کیا نوگیارہ کے بعد دہشت گردی نو دوگیارہ ہوئی؟

جبار جعفر  پير 2 مئ 2016

پہلے پرانے TV پروگرام ففٹی ففٹی کا ایک خاکہ ملاحظہ کیجیے:

شہر میں دہشت گردی کی ایک بھیانک واردات کے بعد پولیس کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔ پولیس جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے گاڑیوں کی تلاشی لے رہی ہے۔ اتنے میں ایک ٹیکسی جس کی چھت پر توپ فٹ ہے آکر رکتی ہے۔

پولیس اس کوگھیرے میں لے کر بندوقیں تان کرکھڑی ہوجاتی ہے۔ ایک پولیس والا فوراً کار کا بونٹ اٹھاکر محدب عدسے سے انجن چیک کرتا ہے کہ اسلحہ تو نہیں چھپایا گیا۔ دوسرا پولیس والا ڈگی کھول کر تلاشی لیتا ہے۔ دو پولیس والے کارکی اندرکی تلاشی لیتے ہیں، ایک کار کے نیچے لیٹ کر چیک کرتا ہے، لیکن کوئی ایک پولیس والا بھی کارکی چھت پر فٹ توپ کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ سخت تلاشی کے بعد کارکو اسلحے سے کلیئرقرار دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر اتنا پرانا خاکہ آج کیوں یاد آگیا؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک نئی اور دوسری پرانی۔ پرانی وجہ ملاحظہ کیجیے۔ 27 جون 2012 ایکسپریس کے مطابق واشنگٹن میں مقیم نیو یارک ٹائمز کے نمایندے ڈیوڈ این کی کتاب ’’کنفرنٹ اینڈ کینسل ‘‘ میں امریکی صدر اوباما کی تشویش کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے ’’اوباما نے اپنے سینئرمعاونین سے کہا ہے کہ وہ (یعنی اوباما) ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک (یعنی پاکستان) کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے بہت کم طاقت رکھتے ہیں اور پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی (طالبان کے درمیان) چھینا جھپٹی کی دوڑ کو قابو نہیں کرسکتے‘‘ ساتھ ساتھ آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ جوہری سلامتی کے حوالے سے واشنگٹن میں بلائی گئی چوتھی سربراہ کانفرنس ہوئی، جس میں 50 ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ سانحہ گلشن اقبال پارک کی وجہ سے ہمارے وزیر اعظم شریک نہ ہوسکے۔ ایجنڈا وہی ہونا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے کیسے بچایا جائے۔

اس کا حل نہایت آسان ہے۔ اگر صرف دو ممالک روس اور امریکا جن کے پاس ایٹمی اسلحے کا 80 فیصد ذخیرہ تلف کردیتے ہیں تو دنیا کو 80 فیصد ایٹمی اسلحے سے نجات کی نوید اور امن کی ضمانت مل جائے گی۔ دنیا کے باقی 20 فیصد ایٹمی اسلحے کے حامل ممالک پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ وہ خود ہی بڑی طاقتوں کی پیروی کریں گے، اگر صرف 20 فیصد ایٹمی اسلحہ (تمام دنیا کا) تلف ہو بھی گیا توکیا فرق پڑے گا؟ 20 فیصد اس کی ضمانت؟

سوال یہ ہے کہ پہلے سپر پاور ہی کیوں؟

اس لیے کہ یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ داستان نہیں تاریخ ہے کہ ماضی میں سپر پاورز اپنی طاقت کے گھمنڈ میں، احساس برتری کے زعم میں جوہری سلامتی کے ضمن میں لاپرواہ، اچانک دہشت گرد حملے کے مقابلے میں کمزور اور ایٹم بم کے استعمال میں غیر ذمے دار ثابت ہوچکے ہیں مثلاً

روس : A: چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ میں خرابی کی وجہ سے تابکاری کے اثرات شمال مغربی یورپ کے ممالک میں برسوں ڈیری اور پولٹری پراڈکٹ میں پائے جاتے رہے۔ B: افغان وارکے نتیجے میں جب سوویت یونین سکڑکر رشین فیڈریشن رہ گیا۔ اس وقت روس کے سارے مقبوضہ علاقے آزاد ہوگئے۔ جو مغربی یورپ سے لے کر وسط ایشیا تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان ملکوں میں محفوظ روس کے ایٹمی اثاثے بغیر کسی پرسان حال کے ، بے یارومددگار نئے سیٹ اپ کے قائم ہونے تک پڑے رہے۔ C: جب سوویت یونین سکڑ کر رشین فیڈریشن رہ گیا تو کیا اس کے ایٹمی اثاثے بھی گھٹ کر آدھے ہوگئے؟

امریکا:A امریکا دنیا کا واحد، پہلا اورآخری چھچھورا سپر پاور ہے جس نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی کے نہتے شہریوں پر ایٹم بم گرائے جب کہ جنگ عظیم دوم اپنے اختتامی مرحلے میں تھی۔ B: 1966 میں اسپین کے جنوبی سمندر بحراوقیانوس میں امریکا کا B54 طیارہ فضا میں ایندھن سپلائی کرنے والے طیارے سے ٹکرا گیا اور ایک عدد ہائیڈروجن بم سمندر میں ’’ٹپک‘‘ گیا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں ملا۔ آج وہی سمندر کی تہہ کے ’’سلیپنگ سیل‘‘ موجود ہے۔ یہ تو اوپر والے کا کرم ہے جوگلشن کا کاروبار چل رہا ہے۔

C: ساری دنیا نے 9/11 کو ہونے والی دہشت گردی کی قابل مذمت واردات کی لائیو کوریج دیکھی۔ بارہ دہشت گردوں نے لوکل روٹ پراڑنے والے چار ہوائی جہازوں کو فی البدیہہ اغوا کیا۔ دنیا کے سب سے بڑی کاروباری مرکز ٹریڈ ٹاور سے دو جہاز ٹکرا کر اس کے بارہ بجا دیے، ایک جہاز دنیا کے سب سے بڑے دفاعی ادارے پینٹا گون کو گرا کر اس کو نقصان پہنچایا۔ ایک راستہ بھٹک گیا اور زمین پر گر کر تباہ ہوگیا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کا ہدف وائٹ ہاؤس تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکا کے پاس بھانت بھانت کی جدید ترین ٹیکنالوجیز مثلاً لیزرگائیڈڈ، ڈرون، سیٹلائٹ، اسٹیلتھ وغیرہ کے ہوتے ہوئے واردات کے دوران جوابی کارروائی نظر آئی؟ البتہ بعد میں نظر آئی افغانستان، عراق شام وغیرہ میں۔

اب دوبارہ واشنگٹن میں بلائی گئی چوتھی سربراہ کانفرنس کی طرف آتے ہیں۔ تشویش اس بات پر تھی کہ اگر کمزور سیکیورٹی کی وجہ سے ایٹمی اسلحہ داعش جیسی منظم مالدار اور سفاک ترین دہشت گرد تنظیم کے ہاتھ لگ گیا تو دنیا سولی پر لٹک جائے گی۔کیونکہ ’’ڈرٹی بم‘‘ کے لیے سیب کے برابر ایٹمی مادہ درکار ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ کیوں نہیں ہوا؟ داعش افغانستان سے لے کر لیبیا تک کیسے پہنچ گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک جوہری توانائی کے پھیلاؤ کو روکنا امریکا کا فرض اور مہلک ہتھیاروں کی تجارت امریکا کا پیشہ رہے گا دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ مشکل ہے۔

پائی پیسہ لینا حرام ہے مفت مشورہ دیتا ہوں۔ مغربی ممالک کو اس وقت ہوا کا رخ دیکھنا پڑے گا اور سمجھنا بھی۔ اپنے پیچھے بیروزگاروں کی فوج چھوڑ کر سرمایہ مغرب سے مشرق کی طرف فرار ہو رہا ہے اور مشرق سے مہاجرین کی فوج اپنے پیچھے سمندر میں کشتیاں ڈبو کر مغربی ممالک پر یلغار کر رہی ہے۔ یہ سوالی نہیں ہیں بلکہ تیسری دنیا کا مجسم سوال ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہوتے ہوئے آج ہم بھوکے کیوں ہیں؟ تم لاکھوں ٹن سر پلس گندم سمندر میں غرق کیوں کرتے ہو؟ ادھر امریکا میں افریقی نژاد امریکی اپنی کالونی کی زبان پر بھی ایک سوال ہونٹوں سے باہر آنے کے لیے مچل رہا ہے مثلاً ایک نیگرو پادری سے سوال کرتا ہے:

’’فادر! میں کالا کیوں ہوں؟‘‘

پادری جواب دیتا ہے ’’تاکہ افریقہ کے تپتے ہوئے سورج کی تپش سے تمہاری جلد جھلس نہ جائے۔‘‘

نیگرو دوسرا سوال کرتا ہے ’’فادر! میرے بال اتنے سخت، گھونگریالے،کھوپڑی سے چپکے ہوئے کیوں ہیں؟‘‘

پادری جواب دیتا ہے ’’ تاکہ افریقہ کے جنگل میں شکار کے دوران تمہارے بال جھاڑی میں نہ پھنس جائیں۔‘‘

نیگرو تیسرا سوال کرتا ہے ’’فادر! میری ناک اتنی پھیلی ہوئی کیوں ہے؟‘‘

پادری جواب دیتا ہے ’’تاکہ افریقہ کی گرم مرطوب آب و ہوا سے آکسیجن حاصل کرسکو۔‘‘

نیگرو آخری سوال کرتا ہے ’’فادر! اگر اللہ نے مجھے افریقہ کے گھنے جنگلوں کے لیے بنایا تھا تو میں امریکا کے گنجان آباد شہروں میں کیا کر رہا ہوں؟‘‘

(پادری نے شرم سے سر جھکایا۔ اس کے پاس اس کا جواب نہیں تھا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔