں(جب کہ مخالف پارٹی کے افراد سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔جس میں سانپ کا کردار وہ خود ادا کرتے ہیں۔)

ہم ووٹ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ حد یہ ہے کہ اپنے علاقے کے بلدیاتی نمایندے،کونسلر، صوبائی اسمبلی کے ممبر،قومی اسمبلی کے ممبر سے کوئی سوال وجواب نہیں کرتے(اس لیے کہ ہمیں بھی تو اپنی جان عزیز ہوتی ہے نا)

پھرجمہوریت کے شہد میں کیڑے پڑجاتے ہیں،  تو کہتے ہیں کہ پہلے ہی والے اچھے تھے۔ جمہوریت ہماری قوم کے لیے مناسب نہیں ہے۔(اسلام کے خلاف ہے)وردی والے آتے ہیں اور یہ کہہ کر کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں کہ وہ رہنماؤں کی حفاظت کرنے آئے ہیں۔اگر’’ ضرورت پڑی‘‘ تو نوے روز میں انتخابات کرادیںگے۔(وقت گزرنے پرکچھ افراد انتخاب کا راگ الاپنے لگتے ہیں، باقی روزمرہ کے کاموںمیںمصروف ہوجاتے ہیں۔کہتے ہیںجسے جمہوریت کا حلوا کھانا ہے وہ جلوس نکالے۔)اس طرح سے آمریت،جمہوریت اورجاگیرداری کا دائرہ مکمل ہوجاتا ہے۔

ہم محض تماشائی ہوتے ہیں،جو پڑھے لکھے ہوتے ہیں وہ اخبارات میں کالم لکھنے لگتے ہیں۔آمراپنی وردی اتارکر سوٹ پہنناشروع کردیتے ہیں۔مختلف ممالک میں گھومتے پھرتے ہیں۔خود کچھ نہیں کرتے، جو انکل سام چاہتا ہے وہی کرتے ہیں۔اسی کی پالیسوں کو لے کر چلتے ہیں،ورنہ ’’جمہوریت لانے ‘‘کا پروگرام بننے لگتا ہے (آمریت اور جمہوریت کے اس کھیل میں ہماری حیثیت صرف گھگھو گھوڑے کی سی ہوتی ہے۔بھئی یہ حقیقت ہے،لہٰذا برا ماننے کی ضرورت نہیں۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔