یومِ تکبیر: ایک ہمت افزا دِن

تنویر قیصر شاہد  ہفتہ 28 مئ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

آج، 28 مئی 2016ء کو پاکستان بھر میں یومِ تکبیر منایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے تاریخی اور تاریخ ساز ایام میں اٹھائیس مئی کا دن اس لیے بھی مخصوص اور ممتاز مقام رکھتا ہے کہ اس دن پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے باقاعدہ اپنی جوہری قوت و حشمت کا اعلان کیا۔

لاریب یہ اعلان بھی غیر معمولی تھا اور یہ کامیابی بھی بے مثال تھی۔ صرف پاکستان ہی کے لیے نہیں، بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے۔ یقیناً پاکستان کے علی الاعلان ایٹمی طاقت بننے سے دشمنانِ پاکستان کے پیٹ میں حسد و رقابت کے مروڑ بھی اٹھے اور اب تک اٹھ رہے ہیں۔ اٹھائیس مئی کو بجا طور پر ’’یومِ تکبیر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ فی الحقیقت یہ دن تکبّر کا نہیں بلکہ اللہ کے حضور شکر بجا لانے کا دن ہے۔ خدا کے سامنے جھک جانے کا نام ہے کہ اسی کی عطا کردہ ہمتوں سے پاکستانیوں کے لیے ہمت افزائی کا یہ دن آیا۔ ایک مسعود و مبارک دن۔

اٹھارہ سال قبل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر قیادت پاکستان نے، بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں، بلوچستان کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کیے تو اُس دن اِن الفاظ کا یہ راقم نیویارک میں تھا۔ میری رہائش گاہ بروکلین میں تھی۔ میکڈانلڈ ایونیو پر۔ ٹی وی پر یہ غیر معمولی اور خوش کُن خبر سن کر مَیں نے عالمِ بے خودی میں رہائشی عمارت کی ذاتی پارکنگ لاٹ سے گاڑی نکالی اور کونی آئی لینڈ ایونیو کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ یہ علاقہ پاکستانی نژاد امریکیوں کا گڑھ ہے اور بجا طور پر نیویارک بھر میں ’’لٹل پاکستان‘‘ کہلاتا ہے۔ میکڈانلڈ ایونیو سے قریب ہی ہے۔

بس درمیان میں اوشئین ایونیو پڑتی ہے۔ چند منٹ میں وہاں پہنچ گیا۔ مکّی مسجد، جس کے امام و خطیب اُن دنوں مولانا محمد صادق صاحب تھے، کے سامنے گاڑی پارک کر کے باہر نکلا تو وہاں ہر پاکستانی دکان اور ریسٹورنٹ کے سامنے بے شمار پاکستانیوں کے جمگھٹے دکھائی دیے۔ وہاں مجھے کئی شناسا چہرے ملے۔ سب خوشی سے دمک رہے تھے۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جا رہی تھیں کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو ناقابلِ تسخیر ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اور پاکستان سے عناد رکھنے والے حسد اور جلن کی آگ میں جَل بھُن رہے تھے۔

امریکا اور مغربی طاقتوں نے پاکستانی حکمرانوں کو لالچ دیے تھے کہ دھماکا نہ کرنے کی صورت میں امدادی ڈالروں کی بارش برسا دی جائے گی۔ ساتھ ہی دھمکیاں بھی دی گئیں کہ ایٹمی دھماکے کیے تو پا بجولاں کر دیے جاؤ گے۔ گویا Carrot  &  Stick کا عمل ساتھ ساتھ جاری تھا۔ جناب نواز شریف اور ان کے تمام عسکری و سویلین ساتھی مگر کسی لالچ میں آئے نہ کوئی دھمکی ان کے پائے استقلال میں لرزش پیدا کر سکی۔

بھارت سے زیادہ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے لائق فائق سائنسدانوں، انجینئروں اور ایٹمی ماہرین نے دنیا بھر پر پاکستان کی دھاک بٹھا دی۔ عالمی طاقتوروں نے غصے میں پاکستان کی امداد روک دی۔ پاکستان کی مشکیں کسنے کے لیے مختلف النوع پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو عالمِ جبر میں لاتعداد پاکستانیوں کے فارن اکاؤنٹس بھی منجمد کرنا پڑے کہ زرِمبادلہ کے حوالے سے وطن کو نئی آزمائش میں ڈال دیا گیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان جلد ہی آزمائش کی گھڑیوں سے نکل آیا۔ یہ سرخروئی ہم سب پاکستانیوں کی اجتماعی کامیابی تھی۔

ہم سب نے خود کو ’’یومِ تکبیر‘‘ منانے کا اہل ثابت کیا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافے اور روپے کی قیمت میں کمر شکن کمی نے یقینا حالات کو گمبھیر تر بنایا۔ ہمارے اوسان مگر خطا ہوئے نہ ہم نے کسی کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور نہ ہی کسی کے سامنے گڑ گڑائے۔ اُن چند اسلامی ممالک کو بھی سیلوٹ جنہوں نے آزمائش کے ان لمحات میں معاشی طور پر پاکستان کی بروقت دستگیری کی اور اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا۔

مجھے بخوبی یاد پڑتا ہے کہ 28 مئی 1998ء کی شام مَیں ایف ٹرین پکڑ کر بروکلین سے جیکسن ہائٹس گیا۔ یہ علاقہ، جیکسن ہائٹس، بھارتی دولتمند تاجر ہندو برادری کا مرکز کہلاتا ہے۔ وہاں پاکستانیوں کی بھی دکانیں ہیں مگر کم کم۔ جیکسن ہائٹس ریلوے اسٹیشن پر اُتر کر مَیں نے سارے مذکورہ بازار کا پیدل ہی چکر لگایا۔ بطورِ اخبار نویس ذاتی مشاہدہ کرنا چاہتا تھا کہ بھارتی نژاد ہندو امریکیوں کا پاکستان کے ایٹم بم پھاڑنے کے اقدام پر کیا ردِ عمل ہے؟ جس واقف کار ہندو تاجر اور دکاندار سے ملاقات ہوئی، اس کا چہرہ لٹکا ہوا دیکھا۔ وہ کھُل کر اپنی مایوسی اور باطنی دکھ کا اظہار تو نہ کرتے پائے گئے مگر ان کی بین السطور گفتگو اور محتاط رویہ ان کے باطنی کرب و شکست کی چغلی کھا رہا تھا۔

آج جب ہم سب پاکستانی احساسِ تفاخر و شکر کے ساتھ اٹھارہواں ’’یومِ تکبیر‘‘ منانے جا رہے ہیں، گزشتہ تقریباً دو عشروں کے مقامی اور عالمی حالات و واقعات نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کا فیصلہ بجا بھی تھا، بروقت بھی اور مستحسن بھی۔ اگر وہ لمحات ہم بوجوہ ضایع کر دیتے تو پوری اُمّہ ہمارے اہلِ حَکم کو کبھی معاف نہ کرتی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ اٹھارہ برس قبل جب پاکستان نے جناب نواز شریف کی قیادت میں ایٹمی دھماکے کیے تھے، تب بھی پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے اور آج بھی کشیدہ ہیں۔

امریکا نے تب بھی پاکستان کی مالی و اسلحی امداد روک لی تھی اور آج بھی امریکا نے یہ امداد روک رکھی ہے اور پاکستان کی ایٹمی جدوجہد کو محدود کرنے کے لیے بین السطور دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اٹھارہ سال قبل بھی نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیراعظم تھے اور آج بھی ہیں۔ ان برسوں کے دوران پاکستان نے عالمی جبر میں بہت سی رکاوٹیں عبور کی ہیں، ترقی کے نئے سنگِ میل بھی طے کیے ہیں اور اپنی جوہری طاقت میں کمی بھی نہیں آنے دی۔

’’یومِ تکبیر‘‘ سے پہلے، اٹھارہ سال قبل بھی امریکا آگے بڑھ کر بھارت کی بلائیں لیتے ہوئے Discrimination کا رویہ اختیار کیے ہوئے تھا اور آج اٹھارہ سال بعد بھی اس کا وہی رویہ ہے، بلکہ اب تو بھارت و امریکی تعلقات میں بوجوہ زیادہ گرمجوشی پیدا ہو چکی ہے۔ آج بھارت نے عالمی سطح پر بعض اسلامی اور غیر اسلامی ممالک سے تجارتی و اسٹرٹیجک تعلقات استوار کر کے پاکستان کو تنہا کرنے اور پاکستان کے لیے سنگین مسائل پیدا کرنے کی جو دانستہ کوششیں کی ہیں، اس پس منظر میں ’’یومِ تکبیر‘‘ کی قدر و اہمیت میں دو چند اضافہ ہو گیا ہے۔

اس دن کا نمایاں ترین وصف یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے دنیا کی کسی پُرامن قوم اور مملکت کو کوئی خطرہ بھی لاحق نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ پاکستان کی جملہ ایٹمی تنصیبات، بھارت کے مقابلے میں، محفوظ ترین ہیں اور ان میں کبھی کوئی حادثہ بھی رونما نہیں ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں پاکستان کے جملہ عوام نے بڑے صبر، بڑی قربانیوں اور بے مثال ایثار سے کام لیا ہے۔

’’یومِ تکبیر‘‘ مناتے ہوئے ہمیں ذوالفقار بھٹو کے لازوال اعلان، جنرل ضیاء الحق کے عزمِ صمیم، غلام اسحاق خاں کی قابلِ تحسین رازداری، ڈاکٹر قدیر خان کی مسلسل تگ و دَو اور محمد نواز شریف کے غیر متزلزل ارادے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس مقامِ بلند پر پہنچنے کے لیے ان سب شخصیات نے اپنے اپنے ادوار اور اپنی اپنی حیثیتوں میں بے مثال کردار ادا کیا۔ یہ سب لوگ ہمارے اجتماعی سیلوٹ کے مستحق ہیں۔ افواجِ پاکستان کو بھی سلام جو شِکرا صفت نظروں سے شب و روز پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی اپنی جان سے بھی بڑھ کر حفاظت کر رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔