حادثہ اک دم نہیں ہوتا

عینی نیازی  پير 15 فروری 2016

لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار عذیر بلوچ رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا، وہ جس نے قانون نافذ کرنے والوں کو ناکوں چنے چبوا دیے، جس کی وجہ سے لیاری جنگ کا میدان بن گیا تھا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھاری نفری واسلحہ بھی لیاری کے قلعے کو تسخیر نہ کرسکے تھے، جس کی اجازت کے بغیر کوئی سیاسی لیڈر بھی لیاری میں داخل نہ ہوسکتا تھا، حکومت نے اس کے سر کی قیمت بیس لاکھ لگائی مگر اسے کوئی نہ پکڑ سکا تھا۔

ماما فیضو کا چہیتا بیٹا جو کبوتر بازی کا شوقین تھا، جسے سیاست کی چمک دمک متاثر کرتی تھی، شاید وہ بڑا سیاست داں بننے کے خواب دیکھتا ہو، اس نے ایک بار الیکشن میں حصہ بھی لیا اور ہار گیا، وہ شاید مستقبل میں سیاست داں بن بھی جاتا، لیکن بدقسمتی کہ اس نے باپ کے قتل کے بعد ارشد پپو سے بدلہ لینے کے لیے جرم کی دنیا میں قدم رکھا، پھر گینگ وار کا ایک منفی کردار بن گیا۔ وہ پیپلز امن کمیٹی کا روح رواں تھا، پیپلز پارٹی سے وابستہ تھا، سوشل میڈیا، ٹی وی اور اخبارات چیخ چیخ کر عذیر بلوچ کو پیپلز پارٹی کا جیالا ثابت کرنے کے شواہد سے ثابت ہیں۔

چیل چوک کے قریب اپنے بڑے سے محل نما گھر میں پیدا ہونے والا عزیر بلوچ، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا، اس کی آسودہ حال محل نما گھر میں لیے گئے انٹرویو اور آج ہتھکڑی لگے روپ میں نمایاں فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کہاں وہ سفید پگڑی باندھے ایک بلوچ سردار کی مانند اونچا شملہ کیے پراعتماد شخص اور کہاں ایک ہارے ہوئے شکست خوردہ انسان کا روپ لیے عذیر بلوچ، آج سلطانی گواہ بن کر تمام سچائیاں سنانے کو تیار ہے، ہر ایک چہرہ بے نقاب کرنے کو راضی ہے۔ اس وقت وہ ایک زخمی شیر ہے اور زخمی شیر زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

شاید وہ چاہتا ہو کہ کچھ تو اس گناہ کے دلدل میں موجود بڑے مگرمچھوں کا صفایا ہو، وہ کیفر کردار تک پہنچیں، شاید اس طرح اس کے کیے گئے جرائم کا ازالہ ہوسکے، جو اس کی موجودگی میں لیاری پر بیتے اور اس میں اس کا کردار بھی شامل تھا، جب ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی، لیاری گولیوں، بم دھماکوں کی گونج سے لرز رہا تھا، کوئی پاکستانی شہری لیاری کے اندر جانے کو تیار نہیں تھا، وہاں جان کا خطرہ تھا، گویا وہ علاقہ غیر کا روپ اختیار کرچکا تھا۔ بے شمار ماؤں نے اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں پر بین کیے، حکومت سے انصاف کی بھیک بھی مانگی، لیکن حالات جوں کے توں رہے۔ ارباب اختیار بے اختیار جو تھے۔ تنگ آکر برسوں سے مقیم اہل لیاری نے وہاں سے نقل مکانی شروع کردی، مگر اس مسئلے کا تدارک نہ ہوسکا۔

بلاشبہ رینجرز کا بڑا کارنامہ ہے جو لیاری میں امن قائم کرنے کے لیے شروع کیا ہے۔لیاری عرصہ دراز سے بحران کا شکار ہے، تو اس میں قصور کس کا ہے؟ ان کا جو اپنی غریبی و مفلسی کے باعث مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور پھر بھی اپنی وفاداری نبھائے جارہے ہیں، جن کے دلوں میں پیپلز پارٹی بستی ہے، اسی کی محبت کے اسیر ہیں، اس وفادار بیوی کی مانند جو لاپروا، خودغرض شوہر کی منافقت، بے وفائی، مار، ذلت سب برداشت کرتی ہے لیکن اس کے خلاف کچھ سننے پر آمادہ نہیں ہوتی، حتیٰ کہ اس کی اپنی نسلیں بھی بے روزگاری، جہالت اور ذلت کے گہرے گڑھے میں دفن ہورہی ہیں، جن کا مستقبل دہشت گردی، نشہ، جوا، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور مافیا کے عمیق گڑھوں میں مدفن ہوتا جارہا ہے۔

محبت کی ایسی مثالیں آج کے دور میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لیاری پاکستان کے اتنے بڑے اور پررونق شہر کراچی کا حصہ نہ ہو بلکہ کسی دور افتادہ علاقہ غیر کا حصہ ہو، جہاں زندگی کی بنیادی سہولتیں پہنچانا ناممکن ہو، بے شک یہ سب کوئی ایک دن کا شاخسانہ نہیں، 80 کی دہائی تک تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، پھر جوئے کے اڈے قائم ہونے شروع ہوئے، جگہ جگہ افیم اور ہیروئن اور شراب جیسی منشیات کی تیاری کی بھٹیاں لگائی گئیں۔ بے روزگاری، غربت کے ستائے لوگوں نے اس کام میں شامل لوگوں کا معیار زندگی تبدیل ہوتے دیکھا۔

وہ علاقہ جہاں ہر تیسرا گھر مسقط، دمام، قطر سے روزگار کے حصول کا خواب دیکھا کرتا تھا اب اپنے ہی علاقے میں اس قدر آسان کاروبار کی کشش سے کیوں نہ فائدہ اٹھاتا۔ بے روزگار نوجوان اس کی جانب کھنچے چلے آئے۔ ارباب اختیار بھی ان کی سرپرستی کرنے لگے کہ بہتی گنگا سے کون ہاتھ نہ دھونا چاہتا تھا۔ یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ یہ بالکل فلمی کہانی جیسی لگتی ہے کہ ایک جانب اقتدار کے مزے تو دوسری طرف منشیات کی کمائی سے حصہ بھی وصول کرتے رہے۔

لالچ کچھ زیادہ بڑھا تو مزید کاروبار پھیلانے کی سعی کی گئی، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے منافع بخش کاروبار کی جانب بھی توجہ دی گئی، اس کے ساتھ مختلف گروہ قبضے کی جنگ میں مصروف ہوئے، ایک ہی علاقے کے رہنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، وجہ صرف اس سارے ناجائز کاروبار کا حصول اور قبضہ تھا۔وہ پالیسی میکرز جن کا کام لیاری کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم پکڑانا تھا، انھیں باعزت روزگار دینا تھا، انھوں نے ہی ان کے ہاتھوں میں بندوق تھمادی۔ جب سجن ہی تھانیدار بن جائیں تو پھر ڈر کس بات کا تھا۔

اپنی سیاست چمکانے کے لیے یہ دوسروں کے لیے استعمال ہونے لگے۔ عوام یہ سوچ کر انھیں ووٹ دیتے رہے کہ یہ ہماری پسماندگی دور کرنے میں پرخلوص ہیں، ایوانوں میں پہنچ کر ہماری بے روزگاری، جہالت کی زنجیروں سے نجات دلائیں گے۔ اب یہاں آکر کہانی حقیقت کا روپ دھارتی ہے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ عذیر بلوچ میڈیا پر آکر تمام سچائی بیان کر بھی دے تو کیا گناہ کار اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے؟

عذیر بلوچ کا کھرا سچ ایک خاردار اور طویل راستہ ہے، جس کے دوسری جانب مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے منزل کٹھن ہی نہیں ناممکن بھی نظر آتی ہے۔ میں مایوس تو نہیں مگر خوش فہم بھی نہیں بننا چاہتی، ان اینکروں کی طرح جو ٹی وی پر صبح و شام عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ریٹنگ بڑھانے کے لیے خوش فہمی کا انجکشن دیتے ہیں، عوام اس نشے میں محظوظ ہوتے ہیں کہ ہماری عدالتیں جلد اور انصاف پر مبنی فیصلے سناتی ہیں، گواہ آزاد و بے فکر ہو کر گواہی دیتے ہیں، قانون نافذکرنے والے ادارے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہیں۔

کاش یہ حقیقت ہوسکتی، لیکن کیا کریں ہمارے قانونی راستوں میں بچھی بارودی سرنگیں ایک دن کا شاخسانہ نہیں، ببول کے اس کانٹے کو ایک تناور درخت بنانے کے لیے ہمارے پالیسی میکرز نے بڑی محنت سے سینچا ہے۔ لیاری کے حالات خراب ہونے اور سردار عذیر بلوچ سے گینگ وار لیڈر بننے میں برسوں کی ناانصافیاں ہیں۔ بقول شاعر: وقت کرتا ہے پرورش برسوں… حادثہ اک دم نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔