ایک ستم اور سہی

صفورا خیری  پير 30 مئ 2016

جس ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہو اسے ختم کرنے کے دو ہی طریقے ہیں یا بم گرادو، گولیاں برسادو یا سلو پوائزن دے دو۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر بم گرائے گئے تو اس کی زد میں سرکاری عمارات اور دفاتر اور نوکر شاہی بھی آئے گی، البتہ سلو پوائزن نسبتاً اس کے زیادہ آسان ہے کہ ملاوٹ، گراوٹ اور مہنگائی میں اتنا اضافہ کردیاجائے کہ عوام بغیر اسپتال جائے یونہی سسک سسک کر مرجائیں۔ تو اس کی تیاریاں پتہ نہیں کب سے جاری ہیں، مگر اس بات کا کیا حل ہو کہ ہر چند منٹ بعد گھروں میں ولادت کی بارش ہوتی ہے، افراد کم نہیں ہوتے کہ پھر بڑھ جاتے ہیں۔

پانامہ لیکس نے پوری میڈیا کی دنیا میں اودھم مچا رکھا ہے۔ ریموٹ کے جس بٹن پر انگلی دبائیے وہی چہرے، وہی اینکر، وہی طعنے و تشنے، گالم گلوچ، الزام تراشیاں گویا بحث و مباحثے میں حصہ لینے والے تمام سیاست دان، بیوروکریٹ پاکیزہ اور صاحب کردار ہوں جیسے۔ پیسے کی دوڑ نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ہر شعبے، ہر محکمے میں کرپشن، کرپشن، اور صرف کرپشن۔ اب نہ معیاری تفریحی پروگرام ہوتے ہیں نہ عملی ادبی تقاریب، المختصر یہ کہ اب میڈیا کا یہ حال ہے کہ بقول بچوں کی نظم کے:

لڑتے لڑتے ہوگئی گم

ایک کی چونچ، ایک کی دُم

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان گمشدہ اور دم کٹے بااختیار لوگوں میں ابھی اور کتنا دَم باقی ہے۔

حال ہی میں سنا ہے بلکہ یہ ہورہا ہے کہ بجٹ آنے، ایوان بالا اور ایوان زیریں کے ممبران کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے، جس کی تنخواہ دو لاکھ تھی وہ تین ساڑھے تین لاکھ ہوجائے گی۔ 50 ہزار دیگر الاؤنسز، جہاز کا کرایہ مفت، پٹرول، گیس، پانی، بجلی مفت، گاڑیوں کی ریل پیل، ملازموں کی فوج ظفر موج، پنجاب اسمبلی کے ارکان کا مطالبہ تھاکہ ان کو صرف سی فوڈ دیا جائے۔

پتہ نہیں کہ اب ان بے چاروں کو یہ مل رہا ہے یا نہیں، بلکہ خواہش تو بہرحال سراٹھاتی ہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ارمان انسان کو کبھی چین نہیں لینے دیتے، خوب سے خوب تر کی تلاش اچھی بات ہے، شاید اسی پر ہماری تمام اشرافیہ عمل پیرا ہے۔ ہمارے معزز، مہذب اور مقتدر حکمراں تو ان کا تو کہنا ہی کیا، مجال ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ان نمایندوں سے عوام کی ملاقاتیں ہو، وزیراعلیٰ اور گورنر تو درکنار، سیکریٹریز کے پی اے بھی عوام کو منہ نہیں لگاتے اور یہ کہہ کر گھنٹوں ان کو انتظار کروانے کے بعد یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ صاحب دورے پر ہیں، میٹنگ میں ہیں۔

یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ تازہ ترین اطلاع کے مطابق جائیداد کی خرید و فروخت پر بھی دس فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد ہورہا ہے۔ کیا انھیں یہ خبر نہیں کہ اس سرزمین پر کتنے کروڑ لوگ بے در و دیوار رہتے ہیں۔ کیا انھیں خبر نہیں کہ کچے مکانوں میں رہنے والوں کے مسائل کیا ہوتے ہیں، کیا یہ اس بات سے نابلد ہیں کہ ذاتی مکان صرف خوش نصیبوں کو ملتے ہیں اور ان میں ایسے بدنصیب بھی ہیں جو پائی پائی جوڑ کر چھوٹے موٹے سیم زدہ تنگ و تاریک فلیٹوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ کبھی ایک صاف ستھرے ماحول میں کبھی گھر خریدنے کی ہمت نہیں کرسکیںگے۔

ہم ٹیکس کے ہرگز مخالف نہیں کہ عوام کے ہی پیسوں سے ماشا اﷲ ملک کا کاروبار چلتا ہے، حکمرانوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔ آپ بے شک میک اپ کی مصنوعات پر پچاس فیصد ٹیکس عائد کردیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ وہی خواتین متاثر ہوںگی جن کو میک اپ کا شوق ہے اور یہ ایک اضافی یا غیر ضروری شے ہے، مگر روٹی کپڑا اور مکان تو انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔

اب اس شاندار فیصلے کے بعد کہ جائیداد کی خرید و فروخت پر دس فیصد ٹیکس لاگو ہوگا کس کی ہمت ہوگی کہ گھر خریدے یا بیچے۔ اگر کسی کے گھر کا کوئی فرد کسی مہلک بیماری سے مر رہا ہو اور اس کے علاج کا خرچہ لاکھوں میں ہو تو وہ تو اپنا گھر بیچنے سے پہلے یہ سوچے گا کہ آیا اس کے ہاتھ میں مطلوبہ رقم آئے گی بھی یا نہیں، کتنی فیصد سرکار کے خزانے اور کتنی اسٹیٹ ایجنٹ کی جیب میں چلی جائے گی۔

اب آیئے تصویر کے دوسرے رخ کی طرف جو پہلی ہی تصویر سے ملتا جلتا ہے یعنی ریٹائرڈ ملازم جن کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق پنشن ملتی ہے، اس میں اس کو تاعمر زندگی گزارنی ہے، مکان کا کرایہ بھی دینا ہے، یوٹیلٹی بل بھی، بچوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں، علاج معالجہ بھی لیکن بجٹ میں ان کے لیے صرف دس سے پندرہ فیصد اضافہ ہوتا ہے، یعنی سو میں دس روپے جب کہ دوسری طرف ارکان اسمبلی کا تمام تر مراعات دینے کے باوجود بھی ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ ’’ڈو مور، یا دو مور‘‘۔

رمضان کا مقدس و متبرک مہینہ عبادت سے زیادہ معذرت کا ہوجاتا ہے، جس دفتر میں جائیے کام چوپٹ رہتا ہے کہ صاحب روزے سے ہیں اور ان کا نچلا عملہ خالی پیٹ بات کرنے کا قائل نہیں ہوتا۔ بازار کا رخ کیجیے تو ہر شے کی قیمت بڑھ کر ببر شیر ہوجاتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ ملک میں حکومت تو شیر کی ہے اور اس کے مقابل جو کوئی آتا ہے وہ جان سے جاتا ہے۔ مہنگائی کا وہ طوفان آتا ہے کہ روزہ دار کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کاش! اﷲ میاں نے پورے سال روزے رکھوائے ہوتے بغیر سحری اور افطاری کے۔

ابھی دو دن پہلے ہی بھارت کے ایک گاؤں میں ایک شخص کو مٹی کھاتے دکھایا ہے، جو گزشتہ 25 سال سے مٹی کھارہا ہے اور زندہ ہے، اسے نہ مہنگائی سے واسطہ ہے نہ ملاوٹ سے، نہ اس کے کھانے کا خرچہ ہے، نہ چولہا جلانے کا۔ اگر ایک ایسا شخص مٹی (بالو مٹی) کھا کر زندہ ہے تو ہمارے عوام کو بھی چاہیے کہ اس کی تقلید کریں، لیکن خبردار رہیں کہ کہیں حکومت اس پر بھی ٹیکس نہ لگادے۔ پھر انھیں نہ بجٹ سے خوف آئے گا، نہ ہی قیمتوں میں اضافے سے۔ رہے حکمران اور صاحب اقتدار و اختیار تو ان کا کام آئین بنانے، قرارداد پاس کروانے (جو ان کے حق میں ہوں) کے ماسوا اس کے کچھ نہیں کہ وہ بڑوں کی آواز پر نئی نئی ترامیم لائیں، عوام کو بے وقوف بنائیں۔ اور یہ آرٹ ان کو بہت اچھا آتا ہے، مگر اب شاید ایسا نہ ہو کیوں کہ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔